تحریر:ام محمد عبداﷲ
وہ کون ہے۔ ایک پاکستانی، پاکستان سے محبت کرنے والی ایک پاکستانی، وہ کہتی
ہے میرا دل چاہتا ہے میں جب بھی پاکستان کو لکھوں خوبصورت لکھوں۔ اسے
پھولوں، خوشبووں، تتلیوں، جگنووں کا مسکن لکھوں۔ اسے بہتے جھرنوں، مہکتی
کلیوں، تاباں کرنوں، چمکتے ستاروں اور کھلکھلاتے بچوں کا آنگن
لکھوں۔اسیسرفروشوں کی قربانیوں، اہل علم و ہنر کی جانفشانیوں، افواج
پاکستان کی جراتوں کی داستاں لکھوں۔ ہر حرف ہر لفظ ہر سطر چمکتا دمکتا
درخشاں لکھوں۔
لیکن آج آج اس کے حصے میں سیاہ رات کی تاریکی لیے 16 دسمبر 1971 کی تاریخ
آگئی ہے۔ نہیں نہیں اس دن سے اس تاریخ سے تو وہ روز اول سے گھبراتی ہے، ڈر
جاتی ہے، لڑکھڑا سی جاتی ہے۔ ہونٹ کپکپا کپکپا جاتے ہیں۔ قلم لرز لرز جاتا
ہے۔ وہ بیدم سی، نڈھال سی ہو جاتی ہے۔ دیکھو مجھے جانے دو۔ یہ میرے بس کا
کام نہیں۔ ہاں دیکھو یہ دیکھو، وہ کیلنڈر الٹنے پلٹنے لگتی ہے۔ ستمبر 1965
یوم دفاع کی بات کرو۔ 22 فروری 1974 دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی بات
کرو۔ 28 مئی 1998 یوم تکبیر کی بات کرو۔ مجھے جانے دو۔ لیکن کیلنڈر میں
لکھی یہ تاریخ ٹس سے مس نہیں ہوتی کسی سیاہ عفریت کی پھنکار لیے اس کی جانب
بڑھنے لگتی ہے۔ نہیں مجھے جانے دو۔ وہ اب بھی بچ نکلنا چاہتی ہے۔ عفریت
اپنے سیاہ بھیانک ہاتھوں کے ناخن اس کے بازوں میں گاڑ دیتی ہے۔ میں موجود
ہوں اپنی مکمل حقیقت لیے۔ کہاں بھاگتی ہو؟ کہاں بھاگ سکتی ہو؟ وہ قہقہ
لگاتی ہے۔
وہ گبھرائی ہوئی تو پہلے بھی تھی اور خوفزدہ ہو کر وہیں اپنے آپ میں چھپنے
لگتی ہے کہ یہ تاریخ تو کسی آسیب کا سایہ بن کر اسکے گرد ناچنے لگتی ہے۔
سنو سنو سنو! مشرقی پاکستان کی غربت اور اہل اقتدار کی بے حسی۔ مشرقی
پاکستان کا بڑھتا ہوا احساس محرومی اور حکمرانوں کا غیر سنجیدہ رویہ
سیاستدانوں کی فقط اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ اور جغرافیائی ناموافق پس منظر۔
میر جعفر اور لارڈ کلائیو کا گٹھ جوڑ کی مانند اندرا گاندھی اور مجیب
الرحمان کا گٹھ جوڑ۔ جنرل نیازی اور جنرل یحیی کی جذبہ ایمانی سے محروم
قیادت۔ 90 ہزار فوج کا ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن جانا۔ (اور ان معصوم اور
غیور فوجیوں کو جو شہادت کی آرزو میں تڑپتے ہوئے بھارتی قید خانوں میں ذلت
اٹھانے پر مجبور ہوئے)
نہیں نہیں نہیں یہ سب تو اس عیار و مکار دشمن ہمسائے کی کارگر سازش کا
نتیجہ ہے وہ چلاتی ہے۔ وہ نریندر مودی سینہ ٹھونک ٹھونک کر اعلان کرتا
پھرتا ہے کہ 1971 میں مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان میں لڑنے والی
افواج بھارتی تھیں۔ وہ گاندھی تو روز اول سے کہہ رہا تھا تقسیم ہندوستان
انہیں منظور نہیں اور وہ پاکستان توڑ کر رہیں گے۔
اندرا گاندھی اپنی صد سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھی۔ بھارت
ہمیشہ ہمارے خلاف سرگرم عمل رہتا ہے۔ وہ اپنی کانپتی آواز میں کیلینڈر کی
اس بولتی تاریخ کو چپ کرانے کی کوشش کررہی تھی۔ یہ عفریت نما تاریخ تو
خاموش نہیں ہوتی الٹا قہقہ لگا کر ہنس دیتی ہے۔ ارے دشمن سازش نہیں کرے گا
تو اور کیا کرے گا؟ تمہیں پھولوں کے ہار پہنائے گا۔ مدینہ والوں کو کسں نے
چین سے بیٹھنے دیا تھا؟ مشرکین، منافقین، یہود۔ دشمن دشمن ہے تو سازش تو
ضرور کرے گا۔ حملہ بھی کرے گا۔ دیکھو اپنے مورچے میں میر جعفر کس گود میں
پل کر پروان چڑھ رہا ہے؟ وہ اب رونے لگی تھی۔ اس سب کا جواب اس کے پاس نہیں
تھا۔ بس ابھی سے رونے لگیں، سنو۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جو
1940 میں لاہور میں منظور ہوئی ایک بنگالی لیڈر ہی نے تو پیش کی تھی۔ 1971
میں مشرقی پاکستان کے معصوم عوام پاکستان سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے۔ جب
مکتی باہنی کے غنڈے خنجر کی نوک ان کی گردنوں پر رکھ کر جے بنگلہ کا نعرہ
لگانے کا کہتے تو وہ پاکستان زندہ باد کہتے اور موت کو گلے لگاتے۔ اہل
پاکستان وہ چیخیں، وہ لہو تم کیسے اپنے نرم گرم بستروں میں سو سکتے ہو۔16
دسمبر 1971 کی سیاہ تاریخ اپنی سرخ انگارہ آنکھوں کے ساتھ شعلے اگلتی اسے
گھورنے لگی تھی۔ نہیں نہیں نہیں میں کچھ سننا کچھ دیکھنا نہیں چاہتی۔ بے
بسی گھبراہٹ اور بے چینی میں وہ جلدی سے کیلنڈر الٹنے پلٹنے لگتی ہے۔ گم
کرو اپنی منحوس شکل میں تمیں دیکھنا سننا نہیں چاہتی۔ کیلنڈر کے ورق الٹنے
لگتے ہیں۔ وقت کی سوئیاں آگے بڑھنے لگتی ہیں۔ وہ ہانپ رہی ہے کانپ رہی ہے۔
1971 کی جنگ ختم ہوگئی ہے؟ کیا واقعی؟ لیکن اس کے ذہن و دل میں تو گھمسان
کا رن پڑا ہے۔
16 دسمبر 2014، سانحہ پشاور
مثل موسی ماں بہا دے مجھ کو نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں۔
آرمی پبلک سکول پشاور ، میرے پھول سے بچے، میرے جگنو، میری کلیاں میری
خوشبو میرا آنگن میرا سب کچھ۔ ہاں میرا سب کچھ۔ کوئی آنسو، کو ئی سسکی کوئی
چیخ کچھ بھی نہیں یہ جو زخم پر زخم لگا ہے۔ یہ جو صدمے پر صدمہ پہنچا ہے۔
اسے جھنجھوڑ گیا ہے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ وہ اس تاریخ کے آگے تن کر کھڑی
ہو گئی ہے۔ ہاں مجھے نہیں بھاگنا تم سے۔ تم موجود تھیں۔ موجود ہو۔ مجھ
بتانے مجھے سکھانے کو کہ آنسووں سے بہت سے دئیے بجھ چکے ۔آو اب آنسووں سے
چراغاں کریں۔
وہ جس حوصلے سے اٹھی تھی اس نے 16 دسمبر کی تاریخ کو عفریت نہیں رہنے دیا
تھا، استاد بنا دیا تھا۔ تاریخ کہہ رہی تھی۔ میں بتاوں تمہیں۔ آفتیں اور
مصیبتیں کب آتی ہیں۔ جب تم تفرقہ کرتے ہیں۔ اﷲ تعالی کی رسی(قرآن پاک) سے
ناطہ توڑ لیتے ہو۔ وہ قادر مطلق فرماتا ہے تم سب ملکر اﷲ کی رسی کو مضبوط
تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔
تم کون ہوں؟ 16 دسمبر کی تاریخ اس سے پوچھ رہی تھی۔ وہ سوچنے لگی۔پنجابی؟
سندھی؟بلوچی؟ پٹھان؟ اہل سنت؟ بریلوی ؟دیوبندی؟ اہل حدیث؟ یا۔۔۔؟ اور میں
کس سے کس معاملے میں بہتر ہوں؟ وہ تو سوچ میں پڑ گئی۔ رک سی گئی۔ ٹھہر ہی
گئی۔ لہو لہو 16 دسمبر کی تاریخ کہہ رہی تھی۔ اﷲ تعالی نے تمہارا نام
مسلمان رکھا ہے۔ اﷲ تعالی نے تمہارے لیے مذہب اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ کسی
عجمی کو کسی عربی پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی کالے کو کسی گورے پر
اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت و بڑائی کا معیار تقوی
اور پرہیزگاری ہے جس کی سند اﷲ عزو جل کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ دوڑو اس رب
کی طرف۔ تھام لو اﷲ کی رسی(قرآن پاک) کو متحد ہو کر۔ باہم تفرقہ نہ کرو۔
ہاں میں مسلمان ہوں صرف مسلمان مجھے کسی علاقے کسی مسلک کے اضافی ٹیگ کی
قطعا ضرورت نہیں۔ وہ قطعیت کے ساتھ اپنی مسلم شناخت پر مطمئن ہو گئی تھی۔
16 دسمبر کی تاریخ کہہ رہی تھی۔ اے امہات پاکستان۔ دیکھو کوئی میر جعفر
تمہاری گود میں پروان چڑھنے نہ پائے۔ دیکھو شہیدوں کا خون رائیگاں نہ جائے۔
پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرو۔ دیکھو۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔
اس قلعے کی تعمیر اس کی مضبوطی تمہارے بچوں کی بہترین تربیت میں چھپی ہے۔
یہ بھاری ذمہ داری اور فرض تمہارے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ اس سے پہلے کے وہ
چالاک و عیار دشمن تمہارے بچوں کے ذہن و دل اچک لے جائے انہیں قرآن پاک سے
سنت رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے جوڑ دو۔
اﷲ تعالی کا وعدہ ہے تم ہی غالب آو گے اگر تم مومن ہو اور اﷲ سے بڑھ کر
اپنے وعدوں میں سچا کون؟
|