۳ دسمبر ۱۹۷۱ کو مغربی بارڈر پر لڑائی سروع ہو گئی تھی۔ان
دنوں لاہور پولی ٹیکنک میں پڑھتا تھا ٹرین کے زریعے روزانہ گجرانوالہ سے
لاہور جایا کرتا تھا۔ہم ان دنوں باغبانپورے کی مسجد صدیقیہ والی گلی جو
حافظ آباد روڈ پر تھی وہاں ہمارا گھر تھا ،ہم نلہ سے اٹھ کر ادھر پہنچے
تھے۔ہری پور کے پہاڑی علاقے سے پنجاب کے میدان میں آئے تھے ۔یہ گھرجو اب
بھی ہے لیکن کوئی تین ماہ سے اب کرائے پر اٹھ گیا ہے چھوٹے بھائی نے بھی
یہیں ایر پورٹ سوسائٹی میں گھر لے لیا ہے۔تنگی کے دن تھے روزانہ گجرانوالہ
سے لاہور جایا کرتا۔شاہدرہ میں ۳ دسمبر کی صبح گاڑی کو رکنا پڑا ہماری گاڑی
پر بھاتی تیاروں نے حملہ کر دیا تھا۔مشرقی پاکستان میں انتحابات کی تلخیاں
تھیں وہاں عوام میں بد دلی پھیل گئی تھی۔ادھر سے عوامی لیگ بھاری اکثریت سے
جیتی تھی ادھر مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا تھا۔گرچہ
اسے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے مقابلے میں کم نشستیں ملی تھیں۔جنگ کی بنیادی
وجہ یہی تلخیاں تھیں اقتتدار عوامی لیگ کو نہیں دیا گیا۔ادھر جنرل یحی خان
کو بھٹو نے اپنے طلسم میں اتار لیا تھا۔اس سے غلط سلط فیصلے لینے میں
ذوالفقار علی بھٹو اپنا ہاتھ دکھایا۔بھٹو خود جنرل ایوب کی نرسری کا ایک
پودا تھا جو سکندر مرزا سے ہوتا ہوا ایوب کے پاس آیا اسے ڈیڈی کہا ایک
مضحکہ خیز بات بھی بتاؤں ایک بار بھٹو نے ایوب خان کو تکویز دی کہ تمام ڈی
سی حضرات کو کنونشن لیگ کا سیکرٹری بنا دیا جائے۔ایوب فاطم جناح کو ہرانے
کے بعد بڑی اکڑ فوں میں تھا اس نے یہ تجویز تو نہ مانی البتہ سیاست دانوں
پر پابندیاں لگا دیں۔ایبڈو بھی انہی دنوں کی یاد گار ہے۔مجیب اگرتلہ سازش
کیس میں بند تھا ایک آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مجیب
کو رہا کیا جائے دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ کہ ون یونٹ کو توڑا جائے ۔ون یونٹ
بھی ٹوٹ گیا مجیب بھی رہا ہو گیا۔لیکن ۷۰ کے انتحابات جن کے بارے میں یہ
پراپوگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ صاف اور شفاف انتحابات تھے۔حقیقت میں یہ
انتحابات مغربی پاکستان کی حد تک شفاف تھے لیکن مشرقی پاکستان میں یہ خونی
انتحابات تھے فضاء میں نفرت پھیل چکی تھی۔اس میں ہندو اساتذہ اور اور دیگر
پاکستان دشمن طاقتوں نے ایک شور مچایا کہ مغربی پاکستان اور خاص طور پر
پنجابی مافیا ہے جس نے پورے ملک کو دبوچ رکھا ہے۔لوگ فوج اور مغربی
پاکستانیوں سے نفرت کرنے لگے تھے۔اس کی وجوہات تاریخ کا حصہ ہیں اس پر بہت
کچھ لکھا جا چکا ہے۔پاکستان کے ٹوٹنے میں کس کا ہاتھ تھا یہ ایک لمبی
داستان ہے۔لیکن یہ ضرور بتاؤں گا کہ مشرقی پاکستان نے اردو کو قومی زبان
نہیں مانا تھا بنگلہ زبان ان میں رچ ی بسی تھی اس میں شاعری ادب اور بہت
کچھ موجود تھا جو کسی بھی سرکاری زبان میں ہوتا ہے۔یہ غلطی پاکستان بننے کے
فورا بعد ہوئی اسے تسلیم کرنا چاہئے ۔قائد اعظم ہمارے عظیم لیڈر ہیں ان سے
یہ غلط مطالبہ منوایا گیا۔بنگالی سمجھ گئے کہ اردو ہم کبھی نہیں پڑھ لکھ
سکتے۔انہیں یہ علم تھا کہ وہ پیچھے کئے جانے کے لئے اس حربے کے چنگل میں
پھنسائے گئے ہیں وہ س کو ش بولتے تھے وہ جب اردو بولتے تو ان کا تمسخر
اڑایا جاتا تھا ۔دوسری بڑی دراڑ اس وقت پڑی جب کراچی کی جگہ اسلام آباد
دارلمملکت بنا۔کراچی کا موسم گرم مرطوب تھا جو ڈھاکہ سے ملتا جلتا تھا یہاں
اسلام آباد میں بنگالی بیوروکریسی اور دیگر ملازمین کو شدید سردی نے نڈھال
کئے رکھا۔سچی بات یہ ہے کہ جب دلوں میں میل آ جائے تو جنتی موسم بھی اچھے
نہیں لگتے۔بنگلہ دیش کوئی ایسے ہی نہیں بنا۔ڈھاکہ یونیورسٹی ملک دشمنوں کا
گڑھ بن چکی تھی۔جالو جالو آگن جالو کے نعرے بلند کئے گئے مولنا عبدالحمید
بھاشانی،شیخ مجیب الرحمان اور دیگر چند پارٹیاں در اصل مغربی پاکستانی
استعمار کے خلاف تھیں۔اوپر سے وہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیت چکے تھے۔ان کی
یہ جیت بھی مانی نہیں جا رہی تھی۔نفرت کی آگ سب کچھ لے جا رہی تھی سونار
بنگلہ کے پانیوں میں کھوئے کی درد بھری آواز جو محبت پیار کے لحن تھے اس کی
جگہ جالو جالو آگن جالو کا شور اٹھا۔یہ سب کچھ ان چوبیس سالوں کی ایف آئی
آر تھی چوبیس سالوں کا رجسٹر تھا جس میں ادھر ہمارے لوگوں کی زیادتیاں بھی
تھی۔بس کہہ دیجیئے کوئی دانے گیلے تھے اور کوئی جندر ڈھیلے۔حقیقت یہ ہے کہ
انھی پیہ رہی تھی اور کتی چاٹ رہی تھی۔اندھیر اتنا تھا کہ سارے انھوں کے
گھسن تھمیوں کو لگ رہے تھے۔بڑے حیلے بڑے بہانے ڈھونڈ لیں جب آپ عزت پیار
محبت مل بانٹ کے نہیں تقسیم کریں گے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔پاکستان کے
ذوالفقار علی بھٹو،جنرل یحی خان اور مجیب الرحمان میری نظر میں یہ لوگ
متحدہ پاکستان کو رتی کنڈی سے پھینکنے میں کامیاب ہوئے ویسے تو مشیر کاظمی
نے لکھا
چوبیس برس کی فرد عمل،ہر گھر زخمی ہر گھر مقتل،اے ارض وطن ،تیرے غم کی قسم
،تیرے دشمن ہم تیرے قاتل ہم بات شاہدرے کی گاڑی سے ختم کی تو نکلتے نکلتے
دور نکل گئی ہمارے لئے مادر وطن کو دینے کے لئے جو کچھ تھا پیش کیا۔شہری
دفاع کی تربیت حاصل کی اپنے پیسوں سے وردی بنائی۔دن میں کالج جاتے واپس آ
کر رات کو سیٹیاں بجا کر گھروں کی روشنیاں بھجانے کی اپیل کرتے۔دوستوں نے
اپنے تئیں وردیاں بھی بنوا لیں ،اپنے لئے سٹار بھی خرید لئے۔ساتھ میں بھائی
افضل کے گھر کے باہر ان کی دکان میں رات کو اکٹھے ہو جاتے شکر گڑھ کی جانب
سے آنے والے مہاجریں جو جنگ کی وجہ سے اپنے عزیزو اقارب کی طرف آتے ان کا
سامان گھروں میں رکھواتے۔یہ جنگ تو جاری تھی مگر محلے کے جوانوں کو ایک شغل
میلہ بھی م گیا تھا۔گلزار،ارشد،سرفراز اور ان گنت لڑکے اپنے آپ کو فوجی رنگ
میں رنگنے کی کوشش کرتے۔سب کے کندھوں پر پھول تھے ایک ساتھی طارق ان سے
خالی تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ابا نے اسے پھول خریدنے کے لئے چونی
نہیں دی تھی وہ واحد نان کمیشنڈ آفیسر تھا۔ہر کوئی اسے آرڈر دیتا ،وہ سر سر
کہتا،ایک رات وہ تھک گیا اس نے ایک آفیسر کو سردی کی رات میں لمیا پا
لیا۔اس پر سپریم کمانڈر سرفراز بٹ بہت غصے ہوا۔
رات کے آخری پہر آخری راؤنڈ لگانے کے لئے طارق اور مجھے رسول پورے محلے کی
طرف بھیجا گیا۔سیوریج کا نظام تو تھا ہی نہیں جگہ جگہ گندے پانی کے چھپڑ
بنے ہوئے تھے۔شائد یہی تاریخیں تھیں اور سال اکہتر تھا۔ہمیں شک پڑا کہ کسی
درخت کے اوپر سے دشمن کا او پی ٹارچ لگا کر اپنے تیارے کے پائلٹ کو کہہ رہا
ہے بم یہاں پھینکو۔ہمیں یہ ٹاسک دیا گیا کہ او پی زندہ گرفتار ہونا
چاہئے۔ماسی اﷲ رکھی کا گھر جو اب سندر سنگھ آبادی میں آ گیا ہو گا ہم وہاں
تک آہستہ آہستہ گئے بلی کے پاؤں کی آہٹ تو ہو سکتی ہے ہماری نہ تھی یہ کوئی
سات آٹھ دسمبر کی کالی رات تھی۔اس وقت ٹھنڈ بھی کمال کی پڑتی تھی۔ہمیں ایک
درخت سے چمک نظر آئی،ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ ہم دشمن کے پاس پہنچ چکے
ہیں۔چشم تصور میں بھارت کا او پی ہمارے ہاھ آ گیا تھا۔شو مئی قسمت طارق (مرحوم)
کا پاؤں پھسلا اور وہ شڑاپ سے چھپڑ میں گر گیا۔دفعتا اس کے منہ سے ایک پھکڑ
اس او پی کے لء نکلا۔۔۔۔تجھے چھوڑوں گا نہیں۔محلے کے لوگ باہر نکلے دو چار
ہی تو گھر تھے ماسی رکھی کو بتایا کہ یہاں اس درخت پر اوپی ہے بد قسمتی سے
وہ او پی نہ تھا سفید رنگ کی ایک پتنگ تھی جو ہوا سے ادھر ادھر ہوتی تو
چاند کی مدھم روشنی سے ایک چمک سی پیدا ہوتی تھی۔طارق نے سخت سردی میں ہاتھ
منہ اور کپڑے دھوئے۔
کالم میں اس قسم کی باتوں کا ذکر شائد کچھ لوگوں کو اچھا نہ لگے لیکن میں
اس نسل کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کبھی زندگی میں پاک فوج کو برا نہیں
مانا اور نہ ہی اس کی برائی کی۔ہو سکتا ہے کبھی جھول ہو گئی ہو کبھی کوئی
غلطی فوج نے بھی کی ہو لیکن یہ تو نہیں ہوا کہ کہ پاک فوج کو دشمنوں کے
سامنے بے توقیر کیا ہو۔اس نصف صدی میں یہ مند ہو گیا کہ اب جس کسی کو کوئی
پہچانتا نہیں وہ بھی پاک فوج کے خلاف منہ کھولتا ہے۔پاکستان کا دو لخت ہونا
کلجہ پھٹتا ہے۔دوسرا کالم ۱۶ دسمبر کو لکھوں گا۔اور بتاؤں گا کہ پاکستان کے
ساتھ کیا کھلواڑ ہوا۔آج ووٹرز ڈے تھا راولپنڈی میں ایک بڑی تقریب ہوئی میں
نے کچھ باتیں وہاں کیں ۔خوش رہئے۔آپ کا رابطہ کرنا آپ کی برید الیکترونی(ای
میل) مجھے اچھی لگتی ہے۔بھائی افضل کی دکان،پرالی،طارق،گلزار،ماسی
رکھی،چھپڑ،درخت پر اٹکی گڈی یہ سارے استعارے پاکستان سے پیار کے استعارے
ہیںْبس ایک بات دسمبر سے کرنی ہے کہ پھر نہ ؤنا بلیک دسمبر تو میرے سونار
بنگلہ کو کھا گیا،البدر الشمس کے جوانوں کے قاتل پھر نہ آنا۔تیری آمد نے نے
اب تک بنگلہ دیش کی پھانسی گھاٹوں کو آباد کر رکھا ہے۔کئی عصر حاضری کے
مودودی کھا گیا ہے تو۔
|