یہ میرا آشیاں

جاوید قریشی سے پہلی بار ملاقات شیر بہادر خان کے توسط سے ہوئی۔دوستوں کا دوست دوست بنتے دیر نہیں لگاتا اس لئے کہ ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ ذہنی مطابقت تو دوست سے ہے ہی۔پھر اسے بلدیاتی انتحابات میں اپنا دکھڑا سناتے ہوئے ہوئی۔جاوید قریشی جتنا ہنستا ہے اس کے اندر ایک اس سے ملتا جلتا شخص بھی رہتا ہے جو وقت آنے پر اپنا غصہ بھی نکال دکھاتا ہے۔وہ پی ٹی آئی کے پرانے دفتر میں ایک ویڈییو دکھا رہے تھے جس میں سردار ادریس لوگوں کو بتا رہے تھے یہ بیٹ کا نشان والا میرا امیدوار نہیں ہے میرا امیدوار کوئی اور ہے۔اس دوران ساتھ میں کھڑے شخص نے لقمہ دیا قریشی پلٹ کے مڑا اور کہا تم چپ رہو۔میں بھی سہم گیا۔پھر ایسا ہوا کہ کہ وہ ہماری طرح نعیم الحقیہ ہو گیا کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے کھانا کھلانا اس کا شوق ہے۔زنجیر فلم میں یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی والے پٹھان کی طرح جو انسپکٹر اجے سے دوستی کرنے کے بہانے اپنی سالگرہ رکھ لیتا ہے۔یہی کام جاوید قریشی کا ہے نعیم الحق بیمار ہو تو دعائیہ تقریب صحت مند ہو تو خوش ملنی رکھ لیتا ہے۔جاوید قریشی رونقیں بانٹنے والا شخص ہے۔دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کھا کر خوش ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔کامیاب کون ہیں یہ معیار اﷲ ہی جانے۔میرے بہت سے دوست ہیں جو آج دنیاوی زندگی کے زینے طے کر گئے ہیں لیکن ماشاء اﷲ مجال ہے کہ کبھی چائے کی پیالی پلائی ہو۔اس روز ایک دوست ملا کچھ اس قسم کی ہی باتیں ہوئیں تو انہیں ایک بات سنائی ہمارے استاد جی اسحق صاحب ہوتے تھے ان سے ایک بار کہا استاد جی جھڑی ہے چائے پلا دیں کہنے لگے بیٹا چائے تو پلا دوں مگر ڈر یہ لگتا ہے اٹھ کر جا کر کہیں یہ نہ کہہ دو کہ آج استاد جی کو ٹھگ لیا ہے۔میں نے کہا استاد جی زندگی میں یہ بھی یاد گار بن جائے گی کہ کسی شاگرد کو استاد نے چائے پلا دی ہو۔اﷲ ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔آمین

یہاں بات ہو جائے کھانے اور کھلانے کی اور ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ انجینئر افتخار چودھری کھلاتا ہے اور یاد بھی کراتا ہے۔میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کہ بات یہ نہیں ہے کہ کون کون میرا مہمان ہوا یا جاوید قریشی کے ڈیرے کی سردھائی پی۔لیکن مقصد کہنے کا ہے کہ دوستو لوگوں سے ملا کرو چائے کی پیالی گھر میں دس روپے کی پڑتی ہے دروازے کھولا کرو۔جاوید قریشی نے پی ٹی آئی میں کوئی نئی ریت نہیں ڈالی ہزارے وال ہوتے ہی مہمان نواز ہیں۔ایک بار گھر کے باہر کھمبے کے پاس کھڑا تھا دوستوں سے گپ شپ ہو رہی تھی والد صاحب نے کہا بیٹھک میں بیٹھ کر گپ شپ کیا کرو۔تمہاری ماں چائے دے گی۔بے جی کے وہ بسکٹ جن پر چینی کے دانے لگے ہوتے تھے وہ بھی ساتھ ملنے لگے۔یاد رہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب گجرانوالہ کے لوگوں میں بیٹھک بنانے کا رواج نہیں ہوتا تھا غریبی اپنی جگہ مگر ہم فقیری میں بھی مہمانوں کو بٹھانے کا بندوبست کرتے رہے۔اور یہی وجہ تھی بے جی لسی اور بیٹھک میں بٹھانے کے بعد کھنڈ بسکٹ اور چائے نے والد صاحب کو بی ڈی ممبر بنا کر چھوڑا۔

کچھ دن پہلے ایک پیغام آیا کہ چودھری صاحب انصاف ہاؤس مکمل ہے۔دعا ہے تشریف لائیے ایک خوبصورت جواب دے کر بھیجا کہ ضرور آؤں گا۔ہوا یہ کہ اس دن شاہ مقصود میں ایک عزیزہ کی وفات ہو گئی جنازے میں گیا۔گھر بھی وقت پر پہنچ گیا۔لیکن بھول گیا کہ ?ج ایک اور بھی مصروفت ہے۔اگلے روز تصویریں دیکھیں تو بہت دکھ ہوا کہ پرانے دوستوں کو مس کیا۔قاسم خان سوری ہمارا پرانادوست،زلفی بخاری،خرم نواز اور بہت سے دوستوں کی محفل سے محروم ہو گیا۔وہ کیا کہتے ہیں کہ حافظہ تیز کرنے کے لئے بادام لایا بھگونے کے وقت بھول گیا کہ بادام کہاں رکھے ہیں۔ہم دل میں خوش تھے کہ جمعے کے روز شام کو ایک محفل سجے گی اور ہم ان دوستوں کے درمیان ہوں گے جو جد وجہد کے دور کے ساتھی تھے گل حمید،قاسم خان،خرم نواز اور بہت سے دوست لیکن پانچ بجے گھر پہنچنے کے بعد لمیا لیٹ ہو گئے اور بھول ہی گئے کہ جاوید قریشی کا انصاف ہاؤس آج عوام کے لئے کھل رہا ہے۔جس میں مشتاق غنی،اشتیاق عباسی،قلندر لودھی بھی شریک تھے۔

ویسے جب یہ گھر بننا شروع ہوا تو اور مجھے پتہ چلا کہ انصاف ہاؤس نام رکھا ہے تو خوشی تو ضرور ہوئی مگر نام سے تھوڑا اختلاف کیا میں نے جاوید سے کہا یار بات سنو ہم سیاسی کارکن ادھر سے ادھر ہوتے رہتے ہیں۔زمانہ طالب علمی میں جمعیت کے ساتھ رہے بعد میں جب مشرف نے ارتکاب جرم کیا اور نواز شریف مظلوم بنے تو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور جب مشرف کا ظلم آخیر ہوا تو عمران خان کے ساتھ جان ملے سوچا اور کہا یار تختیاں کون بدلے گا۔

انصاف ہاؤس ایک اعلان ہے استقامت کا اور چھت پر کھڑے ہو کر اعلان ہے کہ میں جاوید قریشی یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرا تن من اور دھن کے ساتھ ساتھ میرا گھر بھی عمران خان کے نام ہے۔اس اعلان میں یہ بھی اعلان چھپا ہوا ہے کہ جاوید قریشی کی آل اولاد بھی ہمیشہ انصافین ہی رہے گی۔اور میں یہ چیلینج کرتا ہوں کہ پاکستان میں کم ہی لوگ ہوں گے جو جاوید قریشی کی طرح سینے پر ہاتھ مار کے کہتے ہوں گے۔

پی ٹی آئی میں جاوید قریشی اور ہمارے جیسے لوگ اس شخص کی طرح ہے جو ون وے محبت کے قائل ہیں۔جنہیں ٹکٹ نہیں ملتا تو وہ اور میٹھا تیز کر دیتے ہیں۔میں شیخ رشید کے بھتیجے کے ٹکٹ کے اس لئے خلاف نہیں تھا کہ وہ اس کا بھتیجہ ہے یا پارٹی کا کارکن تھا ہی نہیں مجھے اس دن کی فکر تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیخ وقت آنے پر شرلیاں چھوڑے گا اور وہ آپ نے دیکھ لی کہ نجی محفلوں وہ کیا کہتا ہے۔جاوید قریشی اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ اس نے تواتر سے اپنے سیاسی مخالف کو ہٹ کیا اور اسے پارٹی سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوا۔پہلے شیخ ایک تھا اب وہ دو ہیں اور اینٹوں پر کھڑی حکومت کو پتہ چل جائے گا کہ لال حویلی کے یہ دو مجاہد لال آنکھیں دکھا کر اس پارٹی کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ابھی تھوڑی دیر پہلے افتخار قیصرانی کی کال تھی وہ کارکنوں کے فون نہ اٹھائے جانے پر مجھ سے
دکھڑا رو رہا تھا میں اپنے تئیں روہانسا ہوں۔

کل ایک شادی کی تقریب میں جو عارف عباسی کی بیٹی کی رخصتی کی تقریب تھی میں پرانے کارکنوں کا انبوہ یہی رونا روتا نظر آیا۔جاوید قریشی آپ کو نیا گھر مبارک ہو۔

کسی زمانے میں سنا کرتے تھے کہ انسان جب ستر کا ہو جاتا ہے تو ہل جاتا ہے ہم دس سال پہلے ہی ہل گئے ہیں جہاں دفعہ باسٹھ تریسٹھ کا ہونا غنیمت ہے وہاں باسٹھ تریسٹھ کا ہونا خطرناک بھی ہے۔ویسے بھول جانا ایک بہتری کی بھی علامت ہے شائد اﷲ نے نہ بھولنے والے اونٹوں کی تعداد اسی لئے کم رکھی ہے کہ یہ دنیا عداوتوں سے خالی ہو۔باداموں سے سے اگر عقل آتی تو سب سے زیادہ سیانے خشک میوہ جات کے بیوپاری ہوتے۔رات کو فون کیا تھا اپنی نالائقی کا اعتراف کیا اور وعدہ کیا کہ اب گھرآؤں گا لیکن ساتھ میں نصف بہتر بھی ہو گا۔گھر مکینوں سے بنتے ہیں تیرہ بیڈ کا یہ گھر مبارک ہو۔قریشی صاحب بڑے گھر بنانے سے یہ مت سمجھئے کہ کہ آپ کے سارے بچے ادھر ہوں گے اور مہمان کہاں رہتے ہیں سڑکوں کے جال اس قدر میسر ہیں کہ کہ جو سفر چھ گنٹوں میں ہوتا تھا اب دو گھنٹے لگتے ہیں اب وہ دور گیا کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس آتے تو شہری رشتے داروں کے پاس قیام کیا کرتے تھے ۔ہمارے باغبان پورہ کے گھر میں اب کوئی نہیں رہتا یہ وہ گھر تھا جہاں والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ یہ کمرہ امتیاز کا یہ افتخار کا یہ اعجاز اور یہسجاد، ابرار کا۔امتیاز جی مگنولیا چلے گئے افتخار پنڈی،اعجاز لندن،سجاد پنی،ابرار دینہ۔میرا گھر گیارہ بیڈ کا مکینوں کو ترستا ہے نوید ساتھ ہے،نبیل گجرانوالہ کرائے کے گھر میں باقی شکیل و دلدار جدہ۔گھر مکینوں سے بنتے ہیں باپ اور ماں مل کر گھونسلہ بناتے ہیں چڑیا کے اس گھونسلے میں ایک ایک تنکا لا کر گھونسلہ بنتا ہے۔پھر باپ دانے لاتا ہے ماں اپنی چونچ سے ان ننھے پرندوں کو دانہ چونچ میں رکھ کر دیتی ہے۔ قریشی صاحب جب پر پرزے نکلتے ہیں تو پرندہ کسی انجان چڑیا کے چنگل میں آ کرماں باپ کے گھونسلے سے پھر کر کے اڑ جاتا ہے۔پروفیسر عنائت علی خان کی یہ نظم کیا جان پدر تم بھی پرندہ تھے پرندوں کو پرانے آشیاں کب یاد رہتے ہیں۔

اپنا پرانا آشیاں بھی آباد رکھنا اپنے ماں باپ اگر زندہ ہیں تو ان کے پاؤں دھو کر پینا اور نہیں تو ان کی قبر آباد رکھنا دعاؤں کے تحفوں سے اچھی اولاد صدقہ جاریہ ہے ۔میرا ایک دوست کہتا ہے کہ کسی بھی اچھے دوست کی نشانی یہ ہے کہ مرے ہوئے باپ اور مری ہوئی ماں کی قبر کیسی رکھتا ہے۔نیا آشیاں نیاگھر مبارک۔(اب اس لاجواب کالم کے بعد حق تو بنتا ہے ایک نئی تختی لگائی جائے پھر سے افتتاح ہو جائے۔ویسے بھی رسم دنیا ہے)
 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 418 Articles with 323866 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More