کبھی کبھی ہم ’’آٹے دال کا بھاؤ‘‘ معلوم کرنے بازار کا
رُخ کر لیا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب بازار گئے تو اشیائے خورونوش کے نرخ
سُن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ تھوڑی ندامت بھی ہوئی کہ ہم ’’ایویں
خوامخواہ‘‘ ملازم کی دیانتداری پر شک کرکے گنہگار ہوتے رہے۔ جب تھکے ہارے
گھر پہنچے تو اپنے میاں کو بے چین وبیقرار پایا۔ ہم نے طبیعت کی گرانی کا
سبب پوچھاتوَ تلخیوں میں گُندھے لہجے میں کہنے لگے ’’تمہارے اِس نئے
پاکستان میں بھلا کسی کو سکون کے دو پَل نصیب ہو سکتے ہیں کیا‘‘۔ ہم نے
پوچھا ’’اب کیا ہوا؟‘‘۔ کہنے لگے کہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا دعویٰ کرنے
والوں کا کارنامہ سُن لو کہ اب وہ سگریٹ نوشی پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ عائد کرنے
جا رہے ہیں۔ فلپائن کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جہاں یہ ٹیکس عائد کیا جا
رہا ہے۔ ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ چلو کسی معاملے میں تو پاکستان صفِ
اوّل میں آیا۔ کہنے لگے دینِ اسلام میں کہیں بھی تمباکو نوشی کو گناہ قرار
نہیں دیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئے پاکستان کے ساتھ ساتھ قوم کو ’’نیا
اسلام‘‘ بھی دینے جا رے ہیں۔
یوں تو ہمارے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن جھگڑے کے خوف سے چہرے پر
سنجیدگی طاری کرتے ہوئے ہم نے کہا کہ سگریٹ نوشی عادتِ بَد اور کئی
بیماریوں کی موجب تو ہے۔ اُنہوں نے کہا ’’تسلیم کہ یہ عادتِ بَد ہے لیکن
گناہ نہیں اور اگر ایک لمحے کے لیے سگریٹ نوشی کو گناہ تسلیم کر لیا جائے
تو پھر باقی گناہوں پر بھی ’’گناہ ٹیکس‘‘ عائد کرنے کی رسم چل نکلے گی اور
لوگ سرِعام گناہ کرنے کے بعد ٹیکس ادا کرکے ’’پاک صاف‘‘ ہو جایا کریں گے۔
گناہ تو بہرحال گناہ ہوتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، حکومت کو چاہیے کہ اپنا
خزانہ بھرنے کے لیے ہر گناہ پر ٹیکس عائد کر دے۔ ایسا کرنے سے نہ تو اُسے
آئی ایم ایف کے چرنوں میں بیٹھنا پڑے گا اور نہ ہی دوست ممالک سے بھیک
مانگنے کی نوبت آئے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سگریٹ پر ٹیکس عائد نہ کیا
جائے۔ حکومت کا جتنا جی چاہے ٹیکس عائد کرے لیکن اِس کو ’’گناہ ٹیکس‘‘ جیسا
نامعقول نام دینا سوائے ذہنی پسماندگی کے اور کچھ نہیں۔ایک گناہ ٹیکس ہی
کیا نئے پاکستان کے بانیوں کی تو ہر بات ہی نرالی ہے۔ ہم نے کہاآپ تو
بس’’ایویں ای‘‘ ہماری حکومت کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں حالانکہ ہماری حکومت
نے 100 دنوں میں 100 کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔جواب ملا کہ واقعی حکومتی ’’کارناموں‘‘
کی فہرست بہت طویل ہے۔ 100 دنوں میں 100 یوٹرن لینا آپ کے وزیرِاعظم کا سب
سے بڑا کارنامہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا بے مثل کارنامہ اور کسی نے
سرانجام نہیں دیا۔ اِس معاملے میں آپ دھڑلے سے کہہ سکتی ہیں ’’ہم سا ہو تو
سامنے آئے‘‘۔ ویسے بھی کپتان کا یہ فرمان سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے
کہ یوٹرن کے بغیر کوئی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ سوال مگر یہ کہ یوٹرن لینے
والے وزیرِاعظم کے وعدوں اور معاہدوں پر کیا دنیا اعتبار کرے گی؟۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ جب وہ کوئی وعدہ کریں تو لوگ کورس میں گانے لگیں
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ریاستِ مدینہ کی بات کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا (خاکم بدہن) خلفائے
راشدین یوٹرن لیا کرتے تھے؟۔ اگر بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ
یوٹرن لے کر ہندو رہنماؤں کی بات مان جاتے تو کیا پاکستان تشکیل پا سکتا
تھا؟۔ کپتان صاحب یہ بھی بتا دیں کہ وہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ پر یوٹرن کب لے
رہے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ وہ جلد یا بدیر ایسا ضرور کریں گے۔
ہم نے بات بدلتے ہوئے کہا’’ کم ازکم یہ تو آپ تسلیم کریں گے کہ پاکستان کی
تاریخ میں پہلی بار تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں‘‘۔ طنزیہ جواب ملا ’’بالکل،
سبھی ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ بیوروکریسی کے بارے میں حکمران کہتے ہیں کہ یہ
نوازلیگ سے ملی ہوئی ہے، پولیس کا یہ عالم کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں کب
ٹرانسفر آرڈر تھما دیئے جائیں گے۔ آئی جیز سمیت کسی پولیس آفیسر کوایک ڈیڑھ
ماہ سے زیادہ کسی سیٹ پر بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ اقرباپروری کے بارے میں
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کو بھی کہنا پڑا ’’اقرباپروری کی
بات 20بار کروں گا۔ کسی کو اعتراض ہے تو رہے۔ زلفی بخاری کیس میں دیکھنا ہے
کہ تقرری قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں۔ اقرباپروری پر تقرریاں ہوں گی تو
مداخلت کریں گے۔ کسی کو افسوس ہوا تو ہم اپنے فیصلے نہیں بدل سکتے‘‘۔
وزیرِاعظم نے فرمایا کہ فوج تحریکِ انصاف کے ’’منشور‘‘ کے ساتھ ہے۔ وہ اتنا
بھی نہیں جانتے کہ افواجِ پاکستان کسی سیاسی جماعت کے ’’منشور‘‘ کے ساتھ
نہیں، حکومت کے ساتھ ہوا کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور
نے پریس بریفنگ میں صراحت سے بتا دیا کہ فوج کسی شخص یا سیاسی جماعت کے
ساتھ نہیں بلکہ عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔
جب ہم نے کہا کہ وزیرِاعظم بار بار کہتے ہیں کہ وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں
گے تو جواب ملا کہ وزیرِاعظم صاحب کو یہ کہنا چاہیے’’میں سوائے تحریکِ
انصاف کے کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ
سپریم کورٹ کا ڈکلیئرڈ کرپٹ جہانگیر ترین ہمہ وقت کپتان کے پہلو میں پایا
جاتا ہے۔نیب کی انکوائریاں بھگتنے والا زلفی بخاری وزیرِاعظم کے دل کے بہت
قریب اور معاونِ خصوصی بھی۔ پنجاب کا سینئر وزیر علیم خاں بھی نیب زدہ۔
بقول کپتان کل کا چور اور ڈاکو چودھری پرویزالٰہی تحریکِ انصاف کا منتخب
کردہ سپیکر پنجاب اسمبلی۔ وزیرِاعظم کے سابق مشیرِ قانون بابراعوان پر نندی
پور پاور پروجیکٹ میں اربوں روپے کی کرپشن کا کیس، اعظم سواتی سپریم کورٹ
کی پیشیاں بھگتتا ہوا۔ کس کس کا ذکر کریں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا
ہے۔ پچھلے دَورِحکومت میں خیبرپختونخوا میں احتساب کمیشن کی تشکیل پر
کروڑوں روپے صرف کرنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ میٹرو بس کو ’’جنگلابس‘‘
کہنے والوں نے پشاور میں میٹروبس کا منصوبہ شروع کیا تو ابتدائی تخمینہ 41
ارب روپے تھا جوبڑھ کر 81 ارب روپے تک جا پہنچا لیکن میٹروبس کا نام ونشان
نہیں۔ اگر ’’میٹھا میٹھا ہپھ ہَپھ، کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ہی کرپشن کے خاتمے
کا معیار ہے تو پھر اِس ملک کا اﷲ ہی حافظ۔
وزیرِاعظم صاحب نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا ’’کتنا برا لگے گا کہ
ملک کا وزیرِاعظم کسی اور ملک میں بھیک مانگنے جائے‘‘۔ پھر چشمِ فلک نے
دیکھا کہ اُنہوں نے دھڑادھڑ بیرونی ممالک کے دورے کیے جن کا مقصد صرف
’’بھیک مانگنا‘‘ تھا۔ یہ تو بہرحال طے کہ وزیرِاعظم کو بھیک مانگنے میں
مہارتِ تامہ حاصل ہے۔ اُنہوں نے چندہ اکٹھا کرکے لاہور اور پشاور میں کینسر
ہسپتال بنائے اور نمل یونیورسٹی قائم کی۔ اِس لیے یقیناََ وہ کچھ نہ کچھ تو
لے ہی آئے ہوں گے۔ وہ قوم کو کہتے ہیں ’’حوصلہ رکھیں، اچھے دن آنے والے
ہیں‘‘۔ شاید اُنہوں نے بھیک مانگنے کا کوئی نیا طریقہ تلاش کر لیا ہوگا جو
وہ قوم کو اچھے دنوں کی نوید سنا رہے ہیں لیکن کیا پتہ کہ وہ اِس پر بھی
یوٹرن لے لیں ۔
ہم نے بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا کیونکہ طویل بحث ہمیشہ تکرار کا باعث
ہوتی ہے اور عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے معاشرے میں جیت ہمیشہ مردوں
ہی کی ہوتی ہے۔ اب اِن کو کون سمجھائے کہ وقت بدل چکا۔ اب تو ایٹمی پاکستان
کا وزیرِاعظم بھی برملا کہتا ہے کہ بشریٰ بی بی (خاتونِ اوّل) اُنہیں بار
بار یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اب وہ وزیرِاعظم ہیں۔ میرے میاں نے کہا کہ آپ کے
وزیرِاعظم صاحب تو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ’’پیرنی‘‘ کی پھونکوں کے طفیل
وزیرِاعظم بنے حالانکہ اِس میں بڑے بڑے ’’کرنی والے پیروں‘‘ کا ہاتھ ہے۔ اب
اگر وہ وزیرِاعظم ’’سلیکٹ‘‘ ہو ہی گئے تو اُنہیں کہیں کہ خدا را اب کنٹینر
سے اُتر بھی آئیں۔ |