معاشی ترقی کا اصل راز

موجودہ دور میں قوموں کی مضبوطی ، طاقت اور ترقی یافتہ ہونے کا انحصار ان کی معیشت پر ہے اور کسی قوم کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جا تا کہ اس میں کتنے لوگ کتنے امیر ہیں ۔بلکہ دیکھا جاتاہے کہ اجتماعی سطح پر قوم کی معاشی حالت کیاہے ؟ مثال کے طور پر پاکستان میں چند خاندان اتنے امیر ہیں کہ ان کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں ہے ۔صرف زرداری اور شریف خاندان کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس کی زکوٰۃ بھی نکالی جائے تو پاکستان کے سارے قرضے اُتر جائیں گے۔ اسی طرح دیگر سینکڑوں خاندان ہیں جن سے ان کی دولت سنبھالی نہیں جاتی اور وہ انہوں نے آف شور کمپنیوں میں لگا رکھی ہے ۔مگر کیا اس کے باوجود پاکستانی قوم ترقی یافتہ کہلائے گی ؟ اس کے باوجود کیا پاکستان اتنا مضبوط اور طاقتور ہے کہ کسی کا محتاج نہ ہو بلکہ دوسرے ملکوں کو کنٹرول کرے ؟ہرگز نہیں بلکہ پاکستان دوسروں کا محتاج ہے ، ہر ادارہ غیر ملکی امداد پر چل رہا ہے ، قوم مقروض ہے لہٰذا ہماری پالیسیاں بھی آزاد نہیں ہیں اور 80فیصد آباد ی خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ لہٰذا اس کے باوجود کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے امیر خاندان ہیں مگر پاکستان ایک نیم خودمختار ملک اور پاکستانی قوم غریب قوم کہلاتی ہے ۔

وجہ یہ ہے کہ وہ دولت قوم کی دولت تھی اب جو صرف چند خاندانوں کی ذاتی ملکیت بن چکی ہے اور وہ دولت اب قوم کو بجائے فائدہ پہنچانے کے اُلٹا نقصان دے رہی ہے ۔کیونکہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے ۔ وہی دولت الیکشن میں لگا کر یہ خاندان حکومت میں آتے ہیں اور الیکشن میں لگائی گئی دولت کا دس بیس گنا نکالنے کے لیے ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس سے قوم کا مزید استحصال ہوتا ہے ۔اس استحصال سے جو دولت حاصل ہوتی ہے اسے وہ ملک سے باہر لے جا کرخود آف شور کمپنیوں میں لگاتے ہیں تاکہ ٹیکس نہ دینا پڑے ۔ جبکہ دوسری طرف عوام پر ٹیکس دوگنا سے چوگنا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس سے بھی جب دل نہیں بھرتا تو بیرونی قرضے لیتے ہیں اور مختلف سکیموں ، منصوبوں کے نام پر بھاری کمیشنوں اور دیگر حیلے بہانوں سے بیرونی قرضوں کی یہ رقم بھی ان چند خاندانوں کے پاس چلی جاتی ہے اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی عوام پر آجاتا ہے جو مزید ٹیکسز اور مہنگائی کی صورت میں عوام اُٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ عوام کی ہی لوٹی ہوئی دولت عوام کے لیے مصیبت بن جاتی ہے جو عوام کو غریب سے غریب تر کرتی چلی جاتی ہے اور وہ خاندان جن کے پاس عوام کی دولت اکٹھی ہو تی چلی جاتی ہے وہ امیر سے امیر تر ہو تے چلے جاتے ہیں ۔ ملک بیرونی قوتوں کی امداد کا محتاج ہو جاتا ہے لہٰذا ان کی پالیسیوں پر چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ عوام کی ساری تگ و دو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے میں صرف ہو جاتی ہے لہٰذا قومی غیرت و حمیت ختم ہو جاتی ہے اور نظریاتی سطح پر قوم شکست خوردہ ہو جاتی ہے ۔

معلوم ہوا کہ کسی قوم میں چاہے کتنے ہی امیر ترین لوگ کیوں نہ ہوں اور چاہے محلوں میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں اُن کی اس دولت سے قوم کی معیشت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ان کی دولت قومی دولت نہیں ہوتی جبکہ قوموں کی معیشت کا اندازہ صرف قومی دولت سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر آج ہم صرف ایک ڈیم بنانے کے لیے چندے مانگنے پر مجبور ہیں جبکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک مریخ اور دور دراز سیاروں اور ستاروں پر خلائی مشن بھیج رہے ہیں ، روس ، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے خلاء میں اپنی ریاستیں قائم کرنے کی تیاری کر لی ہے ۔کیا یہ سب کام وہ چندوں سے کر رہے ہیں؟ اسی طرح آج اسرائیل پوری دنیا کی حکومتوں اور میڈیا کو کنٹرول کر رہاہے تو کیا وہ یہ سب چندوں کے ذریعے کر سکتا ہے؟ہرگز نہیں بلکہ یہ سب کام قومی معیشت کے بل بوتے پر ہورہے ہیں اور ہمارے ہاں قومی معیشت کا وہ تصور ہی نہیں ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے ۔ بدقسمتی سے انگریز سامراج نے ہماری قومی اور نظریاتی اقدار کو مٹانے کے لیے اپنی سولائزیشن تو دے دی لیکن قومی معیشت کا وہ تصور ہمیں نہیں دیا جس نے جاگیرداری نظام کی جگہ لے کر یورپ کا نقشہ بدل دیا ۔ بجائے اس کے انگریز سامراج نے جانتے بوجھتے ہمارے اوپر وہی جاگیرداری نظام مسلط کر دیا جس نے یورپ کے عوام کو ایک عرصہ تک اپنے استحصالی پنجوں میں جکڑے رکھا اور اسی جاگیرداری سسٹم کے بل بوتے پر یورپ میں بادشاہتیں چلتی رہیں ۔ پھر جب صنعتی انقلاب نے سرمایہ داروں کو اُبھارا تو انہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جاگیردارانہ نظام کی جگہ جمہوریت کو متعارف کروایا ۔اس جمہوریت کے ذریعے جو لوگ حکومت میں آئے انہوں نے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ تو کیا لیکن ساتھ اپنے وطن اور قوم سے وفاداری اور محبت کا کچھ نہ کچھ ثبوت دیتے ہوئے قومی معیشت کے تصور کو بھی پروان چڑھایا جس کے تحت قومی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس قومی دولت کے بل بوتے پر ان ممالک نے موجودہ مقام حاصل کیا ۔

لیکن ہمارے ہاں انگریزوں نے اپنا جابرانہ اور ظالمانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اسی جاگیرداری نظام کو پروان چڑھایا جس کے بل بوتے پر یورپ میں پہلے ظلم و جبر پر مبنی استحصالی بادشاہتیں قائم تھیں ۔یہ استحصالی جاگیردارانہ نظام آزادی کے بعد بھی آج تک قائم ہے ۔بلکہ آزادی کے لمحات میں جب پنڈت نہرو نے بھارت میں جاگیرداری سسٹم کرنے کا اعلان کیا تووہاں کے تمام مسلمان جاگیر داربھی یہاں آگئے ۔بعدازاں اگرچہ نام کی جمہوریت بھی یہاں قائم ہوئی لیکن اس کی گردن ہمیشہ ان جاگیرداروں کے ہی ہاتھ میں رہی اور انہوں نے کبھی یہاں قومی معیشت کا تصور پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ بلکہ ملکی سیاست اور جمہوریت کی طرح معیشت کو بھی اپنی مٹھی میں رکھا ۔جب ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں جمہوریت میں تھوڑی جان آئی اور ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداری نظام ختم کرنے کی کوشش کی تو انہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا گیااور جمہوریت پر ایک مرتبہ پھر اسی طبقے کا قبضہ ہوگیا ۔اسی جاگیر دار طبقے کے لوگ پارٹیاں بدل بدل کر اسمبلیوں میں آتے رہے اور ملک کو لوٹ لوٹ کر سارا پیسہ باہر لے جاتے رہے اور دوسری طرف اسی جاگیردارانہ نظام کے اثرات تھے کہ ہر شہر ، ہر نگر اور ہر گلی میں قبضہ مافیا کا راج ہو گیا ۔یہاں تک کہ بات چائنہ کٹنگ اورجعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز تک جا پہنچی ۔اس لوٹ مار پر قوم کو مطمئن رکھنے ے لیے اگرچہ احتساب کا ایک کھیل بھی جاری رہا لیکن یہ کھیل جس بساط پر کھیلا گیا وہ ہمیشہ سیاسی رہی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قبضہ مافیا پھیلتا گیا اور کرپشن ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی کھوکھلا کر گئی ۔

اب 71سال بعد اگرچہ کرپشن اور قبضہ مافیا کے خلاف بظاہر اقدام تو نظر آرہا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن اس ساری جدوجہد کو بامقصد اس وقت تک نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ ذاتی دولت پر قومی معیشت کا تصور غالب نہ آجائے ۔موجودہ حکومت کوزیادہ سے زیادہ اس تصور کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ملکی جاگیر وہی ہوتی ہے جو ملک کے پاس ہو اور قومی دولت وہی ہوتی ہے جو قوم کے پاس ہو ۔ پھر چاہے تو قوم اس دولت سے ڈیم بنائے ، چاہے تو خلائی مشن بھیجے یا پھر خلائی ریاستیں بنائے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے قومی اور ملکی املاک اور زمینوں پر قبضہ مافیا کا قبضہ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ لوٹی ہوئی بیرونی دولت بھی واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے ۔ اس قومی دولت سے صنعتی شعبے کو ترقی دی جائے ، پی آئی اے ، ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے ،ملکی منصنوعات اور زرعی پیداوار کو بڑھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو عام کیا جائے ، صنعتی اور تجارتی شعبے میں نئے اور منافع بخش یونٹ قائم کیے جائیں ۔ اس طرح جہاں ملکی پیداور اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا، تجارتی خسارہ بتدریج کم ہوگا، وہاں ملک میں روزگار بھی بڑھے گا اور غربت میں کمی آئے گی ، ملکی معیشت ترقی کرے گی اور بیرونی امداد اور سہاروں سے بھی نجات ملے گی ۔ ملک اپنی پالیسیوں میں خود مختار اور قوم مغرب کی غلامی آزاد ہوجائے گی ۔

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 52268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.