مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کیلئے اسرائیل رکاوٹ۰۰۰

 فلسطین کا مسئلہ شاید حل کرنا کسی کو منظور نہیں، یہی وجہ ہوسکتی ہیکہ اسرائیل وقتاً فوقتاً فلسطینی عوام کی املاک پر غاصبانہ کارروائی کرتے ہوئے ظلم و زیادتی کرتاہے اور پھر عالمی سطح پر جب فلسطینی نہیتے مسلمان پتھروں کے ذریعہ اسرائیل فوج و سیکوریٹی ایجنسیوں کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر فائرنگ کردی جاتی ہے یا انہیں حراست میں لے کر خطرناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو اطلاعات پہنچ رہی ہیں اس سے محسوس ہوتا ہیکہ عالمِ عرب کے بعض حکمراں اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا چاہتے ہیں۔لیکن بعض عرب ممالک آج بھی فلسطینی عوام کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں اور ان پر کی جانے والی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اورفلسطینی عوام کو کسی نہ کسی طرح امداد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ہی ممالک میں ایک قطر بھی ہے۔ قطر کے امیر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا ہے کہ ان کا ملک قضیہ فلسطین کی بے لوث حمایت اور غیر مشروط مدد جاری رکھے گا۔ انہوں نے صہیونی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ عرب علاقوں سے اپنا تسلط فوری طور پر ختم کرے اور آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں ختم کرے۔الشیخ تمیم نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے عالم دن کی مناسبت سے دوحہ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ فلسطینی قوم کے منصفانہ، دائمی اور دیر ینہ حقوق کی فراہمی ہی قضیہ فلسطین کے حل کی بنیاد ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کو فلسطینی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرنے پر مجبور کیا جائے اور دو ریاستی حل کے حوالے سے عالمی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔قطر کے امیر نے کہا ہے کہ اسرائیل مسلسل امن مساعی کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے انتقامی حربے، انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں اور فلسطین میں مسلسل یہودی توسیع پسندی نہ صرف فلسطین کے تنازع کے حل میں رکاوٹ ہے بلکہ مشرق وسطی میں امن مساعی کو آگے بڑھانے کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔امیر قطر نے کہا کہ وہ دو ریاستی حل، مشرق وسطی میں دیر پاامن کے قیام، امن عمل کی بحالی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کی کوششیں جاری رکھے گا۔انہوں نے فلسطینی عوام کی مادی، سیاسی اور معنوی مدد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ قطر نے غزہ کی پٹی کے محصور شہریوں کی بجلی، ایندھن اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔قطر کی جانب سے دی جانے والی یہ امداد مظلوم فلسطینیوں کیلئے اہم حیثیت رکھتی ہے ۔ دیگر عرب ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ اسرائیل کے غاصبانہ کارروائیوں کو روکنے کی کوشش کریں اور مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی کے خلاف عالمی سطح پر شدید احتجاج درج کریں تاکہ اسرائیل ان گھناؤنے حرکتوں سے رک جائے ۔ادھر اسلامی تعاون تنظیم ’او آئی سی‘کے زیر اہتمام خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت منامہ میں منعقدہ اسلامی ثقافتی کانفرنس میں مقبوضہ بیت المقدس کو عالم اسلام کا دائمی ثقافتی دارالخلافہ قرار دیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مسلم ممالک کے وزرا ثقافت کا منامہ میں خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں بیت المقدس کو سلامی ثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اجلاس میں بیت المقدس کی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔کانفرنس سے خطاب میں او آئی سی کی سائنسی وثقافتی کمیٹی ’’آئسیسکو‘‘کے ڈائریکٹر جنرل عبدالعزیز التویجری نے کہا کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت القدس کی اسلامی تہذیب وثقافت کی علامات مٹا رہا ہے۔ عالم اسلام بالخصوص ’او آئی سی‘کے ارکان ممالک کو القدس کی تہذیب وثقافت کے تحفظ کیلئے موثر اقدامات کرنا ہونگے۔انہوں نے کہا کہ القدس کو اسلامی دنیا کا ثقافتی دارالحکومت قرار دینا اہم پیش رفت اور القدس کے حوالے سے او آئی سی کے فیصلوں کا حصہ ہے۔

قطر ۔ اوپیک سے علحدہ ہوجائے گا۰۰۰
قطر اوپیک (Organization of the Petroleum Exporting Countries)سے آئندہ ماہ علحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیجی ریاست قطر کے وزیر توانائی الکعبی نے 3؍ ڈسمبر کو بتایا کہ گیس کی پیداوار پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کیلئے قطر اوپیک سے علحدگی اختیار کررہا ہے۔وزیر توانائی نے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ قطرنے جنوری 2019ء سے اوپیک ایگزیکٹوسے اپنی رکنیت واپس لینے کافیصلہ کیاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ قطراب بھی تیل کی پیداوارجاری رکھے گا،تاہم گیس کی پیدوارپرتوجہ مرکوزکی جائے گی،جہاں دنیامیں مائع قدرتی گیس کاسب سے بڑابرآمدکنندہ ملک ہے۔ قطر کے وزیر کا کہنا ہے کہ انکے پاس تیل کے اتنے زیادہ ذخائر نہیں ہیں اسی لئے قطر تیل کے بجائے زیادہ تر صلاحیت گیس پر صرف کرتا ہے۔ قطر 1961ء میں اوپیک میں شمولیت اختیار کیا تھا اور اب جبکہ وہ اس سے علحدگی اختیار کررہا ہے اسی لئے وہ اپنے اس فیصلہ کا پہلے ہی اعلان کردیا ہے ۔ اوپیک تنظیم پر تیل کی دولت سے مالامال ملک مملکت سعودی عربیہ کا غلبہ ہے ۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب جون 2017سے قطر پر سفارتی اور اقتصادی و دیگر پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کی قیادت کررہا ہے۔ قطر کی جانب سے علحدگی اختیار کرنے کے فیصلہ کے بعد متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش نے کہا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم’’اوپیک‘‘سے قطر کے الگ ہونے کے اعلان کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قطر سیاسی تنہائی کے نتیجے میں ’’اوپیک‘‘ میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے میں ناکام رہا ہے، جس کے بعد دوحہ نے اس تنظیم سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے۔انور قاقاش کا کہنا تھا قطر کے فیصلے کے بعد دوحہ کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے’’اوپیک‘‘کے خلاف ابلاغی جنگ کا امکان موجود ہے۔خیال رہے کہ قطر گیس کی پیداوار پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور اس کے تیل کی یومیہ پیداوار6 لاکھ بیرل ہے مگر قطر دنیا بھر میں گیس کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔اس طرح قطر کی اوپیک سے علحدگی کی ایک وجہ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ کی جانب سے اس کے خلاف پابندیاں عائد کئے جانے کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے ۔ قطر پر پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد ایران اور ترکی اس سے تعاون کررہے ہیں اب دیکھنا ہیکہ اوپیک سے علحدگی اختیار کرنے کے بعد قطر کے ساتھ دیگر ممالک کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

شاہ سلمان کی جانب سے امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو دعوت
یہ ایک خوش آئند اقدام ہیکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو دعوت نامہ بھیجا ہے۔ 9؍ ڈسمبر سے ریاض میں ہونے والے خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں امیرِ قطر شرکت کرینگے یا نہیں ابھی اس سلسلہ میں کوئی خبر منظرعام پر نہیں آئی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جون2017سے قطر کے ساتھ سعودی عرب نے سفارتی اور معاشی تعلقات منقطع کرلئے تھے ۔ اب جبکہ سعودی عرب نے ایک ایسے وقت قطر کے امیر کو دعوت نامہ بھیجا ہے جبکہ قطر نے اس تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ قطر کے امیر جی سی سی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر امیر قطر جی سی سی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو پھر یہ عرب دنیا ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے لئے نہایت خوش آئند اقدام تصور کیا جائے گا اور مستقبل قریب میں ان ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوسکتے ہیں۰۰۰

مصر اور فرانس کی مشترکہ فوجی مشقیں
فرانس میں ان دنوں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ کی وجہ سے شدیدعوامی احتجاج جاری ہے۔ دارالحکومت پیرس سمیت کئی شہروں میں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد فرانسیسی صدر میخواں کو جی 20سربراہی اجلاس چھوڑ کر وطن واپس ہونا پڑا۔بتایا جارہا ہے کہ ڈیزل فرانسیسی گاڑیوں میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور گذشتہ بارہ ماہ میں ڈیزل کی قیمت تقریباً 23فیصد بڑھ گئی ہے۔ پیرس میں ہونے والی چھڑپوں میں100سے زائد افراد اور سیکوریٹی فورسز کے 23ارکان کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں اور تقریباً چار سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دو ہفتہ سے جاری ان مظاہروں میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ فرانس وزارتِ داخلہ کے مطابق ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ 36ہزار افراد نے مظاہرے میں حصہ لیا ہے ۔بتایا جارہا ہے کہ مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور پیرس کے مشہور ’’آرک ڈی ٹریومف‘‘ میں نصب مجسموں کو بھی توڑ پھوڑ دیا ہے۔صدر فرانس ایمینوئل میخواں نے اس دوران ہنگامی سکیوریٹی اجلاس بھی طلب کیا ۔ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا وافر مقدار میں استعمال کیا۔ فرانس اقوام متحدہ کے ان ممالک میں شامل ہے جسے ویٹو پاور کا اختیار حاصل ہے ۔ جب عالمی طاقت رکھنے والے اس ملک میں اشیاء ضروریہ کی وجہ سے شدید احتجاج منظم کیا جاتا ہے اور ملک کا صدر اہم سربراہی اجلاس چھوڑ کر آنا پڑتاہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عالمِ اسلام میں جو کشیدہ حالات بپا ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے مشرقِ وسطی کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں ، سعودی عرب اور دیگر عرب خلیجی ریاستوں کی جانب سے شام اور یمن کی جنگ میں خصوصی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بح تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ خود ان ممالک کی معیشت پر کاری ضرب پڑرہی ہے، اس کے باوجود آج بھی یمن، شام کے حالات جوں کے توں برقرار ہیں۔ ان حالات کے باوجود کئی عرب ممالک مغربی و یوروپی ممالک کے ساتھ اپنی فوجی صلاحیتوں کو مستحکم بنانے کے لئے مسلح افواج کی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مصر اور فرانس کی مسلح افواج کی بحر الاحمر میں بھی فوجی مشقیں جاری ہیں۔ یہ مشقیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب دوسری جانب یمن کے حوثیوں کی جانب سے بحر الاحمر اورباب المندب بندرگاہ سے عالمی جہاز رانی روکنے کی دھمکیاں دینا شروع کی ہیں۔ مصری فوج کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کا مقصد نیول فورس کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور مختلف حالات میں کسی بھی مشترکہ کارروائی کیلئے فوج کو تیار کرنا ہے۔ان مشقوں میں فوج کو خطرناک مقامات سے گذرنے کیلئے حفاظتی طریقہ کار، بحری سلامتی کو درپیش خطرات اور دہشت گردی سے نمٹنے، مال بردار بحری جہازوں کوتحفظ فراہم کرنا، بحری جہازوں اور کشتیوں کی تلاشی لینا جیسے اہم امور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔اب دیکھنا ہیکہ مصر اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرکے کس پر اپنا رعب و دبدبہ ڈالنا چاہتا ہے ، ویسے مصر کے اندرونی حالات ان دنوں کیسے ہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصری صدر وسابقہ فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کی سخت حکمرانی میں اخوان المسلمین کو خطرناک طریقہ سے خاموش کردیا گیا ہے ، کئی اخوان المسلمین کے قائدین اور کارکنوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جاچکی ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ مصر ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر قطر کے ساتھ کس قسم کے اقدام کرتا ہے۔

ایران کی جانب سے میزائل تجربہ
امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے ایک اور میزائل تجربہ کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی حکومت کا کہنا ہیکہ اس کی میزائل سازی کلی طور پر دفاعی نوعیت کی ہے اور یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تہران حکومت کا یہ بیان اس امریکی الزام کے جواب میں ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ایک نیا میزائل تجربہ کیا ہے۔ رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایرانی میزائل ٹیسٹ کی مذمت کی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کے مطابق ملکی میزائل پروگرام پوری طرح دفاعی نوعیت کا ہے اور سلامتی کونسل نے میزائل سازی سے منع نہیں کیا ۔

سعودی عرب میں خواتین کو عسکری امور میں ملازمتیں
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کی ایجنسی برائے عسکری امور نے پاسپورٹس ڈپارٹمنٹ میں پہلی مرتبہ خواتین کی سپاہی کے عہدوں پر تقرریوں کی منظوری دی ہے۔ ان خواتین کو ہوائی اڈوں اور بری راہ داریوں پر تعینات کیا جائے گا۔سعودی پریس ایجنسی ’’ایس پی اے‘‘کے مطابق محکمہ پاسپورٹ کی جانب سے ایک ویب سائٹ پر 2؍ ڈسمبر کو ایک اشتہار جاری کیا گیا جس میں خواتین امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ اشتہار میں خواتین امیدواروں کیلئے بھرتی کی شرائط بھی مقرر کی گئی ہیں اور جو خواتین ان شرائط پر پوری نہ اتریں گی ان کی درخواستیں زیرغور نہیں لائی جائیں گی۔ایمیگریشن ڈپارٹمنٹ میں خواتین سپاہیوں کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ سعودی شہری ہوں اور ان کی پرورش مملکت کے اندر ہوئی ہو۔ تاہم ان کے والدین کی بیرون ملک خدمات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔سیکیورٹی اداروں کے ہاں ان کا ریکارڈ شفاف ہو اور ان پر کوئی شرعی یا کسی دوسری نوعیت کا جرائم کا کیس نہ بنا ہو۔ انہیں کسی تعلیمی ادارے سے کسی بھی وجہ سے بے دخل نہ کیا گیا ہو۔ امیدواروں کی عمر 25 سے 35 سال کے درمیان ہو۔ انہیں میڈیکل فٹنس کاسرٹیفکیٹ بھی دینا اور لینگویج کا امتحان بھی پاس کرنا ہوگا۔ قد کم سے کم 155 سینٹی میٹر اور کسی غیر سعودی باشندے سے شادی نہ کی ہو۔ تعلیمی قابلیت کم سے کم میٹرک ہو۔ غیرملکی زبان اور کمپیوٹر کے کورس کرنے والی امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی۔
***

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.