آج 10دسمبر ہے۔راولپنڈی اسلام آباد، مظفر آباد سمیتآج جگہ
جگہ سیمینارز ، جلسے، جلوس، احتجاج ہو رہے ہیں۔10دسمبر2018 کو انسانی حقوق
کے عالمی دن کے موقع پر اعلامیہ کی 70ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔اقوام
متحدہ نے انسانی حقوق کایونیورسل ڈیکلریشن 1948میں جاری کیا ۔ جس میں
مساوات، انصاف اور انسانی عظمت کے لئے کھڑے ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ 70سال
گزرنے کے بعد بھی دنیا بھر میں طاقت ور اور قابض ممالک عوام پر بدترین
مظالم ڈھا رہے ہیں۔ نسل کشیاں کی جا رہی ہیں۔ ریاستی دہشتگردی جاری ہے۔
ریاستی دہشتگردی میں سر فہرست بھارت اور اسرائیل ہیں۔جو کشمیریوں اور
فلسطینیوں کا قتل عام 71 سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور دونوں مل کر بھی
عوام کش کارروائیاں کر رہے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت القدس کو
اسرائیل کا مرکز تسلیم کر کے اور بھارت کو جدید اسلحہ سپلائی کر کے اس قتل
عام کی حمایت کی ہے۔جس سے طاقت ور اور جارحیت پسند دنیا کے رحجان اور قتل
ہوتی انسانیت کی بے بسی کی عکاسی ہوتی ہے۔بھارتی فورسز کشمیر میں انسانی
حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان
خورشید نے سرینگر میں اعترافکیاکہ کنن پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں کی جانب
سے اجتماعی زیادتی کے واقعہہوااور وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔وہ
صرف افسوس کا اظہار کر سکے۔ بھارتی فوج کے آگے وزیر خارجہنے اپنی بے بسی کا
اعتراف کیا۔کنن پوش پورہ کا المناک واقعہکوئی نہیں بھول سکتا ۔ یہ مقبوضہ
کشمیر میں ضلع کپواڑہ کی ایک بستی ہے۔ 23فروری 1991کو رات کے گیارہ بجے
بھارتی فوج کی بدنام زمانہ 4راجپوتانہ رائفلز نے بستی کو محاصرے میں لیا۔
فوجیوں نے مقامی آبادی کے مطابق ایک سو خواتین کو اجتماعی درندگی کا نشانہ
بنایا۔ ان کی عمریں8سے 80سال کی تھیں۔اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ایس ایم یاسین
نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی کہ بھارتی اہلکاروں نے بندوق کی نوک پر درندگی
کا مظاہرہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائی
کورٹ سرینگر مفتی بہاؤلدین فاروقی نے فیکٹ فائینڈنگ مشن کنن پوش پورہ
ببھیجا۔ اس نے تصدیق کی کہ 53خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
۔ اس کے باوجود فوج کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہ کی گئی۔ بھارتی فوج نے پریس
کونسل آف انڈیا سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ کونسل کی ایک ٹیم نے وادی
کا دورہ کیا اور اجتماعی زیادتی کو جھوٹ قرار دے دیا۔ دہشت گرد فوج کو بے
قصور ثابت کر دیا۔یہ بھارتی میڈیا کا کشمیر کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل
ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے جب آواز بلند کی تو پریس کونسل آف
انڈیا کی رپورٹ ہی جھوٹی ثابت ہوئی۔ لیکن آج تک کسی بھی فوجی کو سزا نہ دی
گئی۔ نہ ہی پریس کونسل کی جھوٹی رپورٹ کے خلاف کسی نے کوئی لفظ ادا کیا۔چیف
جوڈیشل مجسٹریٹ کپواڑہ جے اے جیلانی نے اس واقعہ کے 22سال بعد کنن پوش پورہ
کیس کو دوبارہ کھولنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس کیس کی انکوائری ایس ایس
پی یا اس سے بڑے رینک کا پولیس افسر کرے۔ عدالت نے تحقیقا ت تین ماہ میں
مکمل کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت نے انسانی حقوق کے کارکن پرویز امروز کی
درخواست پر انکوائری کا حکم دیا ۔ مگر ابھی تک کچھ نہ ہوا۔2011ء کو ریاستی
انسانی حقوق کے ا دارے نے بھی کیس کو از سر نو کھولنے کی درخواست دی ۔ یہ
بات قابل زکر ہے کہ آج تک راجپوتانہ رائفلز کے 125اہلکاروں کی نہ تو شناختی
پریڈ کی گئی اور نہ ہی پولیس نے ان سے تفتیش کی ۔ کسی طرف سے کوئی آواز
بلند نہ ہوئی۔
’’بھارتی فوجیوں نے اس کے کپڑے اتار دیئے۔ کلائیاں باندھ دیں۔ بوٹوں سمیت
اس پر چڑھ گئے اور اس کا جسم کچل ڈالا۔ساری رات شدید تشدد کے باوجود وہ
پاکستان کا قومی ترانا گاتا رہا۔‘‘یہ داستان اس کم عمر کشمیری لڑکے کی ہے
جسے بھارتی فوجیوں نے سرینگر کے ڈاؤن ٹاؤن علاقے سے گرفتاری کے بعد کیمپ
میں لایا اور ٹارچر کا نشانہ بنایا۔اسے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے
اپنی رپوٹ میں بیان کیا۔ اخبار 14سالہ لڑکے کے حولے سے لکھتا ہے کہ اس کا
قصور یہ تھا کہ اس نے بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے کے دوران فورسز پر پتھراؤ
کیا اور بھارتی اہلکاروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ کشمیری
لڑکے نے پاکستان کا قومی ترانہ اس لئے گایا کہ وہ جانتا تھا کہ اس سے
بھارتی فوجیوں کو شدید تکلیف ہو گی۔مقبوضہ کشمیر میں کم عمر بچوں کو نہ صرف
گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ان پر
دہشت گردی کے مقدمے قائم کئے جاتے ہیں۔ ہتھکڑیوں میں جھکڑ کر انہیں عدالتوں
میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ عدالتوں سے سزائیں دلائی جاتی ہیں۔ اس وقت بھی لا
تعدا د کشمیری بچے بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔کشمیری بچوں کے ساتھ ظالمانہ
اور غیر انسانی سلوک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والی بھارت
کی فوج رو ا رکھے ہوئے ہے۔سرینگر کے سعد کدل علاقہ کا 17سالہ طفیل اشرف مٹو،
فردوس احمدککرو، ساکن نگلی سوپورعمر 16سال، تجمل بشیر بٹ17، واڈورہ سوپور ،
توقیر راتھر، 9،دلنہ بارہمولہ، اشتیاق کھانڈے15اسلام آباد، فیضان
بوہرو،13،محلہ جلال صاحب بارہمولہ، ابرار خان،16,مائسمہ سرینگر، عادل رمضان
شیخ،13،پٹن، بشارت ریشی،14، وچی سنگھم، عاشق حسین بٹ،15، کلگام اسلام آباد،
رمیض بٹ، 16، کلگام، سمیر احمد راہ،9، بٹہ مالو سرینگر، سہیل احمد ڈار،15،
زینہ کوٹ سرینگر، عائشیہ شیخ حبہ کدل سرینگر، مدثر احمد زرگر،16، ترہگام
کپواڑہ، عمر ڈار، 16، ناربل سرینگر، علی محمد کھانڈے،60سال، پٹن، ملت احمد
ڈار،8سال، کھڈونی اسلام آباد، ارشاد پرے،،11،قدیم عید گاہ اسلام آباد، دانش
نبی، 13،چرار شریف، رفیقہ بانو اوم پورہ بڈگام، حاجرہ،55، ریڈونی کلگام،
راجو ناتھ، 14، رتھ پورہ کھنہ بل، مبینہ اختر نٹی پورہ سوپور، عمر سلمان
بٹ،16،پوتکھاہ سوپور۔ یہ سب شہید ایسے ہیں جن کی عمریں 8سے 17سال کی ہیں۔
ان میں ایک بزرگ کی عمر 60سال ہے۔ ان میں سے اکثر بچوں کو مظاہرے کے دوران
یا پتھراؤ کے وقت گولی نہیں ماری گئی۔بلکہ بچوں کو کھیلتے ہوئے یا کسلو
جاتے ہوئے یا پھر گھروں میں گولی ماری گئی۔ بھارتی فوج نے سات سالہ سمیر
راہ کو اس کے گھر میں گولی مار دی۔ طفیل متو کو اس وقت گولی ماری گئی جب وہ
ٹیوشن پڑھ کر گھر لوٹ رہا تھا۔ زاہد فاروق کو کرکٹ کھیلتے ہوئے گولی ماری
گئی۔ فدا کو اس کے گھر کے دروازے پر شہید کیا گیا۔ اشتیاق کھانڈے کو اس کے
آہنگن میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ جبکہ نصف درجن خواتین بھی ہیں جنھیں
بھارتی فوجیوں نے بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کے دوران شہید کیا۔یہ
شہادتیں جون، جولائی، اگست2010کو ہوئیں۔ لیکن قاتل اور جرائم پیشہ بھارتی
فوج کے کسی ایک اہلکار کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ کیوں کہ بھارتی فوج کو
کشمیریوں کو قتل کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ ان پر دنیا کی کسی عدالت میں مقدمہ
نہیں چلایا جاسکتا۔ یہ فوج کنکر کے جواب میں گولی چلانے کا اختیار رکھتی
ہے۔جس فوج کے پاس اس قدر بے جا اختیارات ہیں کہ کوئی بھی فوجی کسی کشمیری
کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ سے گرفتار کر سکتا ہے۔ اسے برسوں تک انٹروگیشن
سنٹر میں رکھ سکتاہے۔ اسے سلاخوں کے اندر ڈال سکتا ہے۔پتھر پھینکنے پر بچوں
کو گولی مار کر شہد کر سکتاہے۔ امرناتھ شرائن بورڈ کو کشمیر میں غیر قانونی
طور پر اراضی الاٹ کرنے خلاف مظاہروں میں درجنوں کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فورسز کے مظالم کا نیا سلسلہ شروع ہو ا
ہے۔ جس میں شدت لائی گئی ہے۔ہزاروں کشمیریوں کو پیلٹ فائرنگ سے آنکھوں سے
محروم کر دیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں لا تعداد کالے قوانین ہیں۔ جن میں ٹاڈا،
پوٹا، پبلک سیفٹی ایکٹ، آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ قابل زکر ہیں۔ مقبوضہ
ریاست عملاً فوجی سٹیٹ ہے۔ اس پر فوج کا ہی حکم چلتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت
کی نیم فوجی دستوں کو بھی لا محدود اختیارات دیئے گئے ہیں۔ نیم فوجی دستوں
میں سی آر پی ایف، بی ایس ایف، آئی آر پی، آئی ٹی بی پی، ایس ایس بی، آر آر
قابل زکر ہیں۔ لیکن یہ بھی ریگولر فوج ہے۔ انہیں نیم فوج کا نام دیا گیا
ہے۔تحریک آزادی میں خواتین اور بچوں کو بڑی تعداد میں جارحیت کا شکار بنایا
جا رہا ہے۔ جا بجا جان بیگم جیسی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔
یہ جان بیگم کون ہے۔؟جان بیگم کا تعلق کپواڑہ سے ہے۔ جو وادی لولاب کے دیور
علاقہ کی مقیم ہے۔ 53سالہ جان بیگم کی گود اجاڑ دی گئی ، سہاگ لٹ گیا۔1996ء
میں جانا کا پہلا بیٹا 20سالہ محمد لطیف وار جو دارالعلوم لال بازار سرینگر
میں زیر تعلیم تھا، اس وقت گھر کے کچن میں اپنی گھڑی کو کھلے بیٹھا تھا۔ اس
دوران وہاں بھارتی فوج اور ٹاسک فورس کے لوگ نمودار ہوئے اور کھڑکی سے فائر
کر کے اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔ جانا بیگم نے پہلا جواں سال حافظ قرآن بیٹا
کھو دیا۔ دو سال بعد1998میں اس کے دو بیٹے محمد شریف اور بختیار وار کو گھر
کے نزدیکی علاقہ بو ہامہ سے ٹاسک فورس نے گرفتار کیا۔ جب وہ سرینگر جا رہے
تھے۔ انہیں مسافر بس سے نیچے اتارا گیا۔ چار دن بعد انہیں ایک فرضی جھڑپ
میں بھارتی فوج نے شہید کر کے انہیں پاکستانی دہشت گرد قرار ددیا۔ جاناں
بیگم کو دو بیٹوں کی لاشیں بھی نہ دکھائیں گی۔ گھر والوں نے انہیں صرف
کپڑوں سے پہچان لیا جو جھڑپ والی جگہ کے قریب درختوں پر لٹک رہے تھے۔
کپواڑہ پولیس سٹیشن میں جو ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے اس میں ان دونوں کو
فارن ملی ٹینٹ قرار دیا گیا ہے۔ 2000ء میں جانابیگم کا چوتھا بیٹا محمد
شریف الدین دیو بند یو پی سے فارغ ہو کر گھر آیا تو ایک دن اسے بھارتی فوج
نے حراست میں لینے کے بعد لا پتہ کر دیا۔ اسے بھی بھارتی فوج نے جنگ بندی
لائن پر شہید کر دیا۔ اس کی لاش اور کپڑے بھی نہ ملے ۔ کسی کو جنگل سے اس
کا شناختی کارڈ مل گیا۔ بھارتی فوج نے اس ماں کے ایک نہیں ، دو بھی نہیں ،
چار جوان بیٹے ایک ایک کر کے شہید کر دیئے اور انہیں غیر ملکی دہشت گرد
قرار دے دیا۔ بھارتی فوج اور ٹاسک فورس اہلکاروں نے جاناں کے 60سالہ شوہر
پر چار دن مسلسل تشدد کیا کہ وہ دم توڑ گیا۔پھر بھی بھارتی فوج کا جی نہ
بھرا۔ انہوں نے جاناں کے گھر پر چھاپے ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ خود اس پر
بھی کئی بار تشدد ہوا۔ ان دنوں جان بیگم بھیک مانگ کر گزر بسر کر رہی ہے۔
تین جوان بچیوں کا بوجھ اس کے سر پر ہے۔ اس کے لئے کوئی حریت کانفرنس، کوئی
حکومت سامنے نہ آئی۔ اور یہی حال کشمیر کے ہزاروں جانہ بیگم کا ہے۔ اب عید
کے دن اس گھر پر کوئی ڈش تیار نہیں ہوتی۔ کوئی پکوان نہیں پکتا۔ اس دن یہاں
شہداء کی یاد میں چولھا نہیں جلتا۔ دنیا میں عید ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ماتم۔
جاناں بیگم کی داستان ایک نہیں۔ یہاں ہزاروں جاناں بیگم موجود ہیں۔کشمیر
میں ہی نہیں، دہلی اور سمندر پار بھی کشمیریوں نے بھارتی مظالم سے دنیا کو
روشناس کریا مگر بھارت کا کوئی کچھ نہ بگاڑسکا۔ دہلی کے جنتر منتر علاقہ
میں کشمیری خاتون پروینہ آہنگر کی زیر قیادت کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرہ
کیا۔پروینہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی زیر حراست گمشدہ نوجوانوں کی بازیابی
سے متعلق تشکیل دی گئی والدین کی تنظیم اے پی ڈی پی(گمشدہ کشمیریوں کے
والدین کی تنظیم) کی چیئر پرسن ہیں۔پروینہ کو آئرن لیڈی آف کشمیر بھی کہا
جاتا ہے۔ پروینہ گزشتہ برسوں سے اپنی دکھ بھری کہانی دنیا کو سنا رہی ہے۔
وہ راجوری کدل سرینگر کی رہائشی ہے۔ کم عمری میں اس کی شادی ہوئی۔ اور اسے
تعلیم کو خیر آباد کہنا پڑا۔چھوٹی عمر میں اس کا پہلا بیٹاپیدا ہوا۔ اس کے
بیٹے جاوید کو بھارتی فوج نے اس وقت گرفتار کر لیا جب یہ خاندان جاوید کے
میٹرک پاس کرنے کی خوشی منا رہا تھا۔ یہ 17-18اگست 1990کی رات تھی۔ وہ بٹہ
مالو میں کزن کے گھر گیا تھا ۔ جہاں سے اسے اٹھا لیا گیا۔ بھارتی فوجی
جاوید احمد بٹ کو گرفتار کرنے آئے اور پروینہ کے بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ وہ
بیٹے کی تلاش میں ہر انٹروگیشن سنٹر، جیل، فوجی کیمپ میں گئی۔ لیکن جاوید
نہ ملا۔ کسی نے کہا کہ وہ فوجی ہسپتال میں ہے۔ لیکن وہاں بھی نہ ملا۔
1997میں مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے فوج کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے دہلی
حکومت سے اجازت طلب کی لیکن وزارت داخلہ نے یہ اجازت دینے سے صاف انکار کر
دیا۔ یہ کیس اب بھی زیر التوا ہے۔ پروینہ نے اب دیگر گمشدہ نوجوانوں کی بھی
تلاش شروع کر دی۔ اس طرھ اس نے اپنے گھر پر اے پی ڈی پی تنظیم قائم کی ۔ یہ
1994کی بات ہے۔ اب اس تنظیم کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ ہزار ہے۔ اسے دنیا میں
جانا جاتا ہے۔ پروینہ نے پورے بھارت کا سفر کیا۔ اور انہیں کشمیر کے حالات
سے آگاہ کیا۔ وہ فلپائن، یورپ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا بھی پہنچیں اور دنیا
کو کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے بارے میں بتایا۔
پروینہ آہنگر پر عزم ہیں۔ انھوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی اپنی زندگی کا
مقصد بنا لیا ہے۔ اسے بیٹا نہ ملا لیکن اس نے اپنے دکھ کو اپنی طاقت بنا
لیا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ کارکن بن گئی ہیں۔پتھراؤ کے
الزام میں گزشتہ تین سال میں ہزاروں نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور ان
پر مقدمے قائم کئے گئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔ یہ
گرفتاریاں آج بھی جاری ہیں۔ گرفتار بچوں میں 13سالہ محسن مجید شاہ بھی ہے۔
محسن نورباغ سرینگر کا رہائشی ہے۔ مقامی سکول میں ساتویں جماعت میں زیر
تعلیم ہے۔ بھارتی فوج نے اسے رشتہ دار کے گھر جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ اس
پرپتھراؤ کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا۔ دوسرا لڑکا نوشہرہ سرینگر کا
11سالہ برہان نذیر ہے۔ جو چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔ وہ مہاراج گنج پولیس
سٹیشن میں قید ہے۔ پانچ بچوں کو پولیس نے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش
کیا۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات تھے۔ ان کا
چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہ رو رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو مارا
پیٹا جا رہا ہے۔ ان کو ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ فورسز نے انہیں
عدالت سے گھسیٹ کر بکتر بند گاڑی میں ڈال دیا۔ اس موقع پر وہاں موجود وکلاء
نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے۔ وہاں موجود وکیل ناصر قادری نے بتایا کہ سب
بچے کم سن تھے۔ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نابالغ بچوں کی گرفتاری
انتہائی تشویشناک ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی فرد کو بغیر مقدمہ چلائے دو
سال تک قید رکھا جا سکتا ہے۔ 14سالہ فیضان حکیم کو پتھراؤ کے الزام میں
گرفتار کر کے کورٹ بلوال جیل جموں میں بند کر دیا گیا جہاں جرائم پیشہ
افراد بھی قید ہیں۔ 17سالہ مرتضیٰ منظور کو عدالت نے مداخلت پر جیل سے رہا
کیا۔15سالہ شیخ زولفقار رعناواری کو بھی عدالت نے کورٹ بلوال جیل میں بھر
دیا۔ 15سالہ ہارس رشید لنگو کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اس کی رہائی کے
لئے دو بار عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا گیا۔ سس14سالہ مشتاق احمد شیخ کی
گرفتاری کے بعد عدالت کی جانب سے ضمانت پر رہائی کے باوجود رہا نہ کیا گیا۔
13سالہ عمر مقبول کی گرفتاری کے بعد جب ضمانت پر رہائی ملی تو اسے دوبارہ
جیل سے باہر حراست میں لیا گیا۔پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہی سرینگر سے آصف
شاکساز اور ساجد میر جبکہ سوپور سے عادل خان کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں
300کلو میٹر دور لے جا کر جموں کی کوٹ بلوال جیل میں قید کر لیا گیا۔
بھارتی فورسز نے کم عمر لرکوں کو پی ایس اے اور رنبیر پینل کوڈ کے تحت بھی
گرفتار کیا ۔ 10سالہ لڑکے کو بھی نہ بخشا گیا۔ نوشہرہ سرینگر سے برہان نذیر
پامپوری اس کی تازہ مثال ہے۔ شوپیاں میں 2009کو بھارتی فورسز نے دو خواتین
آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کرنے کے بعد انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر
شہید کر دیا ۔ ان کی لاشیں دریا میں بہا دیں۔ حکومت نے کہا کہ دونوں کی موت
دریا میں ڈوب جانے سے واقع ہوئی ہے۔ لیکن دونوں کے جسم پر تشدد کے نشانات
حقیقت بیان کر رہے تھے۔ اس کے خلاف ریاست گیر ہرتالین ہوئیں لیکن زمہ داروں
کے خلا ف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ انسانی حقوق کے سر کردہ کارکن پرویز
امروز کا کہنا ہے کہ حکومت قاتلوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ بھارت کے شدید
مظالم اور نسل کشی کے باوجود کشمیریوں نے ہمیشہجدوجہد کو جاری رکھنے اور
بھارت کی غلامی قبول نہ کرنے کا اعادہ کیا۔مگرجب تک بھارتی فوج کوبے جا
اختیارات ہیں۔جب تک کشمیر پر بھارت کا جارھانہ اور ناجائز قبضہ ہے۔جب تک
کشمیری غلام ہیں۔تب تک بھارت فوجی ہی کشمیر کے حکمران ہیں۔وہ انسانی حقوق
کی بدترین خلاف ورزیاں جاری رکھیں گے۔ انہیں کنن پوش پورہ جیسے سانحات پر
سزا دینے کے بجائے ترقیاں اور تمغے ہی دیئے جائیں گے۔اقوام متحدہ اور تمام
دنیا انسانی حقوق کے دن منائے گی اور کشمیریوں کے حقوق بھارت پامال کرتا
رہے گا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارتی مظالم
کی حقیقت بیان کی ہے۔ عالمی کمیشن کی تشکیل اور اسے کشمیر بھیجنے کا مطالبہ
کیا ہے ۔ مگر ابھی تک اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔ |