بینائی کی قوت

ہمارے ہاں جس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جانا مقصود ہوتا ہے اس کیلئے بے شمار دلائل بھی تراش لئے جا تے ہیں یہ الگ بات کہ ان دلائل میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور نہ ہی قائل کرنے کی کوئی بنیاد ہوتی ہے ۔جب دلیل اور منطق کا کوئی وجود ہی نہیں ہو گا تو عوام ایسی دلیل کو کیسے پذیرائی بخشیں گے؟ لیکن اس کے باوجود میڈیا کا پیٹ بھرنے کیلئے اس طرح کے بے سرو پا دلائل انتہائی ضروری تصور ہوتے ہیں اور انھیں زورو شور سے جار ی کیا جا تا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ وہ بات جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں اسے دوسروں کیلئے ہر گز پسند نہیں کرتے۔ایک زمانہ تھا کہ عمران خان بھرے جلسوں میں بجلی کے پل جلایا کرتے تھے اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان میں زرِ مبادلہ بھیجنے کو بہت بڑا کارِ خیر سمجھتے تھے ۔ انھوں نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کر رکھی تھی کہ وہ بینکوں کی بجائے ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجا کریں ۔مقصد میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو نیچا دکھا نا تھا لیکن اس سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچ سکتا تھا اس کا ادراک عمران خان کو بالکل نہیں تھا۔اب وہ بر سرِ اقتدار ہیں تو معیاربدل گیا ہے ۔اب عمران خان کو زرِ مبادلہ کی ضرورت ہے لہذا ہنڈی کی بجائے بینکوں سے پیسے بھیجنے کیلئے قانون سازی کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔چند ماہ کے اندر انسان کے اندر اس طرح کی تبدیلی سمجھ سے با لا تر ہے۔عمران خان ایک جہاندیدہ انسان ہیں اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ یورپ میں گزارا ہے لہذا وہ اس طرح کی اپیلوں کے معنی خوب سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے ذاتی مفادات کی آڑ میں ملکی دشمنی سے دریغ نہیں کیا۔کیا کوئی صاحبِ ہوش و حواس شخص اس طرح کی اپیل کر سکتا ہے ؟در اصل ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ذاتی مفاد ا ت کی خاطر اس طرح کی بے سرو پا اپیلیں کرتی رہتی ہیں۔ ضروری تھا کہ آئین سے بغاوت کی اس جرات پر ریاست ان کے خلاف مقدمہ دائر کرتی لیکن جب کسی کو مقتدر حلقوں کی حمائت حاصل ہو گی تو پھر انھیں کون ہاتھ لگا سکتا ہے ۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دینا ،قبریں کھودنا اور کفن پوش دستوں کے ساتھ احتجاج میں شریک ہونا پاکستان میں انوکھا تجربہ تھا جو کہ مقتدر حلقوں کی سر پرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ وہ لیڈر جس کی پہچان دھ رنا اور احتجاج تھا اسے اپوزیشن کے احتجاج سے ملک دشمنی کی بو آتی ہے ۔،۔

ہمارے ہاں ہمیشہ دہرے معیارات قائم ہیں۔وہ جو اپنی جماعت میں ہیں وہ انتہائی پارسا اور امین ہیں لیکن جب وہ دوسری جماعت میں ہوتے ہیں تو انتہائی بد دیانت اور کرپٹ ہوتے ہیں۔یہاں سیاسی جماعت بدلنے سے لوگوں کے خصائص بدل جاتے ہیں۔جھنیں ڈاکو اور کرپٹ کہہ کر ہدفِ تنقید بنایا گیا جب انھوں نے اپنی وابستگی بدلی تو ن کے سارے الزامات ہوا میں تحلیل ہو گے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ لوگ راتوں رات سیاسی جماعتیں بدل لیتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کی خاندانی وجاہت اور تفاخر کی بنیاد پر انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔ جاگیر داری، وڈیرہ ازم اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے مظاہرے ہم روز دیکھتے ہیں اور دولت کی قوت کے کرشموں سے فیض یاب ہو تے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی دولت کی طاقت کا ہر سو راج ہے اور عوام نفسیاتی طور پر دولت کی چمک سے متاثر ہیں۔وہ دولتمندوں کو خدا کی خا ص عنا یات کا سزاوار سمجھتے ہیں اور ان کی کاسہ لیسی کو اپنے لئے بڑا فخر تصور کرتے ہیں۔انھیں کسی امیدوار کے ذاتی خصا ئص سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کتنے مال و دلت کا مالک ہے ۔ اس کے دل میں غربت کی وجہ سے جس نفسیاتی کمتری کا ڈیرہ ہوتا ہے اہلِ ہشم سے اپنی رغبت،دوستی اور تعلقات سے اس کمزوری پر قابو پانے کی ادنی سی کوشش کرتا ہے ۔اگرعوام صدقِ دل سے یہ فیصلہ کر لیں کہ انھوں نے ملکی مفاد میں بہترین افراد کا انتخاب کرنا ہے تو ملک کی تقدیر دیکھتے ہی دیکھتے بدل جائیگی۔لیکن ہمارے ہاں بہترین افراد کو کب ووٹ ملتے ہیں؟عوام دولتمندوں کے د رپر جھکتے،سجہدہ سہو بجا لاتے اور ان کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں الیکشن اب امراء کی عیاشی رہ گئے ہیں۔لاہور کے ضمنی انتخاب میں ولید اقبال کی بجائے نو وارد ہمایوں اختر کو ٹکٹ سے نوازنا اسی طرح کی ذہنیت کا اظہار تھا۔ کہاں ولید اقبال اور کہاں ہمایوں اختر؟ دونوں کے ذہنی ، علمی اور خاندانی پسِ منظر میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ٹکٹ دیتے وقت ولید اقبال کو محض اس وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا کہ ان کے پاس الیکشن کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے دولت کے انبار نہیں تھے۔وہ اپنی علم دوستی اور عوام دوستی کی وجہ سے پورے پاکستان میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا پوتا ہونے کی جہت سے انھیں ترجیحی مقام دیا جانا چائیے تھا لیکن الٹا ان کے مقام کو نظر انداز کر کے انھیں ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ۔اہل کو ناہل سے بدل دینے کا یہی ہے ہو مائنڈ سیٹ جس نے پاکستان کی ترقی کو روکا ہوا ہے۔،۔

میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ہمارے ہاں چند خانداوں نے ملک کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔ان کی ذاتی شہرت اور دولت نے ملک کے اندر فتور پیدا کیا ہوا ہے۔وہ ہر انتخاب سے پہلے اشاروں کا انتظار کرتے ہیں اور اشارہ ملنے کے بعد سیاسی جماعت بدل لیتے ہیں۔ان کے دل میں کسی انقلاب،تبدیلی یا عوام دوستی کا کہیں کوئی وجود نہیں ہوتا ۔وہ ذاتی اثرو رسوخ اور دولت کی قوت سے پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن ان کا باطن بالکل تاریک ہو تا ہے۔ان کے من میں کسی بھی قسم کی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔وہ گدھوں کی طرح پاکستان کو نوچ رہے ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے ان کے سامنے تازہ شکار پھینکا جاتا ہے لہذا ان کا نوچنا بند نہیں ہوتا صرف شکار بدل جاتا ہے۔کبھی جنرل ضیاء ،کبھی جنرل مشرف،کبھی نواز شریف اور کبھی عمران خان ان کیلئے تازہ شکار کا بدو بست کرتے ہیں تا کہ ان کی حمائت ان کے اقتدار کو دوام بخشتی رہے ۔ ذاتی اقتدار کی خاطر ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں اور قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑتی ہے۔کوئی سیاسی جماعت ان کی ہوس پرستی پر کوئی روک نہیں لگاتی۔وہ جہاں بھی جائیں گے اپنی عادات کے ہاتھو ں مجبور ہوں گے۔وہ کریں گے وہی جو انھوں نے کرنا ہو تا ہے۔ان کیلئے کسی قسم کا کوئی ضابطہ اور اصول نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اخلاقی معیار ہو تا ہے۔اعظم سواتی اس کی کلاسیک مثال ہے۔پہلے تو غریب خاندان کی عورتوں اور بچوں کوجیل یاترہ کروائی اور پھر ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔تفاخر کے نشہ کی حالت تو دیکھئے کہ بھینسوں کے کھیتوں میں گھس جانے پر غریب خاندان کی ایسی درگت بنا ئی گئی جو تصور سے بالا تر ہے ۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس سے بہت سے نئے حقا ئق منظرِ عام پر آ گئے جس سے معاملہ انتہائی سنگین ہو گیا۔پی ٹی آئی اس بات کا ڈھنڈورا بڑے زورو شور سے پیٹ رہی تھی کہ یہ جماعت انتہائی شفاف ۔یہ فرشتوں کی جماعت ہے اور اس میں کسی قسم کی کرپشن اور لوٹ مار کا کوئی وجود نہیں ہے لہذا یہ ملک کو لوٹ مار کے پرانے کلچر سے نجات دلا کر احتساب کا نیا نظام متعارف کروائے گی لیکن ابتدائی ایام میں ہی اس کے کئی وزرا ء کرپشن کی وجہ سے مستعفی ہو چکے ہیں ۔ ابھی یہ معاملہ اور آگے جائیگا کیونکہ آثار بتا رہے ہیں کہ کچھ مزید وزرا کو بھی مستعفی ہو نا پڑیگا ۔عوام نے جس جماعت سے امیدیں وابستہ کی تھیں اس نے انھیں مایوس کیاہے ۔کچھ لوگوں کی خام خیالی تھی کہ عمران خان کی موجودگی میں کوئی شخص کسی پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی کسی کو بزورِ ِ قوت دبا سکے گا لیکن ہوا اس کے بالکل بر عکس۔عمران خان تو اعظم سواتی کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن میڈیا اور عدلیہ کے دباؤ کے سامنے سب کو سر نگوں ہو نا پڑا۔وہ جو پی ٹی آئی کو فرشتوں کا گروہ سمجھتے تھے انھیں ضرور مایوسی ہوئی ہو گی لیکن طویل سیاسی تجربہ رکھنے واے اہلِ دانش کیلئے یہ معمول کی کاروائی تھی ۔وہ ایسا تماشہ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں لہذا انھیں انجام کا پہلے ہی علم ہو تا ہے ۔کبھی کبھی عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے تماشے میں نیا پن اور سنسنی داخل کی جاتی ہے لیکن ایسے تماشہ کا انجام نوشتہ دیوار ہو تا ہے۔جو چاہے اسے پڑھ سکتا ہے لیکن جو نہ پڑھنا چاہے اس کی مرضی ۔اندھے نوشہ دیوار نہیں پڑھ سکتے۔ نوشتہ دیوار پڑھنے کیلئے بینائی کی ضرو رت ہوتی ہے جو کہ عطیہ خداوندی ہوتی ہے اور ہر ایک کو نہیں ملا کرتی۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.