بجلی کے بلوں کو آگ لگادو جلدی جلدی میں بھی آگ لگارہی
ہوں یہ دیکھو۔کوئی ٹیکس نہ دے بلکل نہ دے۔ ہم حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ
ہم متحد ہیں۔آج سے 2 سال پہلے ایک شخص کی طرف سے عوام سے محبت کااظہار کچھ
اسطرح سے کیا گیا تھا کہ بجلی اگر سستی نہ ہوئی تو پاکستانی قوم اپنے بل
نہیں بھرے گی، اور نہ ہی ٹیکس ادا کرےگی۔ لوگ حق حلال کا پیسہ کمارہے
ہیں۔کیوں یہ سب برداشت کریں؟ بل جلوادیے گئے اور آج وہی لوگ عواپ کو تلقین
کرہے ہیں کہ اگر آپ لوگ ٹیکس ادا کرینگے تو اپنے ملک کےلیے، اور فائدہ
سوچیں تو اپنے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں گے۔ تب ملک کی ترقی کہاں تھی جب
صرف ایک دشمنی اور بغض کی وجہ سے اس عظیم ملک کو نقصان پہنچانے کی باتیں کی
جارہی تھیں جس وطن کو اتنی تکلیفوں اتنی مصیبتوں اور جدوجہد کے بعد حاصل
کیا گیااور جہاں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں، افواج پاکستان کا خون اس وطن کی
مٹی میں شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک نعرہ کسی بھی ملک کی تقدیر بدل سکتا
ہے۔اگر وہ نعرہ مثبت ہو تو ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں اور اگر وہ نعرہ
منفی ہو تو تنزلی اور پستی مقدر بنتی ہے۔ اگر عوام میں شعور بیدار ہوگا تو
انقلاب آئے گا اور اس دور میں یہ انقلاب آنا بہت ضروری ہے۔ قوم کی تقدیر
عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور باشعور قوم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی
ہے۔ مگر اس ملک میں عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے اتنا دبا دیا ہے کہ وہ گیس
، بجلی اور پانی کے بلوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ حکمران کوئی بھی ہو جب تک
عوام باشعور نہیں ہوگی اور یہ فرسودہ زنگ لگا ہوا نظام نہیں بدلےگا تب تک
کچھ صحیح نہیں ہوسکتا۔لہٰذا تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والوں کو چاہیے کہ یوـ
ٹرن لینے کے بجائے عوام کے مسائل کو حل کریں نہ کہ انکے لئے مزید پریشانی
کا سبب بنیں۔
|