ایک ایسے صحافی کے قلم سے جس نے پاکستان میں سب سے پہلے
مسٹر بھٹو پر پاکستان توڑنے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا……
پاکستان آہستہ آہستہ ٹوٹتا رہا…… اور یہ سنگدل قاتل‘ اپنی کرسی کیلئے
زیرزمین سازشوں سے اس عمل کو آگے بڑھاتا رہا۔
مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران اس وقت کے صدر مملکت جنرل یحییٰ خان نے
پیپلزپارٹی کے چیئرمین مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو 1970ء کے انتخابات میں
مغربی پاکستان سے واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے
راولپنڈی میں بات چیت کے لئے طلب کیا۔ تین روز بعد 26 نومبر 1971ء کو ان
دونوں رہنماؤں نے پہلی طویل ملاقات کی۔ ملاقات سے قبل پیپلزپارٹی کے
چیئرمین اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ ملک
کے اس وقت کے بحران کو صرف صحیح نمائندہ حکومت حل کر سکتی ہے(یہ بیان 25
نومبر کے ڈان میں شائع ہوا)
ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مسٹر بھٹو نے چین سے واپسی پر
12 نومبر 71ء کو بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر وہ ہم سے بات
چیت کرنا چاہتا ہے تو اسے نمائندہ حکومت کے برسراقتدار آنے تک دو ماہ مزید
انتظار کرنا چاہئے اور اگر وہ جنگ کرنے پر تلا ہوا ہے تو کھل کر ہمارے
سامنے آئے تاکہ اسے دندان شکن جواب دیا جائے۔‘‘ مسٹر بھٹو کے اس اندازِ
تخاطب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مراد پیپلزپارٹی کی حکومت سے ہے کیونکہ اب
تک انہوں نے یحییٰ خان کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری کے خلاف ایک
لفظ بھی نہ کہا تھا۔ اس کے برعکس مسٹر بھٹو نے اپنی پہلی کانفرنس میں یہ
کہہ کر شیخ مجیب کا پتہ صاف کر دیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان
میں علیحدہ خودمختار فاشسٹ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہہ کر انہوں
نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور وہ ملک کے تحفظ اور سا لمیت پر یقین ہی نہیں
رکھتے۔ مسٹر بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن پر یہ الزام بھی لگایا کہ 1966ء سے وہ
مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن
بارہ کروڑ عوام کے اس ملک کو محض نعروں یا تقریروں سے ختم کرنا اتنا آسان
نہیں تھا۔
مسٹر بھٹو نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہمیں معلوم تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے
اصل ارادے کیا ہیں۔ صرف وہ ان ارادوں کو کن ہتھکنڈوں سے پورا کرتے ہیں‘ یہ
حقیقت ان تک محدود تھی۔مسٹر بھٹو کا یہ بیان 28 مارچ کے ڈان میں شائع ہوا۔
شیخ مجیب الرحمن اگرچہ مسٹر بھٹو کے سیاسی حریف تھے لیکن ان کے بارے میں
مسٹر بھٹو کی اس رائے سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل یحییٰ خان سے 26 نومبر کی ملاقات کے بعد مسٹر بھٹو نے اقتدار کی
منتقلی کے بارے میں اپنا رویہ سراسر تبدیل کر لیا۔ اب انہوں نے یہ راستہ
اختیار کیا کہ اندریں حالات حکومت میں حصہ مانگنے کا مطالبہ لغو ہے اور ملک
کا دفاع سب سے زیادہ مقدم ہے۔ یہ بات محل نظر ہے کہ مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان
سے ملاقات میں طے پانے والے معاملات کا اشارۃً بھی کہیں ذکر نہیں کیا۔
انہوں نے اگر کہا تو اس قدر کہ ہم دونوں نے مشرقی پاکستان کے بحران کے بارے
میں بات چیت کی ہے اور یحییٰ ملک کے بحران کو حل کرنے کے لیے میری مدد کے
لئے طلب گار ہیں۔
27 نومبر کے ڈان کے مطابق ’’ملاقات سے قبل جب مسٹر بھٹو اسلام آباد
ایئرپورٹ پر پہنچے تو ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ اقتدار قوم کے منتخب
نمائندوں کے حوالے کیا جائے لیکن ملاقات کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ
حکومت بنانا یا حکومت میں حصہ لینا پیپلزپارٹی کا مقصد نہیں تھا۔ یہ بات
انہوں نے نہایت سکون اور ٹھنڈے دل سے کہی اور ان کا یہ لہجہ گزشتہ شب کے اس
لہجے سے مختلف تھا جب وہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔
28 نومبر کو مسٹر بھٹو کی یحییٰ خان سے ایک اور ملاقات ہوئی۔ تین روز میں
یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔
29 نومبر کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین مسٹر بھٹو پشاور میں تھے اور انہیں حیات
محمد خان شیرپاؤ مرحوم کے بیان کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے فوری طور پر
بات چیت کرنے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔
30 نومبر کو جنرل یحییٰ خان نے مسٹر بھٹو اور جناب نور الامین سے نوے منٹ
تک ایوان صدر میں بات چیت کی۔اس ملاقات کے بعد مسٹر بھٹو مزید نصف گھنٹہ تک
جنرل یحییٰ خان کے ساتھ رہے اور علیحدگی میں ان سے بات چیت کی۔ تنہائی میں
جنرل یحییٰ اور مسٹر بھٹو کی بات چیت کس موضوع پر ہوئی یہ صرف یحییٰ خان
بتا سکتے ہیں۔
جنرل یحییٰ خان سے مسٹر بھٹو کی متواتر کئی ملاقاتوں اور نائب وزیراعظم اور
وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے
کہ مسٹر بھٹو ملک کی اس وقت کی سیاسی صورت حال سے پوری طرح آگاہ تھے اور یہ
جانتے تھے کہ حالات کا رخ کس جانب ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی
انہوں نے جس طرح تائید کی اس کا تمام ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ ان کے اس
بیان سے بھی ساری بات واضح ہو جاتی ہے جو انہوں نے 25 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ
سے واپسی پر کراچی کے ہوائی اڈے پر دیا تھا۔ مسٹر بھٹو نے اس وقت برملا کہا
تھا-:
’’خدا کی مہربانی سے بالآخر پاکستان بچا لیا گیا۔‘‘
ہر شخص یہ جانتا ہے کہ مسٹر بھٹو کے ان فوجی جرنیلوں سے گہرے مراسم تھے جو
اس وقت کے فوجی حکمرانوں میں شامل تھے۔ مسٹر بھٹو کے لیفٹیننٹ جنرل پیرزادہ
سے خاص طور پر گہرے مراسم تھے جن کو جنرل فضل مقیم نے اپنی کتاب ’’پاکستانی
لیڈرشپ کا بحران‘‘ میں مرکز کا مضبوط ترین انسان قرار دیا تھا۔ مسٹر بھٹو
کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل رحیم
خان سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ نومبر کے اوائل میں یہ دونوں جرنیل مسٹر بھٹو
کے ساتھ سرکاری دورے پر پیکنگ بھی گئے تھے اور ان دونوں جرنیلوں نے مسٹر
بھٹو کو 20 دسمبر 1971ء کے دن برسراقتدار لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا
حالانکہ اس وقت یحییٰ خان کی خواہش تھی کہ ان کو ملک کا صدر رہنے دیا جائے
اور مسٹر بھٹو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھال لیں اور جنرل عبدالحمید خان کو
افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف بنا دیا جائے۔
اپریل 1972ء میں انٹرنیشنل آفیسرز لندن کے شمارے میں جی ڈبلیو چودھری کا
مضمون چھپا جس کے مطابق مسٹر بھٹو اور جنرل پیرزادہ کے درمیان ایک ’’خفیہ‘‘
معاہدہ ہوا تھا۔ جس نے اس وقت ’’اہم کردار‘‘ ادا کیا۔ اس مضمون میں بتایا
گیا کہ کس طرح پے بہ پے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے مسٹر بھٹو مارچ
1971ء میں فوجی حکمران ٹولے کے سب سے زیادہ بااثر مشیر بن گئے تھے۔ مسٹر
بھٹو کا دائرہ اثر کتنا وسیع تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے
کہ کئی مرتبہ انہوں نے جنرل یحییٰ کے بیان بھی خود تیار کئے یہاں تک کہ
قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا بیان بھی مسٹر بھٹو نے تیار کیا جسے
یحییٰ خان نے پڑھا تھا (مسٹر چودھری نے اپنے مضمون میں اس خط کا بھی ذکر
کیا تھا۔ جو مسٹر بھٹو نے شیرپاؤ کے گھر بیٹھ کر تیار کیا اور جسے یحییٰ
خان کی طرف سے سوویت یونین کو ارسال کیا گیا)
مسٹر جی ڈبلیو چودھری یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت کے وزیر تھے اور یحییٰ
خان کی اندرونی کابینہ کے ممبر بھی۔ انہوں نے اپنے مضمون میں جو کچھ بھی
لکھا‘ اس کی بنیاد ان کی ذاتی یادداشتیں ہیں۔ بہرحال ضروری نہیں کہ ذاتی
یادداشتیں حقائق پر ہی مبنی ہوں اور ان میں جانبداریت نہ ہو۔
21 نومبر 1971ء سے لے کر برسراقتدار آنے تک مسٹر بھٹو نے جو کچھ کہا اسے جی
ڈبلیو چودھری کی ذاتی معلومات کی بنیاد پر پرکھا نہیں جا سکتا لیکن عوام کے
سامنے اخبارات سے لئے گئے ریکارڈ کی صورت میں جو شبہات موجود ہیں ان کی
اہمیت اور صحت کے بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
3 دسمبر 1971ء کو مغربی پاکستان کی سرحد پر بھارت سے جنگ کا آغاز ہوا اور 4
روز بعد یعنی 7 دسمبر کو مشترکہ حکومت قائم ہو گئی جس میں جناب نور الامین
بطور وزیراعظم اور مسٹر بھٹو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ شامل تھے۔
3 دسمبر کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں مسٹر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ مشرقی
پاکستان سے لئے جانے والے وزیراعظم کے ساتھ نائب وزیراعظم کا عہدہ قبول
کرنے کو تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں مکمل اختیارات دیئے جائیں۔ مسٹر
بھٹو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے۔
مشترکہ حکومت میں مسٹر بھٹو عہدہ قبول کر کے یحییٰ خان کی ’’اندرونی
کونسل‘‘ کے رکن بن گئے۔ اب بھٹو یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ
تھے اور اس حیثیت میں یحییٰ خان کے سیاسی مشیر بھی‘ ان کی مرضی اور منظوری
کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا تھا۔ مسٹر بھٹو کی یہ تقرری تو محض دکھاوے
کے طور پر تھی۔ حقیقت میں وہ 23 نومبر 1971ء سے ایوان صدر میں بااختیار بن
گئے تھے۔ یہ وہی دن تھا جب ان کا یحییٰ خان سے معاہدہ ہوا۔ جنرل یحییٰ خان
کے لئے اندرون ملک پالیسی وضع کرنے کے علاوہ مسٹر بھٹو کے ذمہ اقوام متحدہ
میں پاکستان کی نمائندگی کا اہم کام تھا جہاں پاکستان اور بھارت کے تنازعہ
کے متعلق بحث کے لئے خصوصی اجلاس بلائے جا رہے تھے۔ اندرون ملک اور بیرون
ملک مسٹر بھٹو کے کارناموں کا اندازہ لگانے کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے
کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں اس وقت کیا مؤقف اختیار کیا۔ جب ڈھاکہ میں
بھارت کے فوجی دستے ڈھاکے کے گرد اپنا محاصرہ تنگ کرتے جا رہے تھے۔
اگر مدعی مسٹر بھٹو کے اس بیان کی طرف توجہ دلائے جو انہوں نے 23 نومبر
1971ء کو لاہور ایئرپورٹ پر دیا تھا تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ انہوں نے
اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے خود کو موزوں ترین آدمی ثابت
کر نے کی کوشش کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اگر
بھارتی جارحیت کا مقدمہ سلامتی کونسل ہی میں لے جانا مقصود ہے تو صرف وہ
ایک شخص ہیں جو اپنے ملک کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اس کی وضاحت
انہوں نے یوں کی کہ وہ گزشتہ سات برس سے اقوام متحدہ کے ادارے سے وابستہ
رہے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی وجہ
سے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا ان کا حق ہے۔ (ڈان‘ 24 نومبر
1971ء) اخباری بیان کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو بھارتی
جارحیت کا مسئلہ فوری طور پر سلامتی کونسل میں لے کر نہیں جانا چاہئے۔
جنرل فضل مقیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سلامتی کونسل میں بھارتی جارحیت
کا مسئلہ لے جانے میں تاخیر کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ
پاکستان کی حیثیت وہ نہ رہی جو جارحیت کے شکار ملک کی ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کو
فوری طور پر سلامتی کونسل میں لے جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے دوست ممالک
میں یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ یا تو حکومت پاکستان حقائق سے چشم پوشی کر رہی
ہے یا پھر وہ فوجی اعتبار سے بہت زیادہ طاقت ور ہے اور اپنے طور پر
کارروائی میں آزاد رہنا چاہتی ہے اور سلامتی کونسل کی مداخلت پسند نہیں
کرتی۔
پاکستان کا یہ رویہ غالباً تاریخ میں پہلی مثال ہے کہ کوئی رکن ملک اس کے
خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے اور جس ملک کے خلاف جارحیت کی گئی ہو وہ اپنی
شکایات سلامتی کونسل میں لے جانے پر تساہل سے کام لے۔ مسٹر بھٹو کا ایک مشن
تھا اور وہ پاکستان کے مفادات کو سبوتاژ کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کی مکمل کارروائی کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چار
دسمبر 1971ء کے دن کے اہم واقعہ کو مدنظر رکھیں۔ اس روز سلامتی کونسل کے نو
ارکان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ بھارت اور پاکستان کے
درمیان مسلح جھڑپوں کے بارے میں غور کرنے کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس
فوری طور پر طلب کرنے کی تحریری درخواست کی۔ اس دن روس نے ایک قرارداد پیش
کی جس کے مطابق:
1- دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تصفیہ کرایا جائے تاکہ مستقبل میں جھڑپیں
بند ہو جائیں۔
2- قرارداد کے مطابق پاکستان کی حکومت سے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی
بند کرنے کو کہا جائے جس کی وجہ سے حالات اس حد تک نازک صورت حال اختیار کر
گئے ہیں۔
جب روس کی اس قرارداد پر رائے شماری ہوئی تو اس کے حق میں صرف دو ووٹ ڈالے
گئے۔ جن دو ملکوں نے ووٹ دیئے ان میں روس اور پولینڈ شامل تھے۔ سلامتی
کونسل کے دیگر بارہ ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان بھارت
جنگ کے دوران سلامتی کونسل میں یہ قرارداد پیش کی گئی۔ اس وقت اگرچہ بھارتی
فوج مشرقی پاکستان میں آگے بڑھ چکی تھی لیکن اس کی پیش قدمی کی چنداں اہمیت
نہ تھی۔ بہرحال روس کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد میں صرف سیاسی صورت
حال کی بحالی کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور علیحدگی کا ذکر تک نہیں تھا
مگر مسٹر بھٹو کو 8 دسمبر تک یہ بات سمجھ لینی چاہئے تھی کہ وہ قرارداد
ڈھاکہ کے سقوط کی نسبت کہیں زیادہ فائدہ مند تھی کیونکہ اس وقت تک بھارت کی
مسلح افواج بڑی حد تک مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کر چکی تھیں مگر مسٹر
بھٹو نے اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو پاکستان کے عوام کے مفاد پر ترجیح دی۔
وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہے تھے یعنی ایک طرف تو وہ مشرقی پاکستان سے
چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے اور مغربی پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے
خواہش مند تھے اور دوسری طرف پاکستانی افواج کو شکست خوردہ قرار دے کر
انہیں اس حد تک کمزور کر دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کو چیلنج نہ کر
سکیں۔
بہرحال 4 دسمبر کو روس کی پیش کردہ قرارداد سلامتی کونسل سے مسترد کر دی
گئی۔ چار اور پانچ دسمبر کو روس نے ایک اور قرارداد پر ویٹو کر دیا‘ امریکہ
کی طرف سے پیش کی گئی اس قرارداد میں یہ شق رکھی گئی تھی کہ ’’تمام
متنازعہ‘‘ علاقوں میں کشیدگی کی فضا ختم کرنے اور تعلقات بحال کرنے کے لئے
سیاسی حل ضروری ہے۔ مگر یہ مسودہ روس کے لئے باعث اطمینان نہ تھا۔ 6 دسمبر
کو یہ بات محسوس کر لی گئی کہ تمام معاملات جوں کے توں ہیں۔ اب اس مسئلے کو
سلامتی کونسل سے دوبارہ جنرل اسمبلی کی کونسل کو دیا گیا۔
13 دسمبر کو بالآخر امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد کو جنرل
اسمبلی نے منظور کر لیا جس کے تحت فریقین کو جنگ بندی اور اپنی اپنی فوجوں
کو فوری طور پر واپس بلانے کو کہا گیا۔ اس قرارداد کی حمایت میں ایک سو چار
اور مخالفت میں گیارہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ دو ارکان نے رائے شماری میں حصہ
نہیں لیا۔ بڑی طاقتوں میں سے روس نے اس کی مخالفت کی‘ برطانیہ اور فرانس نے
حصہ نہیں لیا۔ جنگ کی بات پاکستان نے فوراً مان لی لیکن بھارت نے امریکہ کے
بے پناہ دباؤ کے باوجود قرارداد پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ سلامتی کونسل
کے صدر کے نام بھارتی نمائندے نے جو خط ارسال کیا اس میں اس نے بھارت کو
جنگ بندی قبول کرنے کے فعل کو غیرحقیقت پسندانہ قرار دیا۔ بھارتی نمائندے
کے مطابق ’’بنگلہ دیش‘‘ کے نمائندے کے مؤقف کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ
قرارداد منظور کی گئی اور یہ کہ ’’بنگلہ دیش‘‘ کی فوجیں بھی مغربی پاکستان
کی فوجوں سے برسرپیکار تھیں۔ سردار سورن سنگھ نے قرارداد منظور ہونے سے ایک
روز قبل بیان دیا تھا کہ بھارت اس صورت حال میں جنگ بندی قبول کرنے اور
فوجوں کی واپسی کے مسئلے پر بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ جب کہ پاکستان بھارتی
علاقوں میں سے اپنی فوجیں نکالنے کا یقین دلائے اور اس کے ساتھ ہی بنگلہ
دیش کے عوام کی آزادی اور امیدواروں کے مطابق وعدہ کرے۔ دراصل مسٹر بھٹو
اور بھارت دونوں تاخیری حربے استعمال کر رہے تھے تاکہ بھارتی فوجوں کو
مشرقی پاکستان میں مزید آگے بڑھنے کا موقع مل جائے۔
مسٹر بھٹو نے 8 اگست کی شام کو اقوام متحدہ میں جانے سے پہلے یہ اعلان کیا
کہ ہم اس وقت تک خاموش نہیں رہیں گے جب تک پاکستان کی سرزمین سے بھارتی
جارحیت کے نشان نہ مٹا دیئے جائیں۔ چاہے اس میں ایک دن لگے یا ہزار سال لگ
جائیں۔
مسٹر بھٹو 9 دسمبر کو تہران اور 10 دسمبر کو فرینکفرٹ میں رکے اور دونوں
ملکوں میں اسی قسم کے بیانات دیئے یہاں تک کہ 11 دسمبر کو نیویارک پہنچ
گئے۔ پاکستان بھارتی جارحیت کا شکار تھا اور مسٹر بھٹو نے اقوام متحدہ تک
جانے میں تین دن گزارے اور اس تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ مسٹر بھٹو
نے محض اس لئے اقوام متحدہ تک پہنچنے میں تاخیر کی کہ بھارتی فوجوں کو
مشرقی پاکستان میں مزید پیش قدمی کے لئے وقت مل جائے۔ 11 دسمبر کو نیویارک
پہنچنے کے بعد دوپہر کا کھانا انہوں نے ایک ایرانی شہزادی کے ساتھ کھایا ا
ور پھر اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئے۔
انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہیں انفلوئنزا ہو گیا ہے۔ 13 دسمبر کو
مسٹر بھٹو نے اقوام متحدہ میں اپنی پہلی تقریر کی جس میں انہوں نے سلامتی
کونسل سے اپیل کی کہ امن کے قیام کے لئے دنیا کی 104 قوموں نے جو قرارداد
منظور کی‘ اس پر عمل کروایا جائے۔ غالباً مسٹر بھٹو نے یہ تقریر روس کو
نشانہ بنا کر کی جو جنگ بندی کے لئے بار بار سقوط مشرقی پاکستان سے دو روز
قبل 14 دسمبر کو پولینڈ نے سلامتی کونسل میں ایک طویل مسودہ قرارداد پیش
کیا جسے روس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس قرارداد پر رائے شماری بھی نہیں
ہوئی۔ اگر مسٹر بھٹو چاہتے‘ اس پر بحث بھی کی جا سکتی تھی اور رائے شماری
بھی ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پولینڈ کی قرارداد کے مسودہ میں کہا
گیا تھا:
1- مشرقی پاکستان میں اقتدار عوام کے منتخب نمائندے شیخ مجیب الرحمن کے
حوالے کیا جائے اور ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
2- اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ شروع ہوتے ہی تمام علاقوں میں فوجی کارروائی
ختم کی جائے۔ ابتدائی طور پر 72 گھنٹے کے لئے جنگ بندی کر دی جائے۔
3- ابتدائی طور پر جنگ بندی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج جنگ شروع ہونے سے
پہلے کی جگہوں پر واپس چلی جائیں۔
4- اقوام متحدہ کی نگرانی میں مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر مغربی پاکستان
کے باشندوں کو ان کی مرضی کے مطابق اپنے گھروں میں واپس جانے کے مواقع
فراہم کئے جائیں۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں موجود مشرقی پاکستان کے لوگوں
کو بھی اس قسم کی سہولتیں دی جائیں اور تمام متعلقہ حکام سے نقل مکانی کرنے
والوں کے بارے میں ضمانت لی جائے کہ ان پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔
5- جونہی پاکستانی افواج 72 گھنٹوں کے اندر اپنی پرانی جگہوں پر واپس جانا
شروع کر دیں‘ بھارتی فوجیں بھی مشرقی پاکستان سے رخصت ہونا شروع ہو جائیں۔
فوجوں کی واپسی شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے
صلاح مشورے سے ہو۔
6- یہ اصول تسلیم کرتے ہوئے کہ متنازعہ فریقین نے بزور طاقت جو رقبہ حاصل
کیا ہے انہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے‘ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو
مسلح افواج کی مناسب نمائندگی کے ساتھ فوری طور پر یہ مذاکرات شروع کرنا
ہوں گے تاکہ مغربی محاذوں پر تیزی کے ساتھ اس اصول پر عمل ہو سکے۔
اس قرارداد سے یہ بات صاف طور پر سامنے آتی ہے کہ اس میں مرحلہ در مرحلہ ہی
اقدامات تجویز کئے گئے تھے جن پر بعد میں خود مسٹر بھٹو کو عمل کرنا پڑا
تاکہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات قائم کر سکیں۔فرق صرف یہ
ہے کہ اس میں زیادہ عرصہ صرف ہوا۔ اگر یہ قرارداد پاس ہو جاتی اور اس پر
عمل ہو جاتا اور مسٹر بھٹو قرارداد پھاڑ کر اقوام متحدہ سے واپس نہ آ جاتے
تو یہ حسب ذیل حادثے وقوع پذیر نہ ہوتے:
1- فوج کے ہتھیار ڈالنے کی توہین آمیز تقریب منعقد نہ ہوتی۔
2- 93 ہزار فوجی اور شہری دو سالوں تک بھارتی جیلوں میں نہ پڑے سڑتے۔
3- بھارت مغربی پاکستان میں ہمارے علاقے پر قبضہ نہ کرتا۔
4- نئی کنٹرول لائن معرض وجود میں نہ آتی۔
15 دسمبر کو قرارداد کا نظرثانی شدہ مسودہ پولینڈ نے پیش کیا۔ اس دفعہ شیخ
مجیب الرحمن کا نام حذف کر دیا گیا اور اس کی جگہ دسمبر 1970ء میں منتخب
ہونے والے عوامی نمائندے کے الفاظ شامل کئے گئے۔ اسی روز روس نے بھی
قرارداد پیش کی جس میں مشرقی پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق سیاسی
تصفیہ پر پہنچنے اور اسے منتخب نمائندوں کے مشورے سے حل کرنے پر زور دیا
گیا۔ یہ وہی دن تھا جس سے اگلے روز ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالے گئے۔
مسٹر بھٹو نے اقوام متحدہ میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ حب الوطنی اور
خلوص کا مظہر تھا اور پاکستانی عوام‘ فوج‘ شہریوں اور ان بہاریوں کے مفاد
میں تھا جو مشرقی پاکستان کی آگ میں جل رہے تھے۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے
لئے ضروری ہے کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں فوج کی پوزیشن کیا تھی۔ جب یہ
مسودہ ہائے قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کئے جا رہے تھے۔
اس بارے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں کہ مسٹر بھٹو پوری طرح صورت حال سے
آگاہ تھے کیونکہ اس وقت وہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ تھے اور انہیں
جنرل گل حسن‘ پیرزادہ اور رحیم خان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
7 دسمبر کو مسٹر بھٹو نے جب نائب وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو جیسور‘ جہاں
پاکستان کی پوزیشن سب سے زیادہ مستحکم تھی‘ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں
بھارت کے حملے کی زد میں آ گیا۔ سنڈے ٹائمز کا نامہ نگار فلپ جیکب سن جو 7
دسمبر کو محاذ جنگ پر موجود تھا۔ اپنے اخبار میں ’’جنگ میں بھارت کی سب سے
بڑی کامیابی‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ’’مشرقی پاکستان میں جیسور کے محاذ
پر پاکستانی افواج کی مزاحمت کا مکمل خاتمہ اس حصے میں جنگ کے دوران سب سے
ناقابل فہم معاملہ ہے‘ کیونکہ قبل ازیں ایک عرصہ تک بھارتی فوج کے ذرائع یہ
باور کرواتے رہے کہ جیسورچھاؤنی کے حصول کے لئے محاصرے کی صورت میں بھارتی
فوج کا زبردست جانی نقصان ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ جیسور چھاؤنی ایک وسیع
علاقہ ہے جو کئی میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور شہر سے باہر واقع ہے بلکہ
بھارتی ڈویژن کے کرنل پی ایس دیش پانڈی کے الفاظ تھے کہ وہ ’’بھاگ نکلے‘‘
اس تاریخ کو جیسور کے سقوط کی تصدیق بعد میں میجر جنرل فضل مقیم نے 1971ء
کی جنگ کے واقعات کی یادداشتوں میں کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جیسور میں
فوج نہیں تھی اور ان دفاعی مقامات پر بھی فوجی موجود نہ تھے جہاں سے دشمن
پیش قدمی کر رہا تھا۔
بھارتی فوجی 7 دسمبر کو کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر جیسور میں داخل ہو گئے
اور انہوں نے ڈویژن کے ایمونیشن ڈپو کو بھی صحیح سلامت پایا۔
بھارت کے حساب کے مطابق (بقول ڈی کے پالٹ) 9 دسمبر تک انہوں نے درگاہ پور‘
شمال مغرب میں ہلی سے 25 میل دور پالش باڈی پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے
فوجی ایک طرف جام پور کے نواح میں پہنچ چکے تھے اور دوسری جانب سلہٹ کے
قریب تھے۔ اس تاریخ تک برہن باریہ بھی بھارت کے قبضے میں آ چکا تھا۔ کومیلا
کا محاصرہ کیا جا چکا تھا۔
ایک بھارتی لشکر چاند پور کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چاند پور ڈھاکہ کے جنوب میں
دریائے گنگا کی بندرگاہ ہے۔
نارائن گنج پر 11 دسمبر کو قبضہ ہوا‘ اس وقت تک پاکستانی فوج کا کثیر حصہ
مغرب اور گنگا کے جنوب اور میگھنا کے قریب کے تین علاقوں میں محاصرے میں آ
چکا تھا۔ ڈھاکہ کی طرف سپلائی منقطع ہو چکی تھی۔ صرف میمن سنگھ کے محاذ پر
ممکن ہو سکتا تھا کہ پاکستانی فوج ڈھاکہ کی طرف پسپا ہو سکے لیکن تانگیل کی
شکست کے بعد یہ امکان بھی ختم ہو گیا۔ 14 دسمبر تک بھارتی فوج کے ہر اول
دستے گنگا پر فرید پور تک پہنچ چکے تھے۔ کھلنا سے چند میل دور دولت پور پر
بھی قبضہ ہو چکا تھا۔ کشتیا‘ جیسور اور کھلنا سیکٹروں میں پاکستانی فوج کے
نکلنے کا راستہ بند کیا جا چکا تھا۔ شمال مغربی سیکٹر میں گھوڑا گھاٹ پر 12
دسمبر ہی کو قبضہ ہو گیا تھا اور پاکستانی فوج کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر‘ بوگرا
پر 14 دسمبر کو بھارتی فوج نے قبضہ کر لیا۔
چونکہ مشرقی پاکستان میں بھارتی ذرائع کی معلومات کو قبول کرنا اتنا آسان
نہیں‘ بہتر ہو گا کہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ واقعات پر انحصار کیا جائے جو
کہ میجر جنرل فضل مقیم کی کتاب میں دیئے گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا پاکستانی فوج ایک طویل عرصہ تک اتنی شدید رکاوٹوں کے خلاف لڑ سکتی تھی؟
ایک ایسی فوج جو جارح ملک میں تنہا رہ گئی ہو؟ فضل مقیم کا تبصرہ یہ ہے کہ
پاکستانی فوج کے پاس بلند حوصلگی کے سوا ہر چیز کی کمی تھی۔ جنرل فضل مقیم
کا یہ بیان فلپ جیکب سن کے اس تاثر کی تردید کرتا ہے کہ جیسور کے سقوط کے
بعد مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی مزاحمتی قوت کیوں دم توڑ رہی تھی۔ جیکب
سن لکھتا ہے ’’پاک فوج کی غیرمتوقع اور اچانک شکست میں اور چیزوں کے سوا سب
سے زیادہ حصہ اس بات کا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کے حوصلے پست ہو
چکے تھے۔ گزشتہ پورا ہفتہ پاکستانی فوجی بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈالتے
چلے گئے۔ یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ سینئر افسروں نے
اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ گزشتہ پندرہ روز سے ڈھاکہ کی طرف رخ
کر رکھا تھا اور بھارتی لاؤڈسپیکروں سے انہیں بار بار کہا جا رہا تھا کہ
ہتھیار ڈال دو ورنہ مکتی باہنی کے ہاتھ لگ جاؤ گے جو تمہیں زندہ نہیں
چھوڑیں گے۔‘‘
مشرقی پاکستان میں متعین یونٹ مارشل لا ڈیوٹی کے دباؤ تلے شدید الجھاؤ کا
شکار تھے اور فضل مقیم کی کتاب کے مطابق شب وروز بھارتیوں اور باغیوں کی
تخریبی سرگرمیوں کے خلاف صف آرا تھے۔ اس کے نتیجے میں انہیں آرام کرنے کا
موقع بہت کم یا بالکل ہی نہیں ملتا تھا۔ وہ فوجی جو اپریل میں مورچے میں
داخل ہوا‘ زندہ رہنے کی صورت میں اسے نومبر تک وہیں رہنا پڑا۔ سپلائی کی
حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ سرکاری محکموں اور عام لوگوں میں ہر جگہ ان کے
دشمن موجود تھے اور تحفظ آمیز ماحول نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبور تھے کہ
ایسی جگہوں پر رہیں جہاں ان کے لئے دفاع کرنا آسان ہو۔ وہ ایک جگہ پر جامد
ہو کر رہ گئے جہاں سے چند قدم تک گھومنے پھرنے کی بھی گنجائش نہیں رہ گئی
تھی۔ ایسے میں ہتھیار ڈالنے کا احساس آہستہ آہستہ پرورش پا رہا تھا کیونکہ
اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مکتی باہنی کی سزا سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا۔
مشرقی کمان کے کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے 6 دسمبر کو جو رپورٹ دی
اس سے اس تکلیف دہ صورت کا صحیح اندازہ ہو تا ہے۔ جنرل نیازی نے بتایا کہ
اسے کلیدی دفاعی مورچوں سے رضاکاروں اور مجاہدوں کے بھاری نقصان کے ساتھ
پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ایسے میں ٹینکوں‘ توپ خانوں اور فضائی قوت کی
عدم موجودگی نے صورت حال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ جوں جوں بھارتی دباؤ
بڑھتا چلا گیا‘ جنرل نیازی کے پیغام میں زندگی کی حرارت کم ہوتی چلی گئی
اور ان سے کمزوری اور مایوسی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ جنرل نیازی نے فوجوں
کی زبردست کمی اور مسلسل افسوس ناک واقعات کی رپورٹیں روانہ کرنا شروع کر
دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان شدید تر ہوتا چلا گیا اور کتاب ’’پاکستانی
قیادت کا بحران‘‘ از جنرل فضل مقیم کے مطابق ’’صاف ظاہر تھا کہ ان حالات
میں مسلمان سپاہیوں کی ماورائی قوت ایمانی پر حد سے زیادہ اعتماد کیا گیا
تھا لیکن فوجی اس قدر تھک گئے تھے کہ ان کے لئے اپنی آنکھیں کھولے رکھنا
ممکن نہیں رہا تھا۔‘‘
کیا نائب وزیراعظم مسٹر بھٹو حالت جنگ میں کسی فوجی کی ضرورت کے بارے میں
ہمدردانہ سوچ رکھ سکتے تھے۔ ہماری فوج کو اس سے پہلے کبھی بھی ایسی توہین
آمیز صورت حال سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا۔ اس سے گریز صرف فائربندی کے
ذریعے ہی ممکن تھا جس کی مسٹر بھٹو نے کسی صورت میں اجازت نہ دی کیونکہ
مشرقی پاکستان میں جنگ بندی مسٹر بھٹو کو اس اقتدار سے محروم کر دیتی جو اس
نے بعد میں حاصل کیا۔
16 دسمبر کو فوجوں کا ہتھیار ڈالنا ضروری ہو چکا تھا جس کے بارے میں مشرقی
کمان اور ڈھاکہ حکومت کو پہلے چند دنوں ہی میں اندازہ ہو گیا تھا۔
فضل مقیم کی کتاب کے مطابق ’’اسلام آباد‘‘ کی حکومت نہ صرف یہ کہ مشرقی
فوجوں کے کمانڈروں کی پریشان کن کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھی بلکہ وہ اس حد
تک چلی گئی تھی کہ فوج کو دھوکے میں رکھ کر یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ
چین عملی طور پر مداخلت کر کے ان کی مدد کے لئے آنے والا ہے۔ لندن اکانومسٹ
نے 18 دسمبر کو 1971ء کی اشاعت میں لکھا ’’اور کچھ پاکستانی اقوام متحدہ
میں اس موقع پر اپنی نجی گفتگو میں یہ دعوے کرتے سنے جا رہے تھے کہ چین نے
وعدہ کیا ہے کہ اگر آزاد کشمیر خطرے میں ہوا تو وہ جنگ میں شامل ہو جائے
گا۔‘‘
یہ پیغام یحییٰ خان تک بھٹو نے پہنچایا تھا جنہیں چینیوں کا ایک بہت بڑا
محبوب سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے یحییٰ خان اور دوسرے لوگوں کو لگاتار یہی
تاثر دیا۔
فوج کے چیف آف سٹاف نے 5 دسمبر کو ہی جنرل نیازی کی چینی فوج کے تعاون کے
اشارے کی نشاندہی کر دی تھی‘ بعد میں انہوں نے مسٹر بھٹو کی یقین دہانی پر
امریکی حمایت کا بھی تاثر دیا۔ واضح رہے کہ 1965ء کی جنگ کے دوران جب کہ
مسٹر بھٹو وزیر خارجہ تھے‘ انہوں نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو بھی یقین
دہانی کرائی تھی کہ امریکہ بھارت کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ پاکستان کی
بین الاقوامی مسلمہ سرحدوں پر حملہ کرے اور یہ کہ جنگ صرف کشمیر میں لڑی
جائے گی۔
چند دنوں بعد 5 دسمبر 1971ء کو مسٹر بھٹو یحییٰ خان کے ذاتی نمائندے کی
حیثیت سے ایک آٹھ رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے چین گئے جس میں محکمہ خارجہ
کے سیکرٹری‘ فضائی فوج کے کمانڈر انچیف‘ بری فوج کے چیف آف جنرل سٹاف اور
بحریہ کے چیف آف سٹاف بھی شامل تھے۔
اس مشن کے بارے میں پیکنگ سے ایجنسی کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ چین بھارت
اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ڈان نے 6 نومبر
1971ء کو یہ رپورٹ دی کہ چین نے وعدہ کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے اگر جارحیت
ہوئی تو وہ پاکستان کی حمایت کرے گا لیکن چینی لیڈروں کا برصغیر کی صورت
حال بالخصوص گزشتہ دو ماہ کے حالات سے متعلق انتہائی محتاط رویہ تھا اور وہ
اس صورت حال پر انتہائی مشوش تھے۔
پیکنگ سے واپسی پر 6 نومبر کو مسٹر بھٹو نے صحافیوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے
یحییٰ خان کو مشورہ دیا کہ وہ بڑی طاقتوں سے متعلق ضبط سے کام لیں لیکن 12
نومبر کو انہوں نے کراچی میں جوشیلے عوام کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’’اگر بھارت نے کوئی حملہ کیا تو اسے زندگی بھر اس کا مزہ یاد رہے گا۔‘‘
انہوں نے یہ بات یہ تاثر دیتے ہوئے کہی تھی کہ انہوں نے چین کی پوری
امدادحاصل کر لی ہے۔
انہوں نے پرہجوم عوام میں ’’یا علی‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ
ہندوستان کی ایک ہزار سالہ تاریخ اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہے کہ مسلمانوں
کو میدان جنگ میں شکست نہیں ہوئی۔ اب اگر مائی اندرا اس کا مزید ثبوت چاہتی
ہے تو وہ اسے مل جائے گا۔ ہم گنگا اور جمنا کے کناروں پر لڑیں گے۔
چین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چین 1965ء کی جنگ میں بھی پاکستان کی مدد
کر چکا ہے اور وہ اب بھی اگر بھارت نے اپنی حماقت سے جارحیت شروع کی تو
ہمارے شانہ بشانہ لڑے گا۔
دوسری طرف میدان جنگ کی طرف آئیں تو وہاں پر 7 دسمبر تک کوئی مدد نہیں آئی
تھی۔ مشرقی پاکستان کے گورنر ڈاکٹر اے ایم مالک نے صدر کو ایک پریشان کن
پیغام بھیجا جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ نیازی نے ان سے کہا کہ ’’مشرقی
ومغربی سیکٹروں کا محاذ بالکل ٹوٹ چکا ہے اور دریائے میگھنا کے پورے مشرقی
علاقے کا نکل جانا محض کچھ وقت کا معاملہ رہ گیا ہے۔‘‘
’’جیسور نکل جانے کے بعد پاکستان نواز آبادی پر ایک سخت ضرب پڑنے لگی۔
باغیانہ سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں خبررساں نظام میں رخنہ
اندازی ہو رہی ہے اور شہری انتظامیہ بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔ چاٹگام یا
صوبے کے اندر کسی چیز کی نقل وحرکت نہیں ہو سکتی۔ اس کے نتیجے میں تمام
اشیاء کی قلت ہونے لگی ہے اور سات دنوں کے بعد ہی ڈھاکہ خوراک‘ ایندھن اور
تیل سے محروم ہو جائے گا۔ اس طرح زندگی قطعی طور پر مفلوج ہو کر رہ جائے
گی۔‘‘
ڈاکٹر اے ایم مالک نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس موقع پر بڑی طاقتوں کی طرف
سے محض زبانی یا مالی امداد کا کوئی فائدہ نہ ہو گا جب تک کہ براہ راست
مداخلت نہ کریں۔ انہوں نے مطلع کر دیا تھا کہ اگر کسی دوست کی طرف سے
مداخلت ہو سکتی ہے تو اسے ہماری امداد کو 48 گھنٹوں میں پہنچ جانا چاہئے
اور اگر مدد کی امید نہیں تو پرامن انتقال اقتدار‘ فوجیوں اور شہریوں کی
جانیں بچانے اور اس مصیبت سے بچنے کے واسطے جس سے لاکھوں زندگیوں کو خطرہ
ہے‘ فوری جنگ بندی کے لئے مذاکرات شروع کر دینے چاہئیں۔ انہوں نے خیال ظاہر
کیا کہ اگر ہمیں اپنا انجام نظر آ رہا ہے تو اس قدر قربانیاں دینے کا کوئی
مطلب نہیں۔ (بھٹو کی یقین دہانی پر) یحییٰ خان نے ڈاکٹر مالک سے کہا کہ
تمام ممکنہ امداد کی جائے گی۔ جنگ کو جاری رکھنے کی حکمت عملی سے متعلق
یحییٰ خان نے گورنر کو مطلع کیا کہ فوج کے چیف آف سٹاف نیازی کو ہدایت دیں
گے۔
دوسری طرف نیازی پر ہیجانی کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی اور وہ ہائی کمان کو
چین کی سرگرمیوں کے بارے میں بار بار دریافت کر رہا تھا۔ 8 دسمبر تک ہائی
کمان مشرقی کمان کی مکمل ناکامی پر اس قدر بوکھلا چکی تھی کہ اس نے نیازی
سے کہہ دیا کہ چینی نقل وحرکت شروع ہو چکی ہے۔ مرکز کی طرف سے چین سے آنے
والی امداد کے بارے میں یقین دہانی کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں تھی۔ اس
میں صرف مشرقی کمانڈر کو بے وقوف بنانا مقصود تھا۔
جنگ کا سب سے نمایاں حادثہ جس نے قطعی طور پر ہتھیار ڈالنے کی پیش گوئی کر
دی تھی اور جو کسی بھی سمجھ دار حکومت کے لئے ایک انتہا کا درجہ رکھتا
تھا…… 11 نومبر کو وقوع پذیر ہوا۔ گورنر مالک کے 7 نومبر کے پیغام کے برعکس
اس اپیل نے جو ساری دنیا کے اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی اور
چند گھنٹوں کے اندر پبلک میں پھیل گئی۔ پاکستانی حکومت کے سوا سب پر واضح
کر دیا کہ بھارت نے جنگ جیت لی ہے۔ اس اپیل کا تعلق میجر جنرل راؤ فرمان
علی سے تھا جو مشرقی پاکستان کے گورنر کے مشیر تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ
سے اپیل کی جس میں سلامتی کونسل سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستانی افواج‘
سرکاری حکام اور مغربی پاکستان کے شہریوں کو مغربی پاکستان پہنچانے کا
انتظام کرے۔ اس کے عوض انہوں نے بنگلہ دیش میں ایک نمائندہ حکومت قائم کرنے
کی پیش کش کی تھی۔ جس رخ سے بھی دیکھا جائے یہ ایک اہم واقعہ ہے جس نے
مشرقی پاکستان کی حقیقی صورت حال واضح کر دی تھی۔ دوسری طرف حکومت پاکستان
نے جسے بھٹو چلا رہے تھے‘ بجائے ان واقعات کی حقیقت جاننے کے الٹا اسے
چھپانا اور دبانا چاہا۔ فرمان علی کی طرف سے ایک بیان جاری کر دیا گیا جس
میں اس رپورٹ کو سراسر جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایسا کوئی
بھی پیغام موصول کیا گیا ہے تو اسے غیرمصدقہ تصور کیا جائے۔ ایک سرکاری
ترجمان نے مزید کہا کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم نے (فرمان علی نے)
اقوام متحدہ کو کبھی کوئی پیغام نہیں بھیجا‘ بہرحال جیسا کہ 14 دسمبر کے
ٹائمز کے ڈیوس ہاؤس نے لکھا کہ پیغام کسی نے بھی بھیجا ہو یہ موصول یقینا
ہوا تھا۔ امکان یہ بھی ہے کہ جنرل فرمان علی کے اس پیغام کو یحییٰ خان کی
منظوری حاصل تھی لیکن بعد میں یحییٰ خان نے اس کی تردید کر دی۔ اس تحریک کے
پس پردہ ظاہر ہے مسٹر بھٹو نائب وزیراعظم کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔
ان تمام واقعات کے پس منظر میں مسٹر بھٹو نے 13 دسمبر کو اقوام متحدہ میں
اپنی پہلی تقریر کی۔ یہ ایک طویل تقریر تھی جو تقریباً دو گھنٹے تک جاری
رہی اور ٹھیک آدھی رات کے وقت ختم ہوئی۔ جیسا کہ ٹائمز 14 دسمبر نے تبصرہ
کیا جب مسٹر سورن سنگھ تقریر کر چکے تو مسٹر بھٹو نے پندرہ منٹ کے وقفے کے
لئے کہا تاکہ وہ ان ہدایات پر غور کر سکیں جو ابھی ان کی حکومت کی طرف سے
موصول ہوئی تھیں یا پھر شاید کوئی اور ان کی ڈور کھینچ رہا تھا۔ یہ معلوم
نہیں کہ ان ہدایات کی نوعیت کیا تھی لیکن وہ غالباً چند الفاظ پر مشتمل ہوں
گی کہ گرجتے اور چنگھاڑتے رہو‘ میرے بچے۔ اس لئے کہ بعد کے دو گھنٹوں کے
دوران مسٹر بھٹو نے یہی کچھ کیا۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے عالمی
ادارے سے کہا کہ ’’اگر کچھ ممبروں کا یہ خیال ہو کہ کارروائی میں تاخیر کی
جائے گی تاکہ بھارت مشرقی پاکستان پر قبضہ کرے تو یہ ان کی المناک غلطی ہے۔
پاکستان اپنے علاقے پر بھارت کا قبضہ نہیں ہونے دے گا۔ ہم ایک ہزار سال تک
لڑیں گے۔‘‘ انہوں نے گرج کر کہا ’’ہم جھکیں گے نہیں۔ ایلس کی طرح ہم
ونڈرلینڈ میں آپ سے کہنے کے لئے آئے ہیں کہ ہمارا برصغیر اجاڑ سرزمین میں
تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے خلاف بالادستی‘ جارحیت اور استحصال کا
ارتکاب کیا جا رہا ہے۔
معاہدۂ تاشقند پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’یہ معاہدہ بھارت کے حق میں
تھا۔ اتنا حق میں تھا کہ ان کا وزیراعظم شادیٔ مرگ کا شکار ہو
گیا۔‘‘(ٹائمز‘ 14 دسمبر) مسٹر بھٹو نے فی البدیہہ تقریر کی اور رپورٹ کے
مطابق تقریر کے دوران میز پر ہاتھ مارتے ہوئے اور اشارے کرتے ہوئے اپنی
آواز میں رقت پیدا کر لیتے۔ ایک طرف جب بھارتی فوجیں بڑے آرام سے ڈھاکہ کی
طرف پیش قدمی کر رہی تھیں تو پاکستان کے نائب وزیراعظم آخری بار سورن سنگھ
کو مطلع کر رہے تھے کہ میں بھارت کا وزیرخارجہ بننے کی بجائے ایک آزاد ملک
کا حقیر کیڑا بن جانے کو ترجیح دوں گا۔‘‘
مسٹر بھٹو کی 13 تاریخ کی تقریر کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جو اب تک
غیرجانبدار رہے تھے‘ تعطل کو دور کرنے کے لئے سلامتی کونسل میں اپنی تحریک
شروع کی۔ کونسل کے ایوان سے باہر دونوں ملکوں نے ایک راہ عمل تجویز کی جس
میں بنگلہ دیش کی سیاسی حقیقت کو ملحوظ رکھا گیا۔ کونسل کے ارکان نے ان کی
تجویز پر بحث جاری رکھی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں مسٹر بھٹو کی آخری
تقریر ہوئی۔ اس وقت تک تجویز نے مسودہ قرارداد کی شکل اختیار کر لی تھی۔
حالات بہت آگے بڑھ چکے تھے۔ اس قرارداد پر کبھی بھی رائے شماری کی نوبت نہ
آ سکی۔
مسٹر بھٹو نے 14 دسمبر کو ایک دوسری تقریر کی جو ان کی پہلی تقریر سے کچھ
مختلف نہ تھی پھر 15 دسمبر کو ایک خصوصی اجلاس میں جو ان کی استدعا پر طلب
کیا گیا تھا‘ انہوں نے اپنی تیسری اور آخری تقریر کی۔ یہ اجلاس اس وقت طلب
کیا گیا تھا جب کہ کونسل کے ارکان کے درمیان برطانیہ اور فرانس کی تجویز پر
صلاح ومشورہ جاری تھا۔ اس تقریر میں مسٹر بھٹو نے برطانیہ اور فرانس پر
حملے کئے کہ وہ پاکستان کی پوزیشن کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے
کہا کہ فرانسیسیوں کی منطق اور اینگلوسیلشن تجربہ ہمیں بہت مہنگا پڑا ہے۔
آپ انصاف کی طرف ہیں یا بے انصافی کی طرف۔ آپ کا ملک جارحیت کی طرف ہے یا
جارحیت کا نشانہ بننے والے کی طرف۔ انہوں نے رقت آمیز لہجے میں کہا کہ خود
میری ذات کے اور میرے ملک کے لئے یہاں ٹھہرنا ذلت آمیز ہے۔ قانونی جواز کے
ساتھ جارحیت‘ قانونی جواز کے ساتھ قبضہ میں اس میں ایک فریق نہیں بن سکتا۔
ہم واپس جائیں گے اور لڑیں گے۔ 16 دسمبر کو ڈان کے مطابق ہتھیار ڈالنے سے
متعلق مسٹر بھٹو کے تبصرہ میں برطانیہ اور فرانس کی طرف سے پیش کی جانے
والی قرارداد کو ہدف بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’اقوام متحدہ کا مقصد
سقوط ڈھاکہ کی اجازت دینا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’میں نے کونسل کے ارکان کی
منت سماجت کی کہ وہ حرکت میں آئیں کیونکہ ڈھاکہ میں دست بدست لڑائی ہو رہی
ہے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ مسٹر بھٹو نے ان سے کہا ’’کوئی بھی فیصلہ
کر دیں۔ ورسیلز سے بدتر معاہدہ کر دیں۔ جارحیت کو قانونی جواز دے دیں۔ میں
اس میں ایک فریق نہیں بن سکتا۔ ہم لڑیں گے۔ میرا ملک میرا انتظار کر رہا
ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے کونسل کا ایجنڈا چاک کر دیا اور پیر پٹختے ہوئے
باہر نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا وفد بھی نکل آیا۔ مسٹر بھٹو کی زبان
پر یہ الفاظ تھے۔ میں اس شرمناک شکست میں فریق نہیں بنوں گا۔ یہ لیجئے اپنی
سلامتی کونسل (ایجنڈا پھاڑ دیتے ہیں) یہ رہی آپ کی سلامتی کونسل‘ میں جا
رہا ہوں۔
حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے کہ جب مسٹر بھٹو نے سلامتی کونسل میں
اعلان کیا کہ میں اس شرمناک شکست میں فریق نہیں بن سکتا۔ میں یہاں اپنا وقت
کیوں ضائع کروں‘ میں اپنے وطن جا رہا ہوں اور یہ جنگ جاری رہے گی۔ عین اس
وقت جب مسٹر بھٹو سلامتی کونسل میں یہ نعرہ مستانہ بلند کر رہے تھے‘ ڈھاکہ
میں مفتوح جنرل نیازی ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر بات چیت کر رہے تھے۔
اپنے ان الفاظ کے باوجود مسٹر بھٹو 18 دسمبر تک نیویارک میں رہے یہاں تک کہ
جنرل یحییٰ خان نے اسلام آباد سے پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان آ کر تیار شدہ
حکومت سنبھال لیں اور یہی مسٹر بھٹو چاہتے تھے۔
ریٹائرڈ جنرل جنگ کے ایام کی واضح تفاصیل بیان کرتے ہیں۔ یہ کہانی اس قدر
حیرت انگیز ہے کہ اس پر یقین نہیں آتا۔ ڈھاکہ میں ہمارے سپاہی انتہائی بے
چارگی اور کسمپرسی کے عالم میں تھے۔ فوجی ہائی کمان پر انکشاف ہوا کہ نیازی
کا حوصلہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔ یہ کوشش کہ وہ جنگ جاری رکھیں‘ 5 دسمبر سے
شروع تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں جوابی حملے کا
پروگرام بنایا جا رہا تھا لیکن اس جوابی حملے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس صورت
حال کا موازنہ یحییٰ خان کے ان الفاظ سے کیا جائے جو انہوں نے 21 نومبر کو
کہے تھے‘ یحییٰ خان نے اس وقت کہا تھا ’’میں مشرقی پاکستان کے بارے میں کیا
کر سکتا ہوں‘ میں تو صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔‘‘
ہائی کمان نے کیا کیا؟ چیف آف آرمی سٹاف نے بتایا کہ چین بہت جلد مداخلت
کرنے والا ہے جو سفید جھوٹ تھا۔ جنرل فضل مقیم کے مطابق 8 دسمبر کو مشرقی
پاکستان کا فوجی ہیڈکوارٹر تباہ ہو چکا تھا جس سے ہائی کمان انتہائی حواس
باختہ ہو گئی اور چینی مداخلت کے جھوٹ کو اس طرح آگے بڑھایا کہ اب چین نے
نقل وحرکت شروع کر دی ہے۔ جنگ کے ساتھ یہ طفلانہ طرز عمل اس قدر احمقانہ
تھا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہائی کمان اس صلاحیت سے بھی عاری
تھی کہ جنگ کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ہاری کس طرح۔ جنگ کے اس المناک مرحلے پر
ہائی کمان کو صرف یہی فکر ہونی چاہئے تھی کہ ان فوجیوں کو کس طرح بچایا
جائے جو نو ماہ سے انتہائی مشکل حالات میں نبردآزما تھے اور غیرفوجی افراد
کے جان ومال کی حفاظت کیسے کی جائے۔
مسٹر بھٹو اس وقت نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ تھے‘ اسی روز نیویارک روانہ
ہو گئے جب کہ یہ معاملہ پہلے ہی سلامتی کونسل میں پیش کیا جا چکا تھا۔
فرینکفرٹ میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سے امن کی بھیک مانگنے نہیں جا
رہا بلکہ وہ دوست ملکوں کے وفود سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی جنگ
دراصل ہندوستان سے نہیں‘ بڑی طاقتوں سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت
محسوس ہوئی تو ہزاروں سال تک اس جنگ کو جاری رکھا جائے گا۔
گورنر مالک نے 7 دسمبر کو انتہائی دلبرداشتہ پیغام بھیجا کہ لاکھوں
غیربنگالی اور وفادار لوگ موت کا انتظار کر رہے ہیں اور اگر اگلے 48 گھنٹوں
میں غیرملکی مداخلت ہو جائے تو جنگ جاری رہے گی‘ خواہ حالات کیسے ہی کیوں
نہ ہوں۔ یحییٰ خان نے جو بھٹو کے ہاتھ میں کھیل رہا تھا گورنر مالک کو ایک
اور خوش آئند پیغام بھیجا کہ تمام ممکنہ امداد ہی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ مغربی
محاذ پر گھمسان کی جنگ جاری ہے اور عالمی طاقتیں جنگ بندی کرانے کے لئے
کوشاں ہیں۔
جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ مغربی پاکستان کی طرف سے جوابی حملہ کبھی نہیں
کیا گیا بلکہ کبھی حملہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں کیا گیا۔ یحییٰ خان نے جنرل
نیازی کو اسی رات پیغام بھیجا اور افواج کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے
تلقین کی کہ وہ علاقے کا خیال رکھے بغیر دفاعی پوزیشن اختیار کرے۔ اس کی
تلقین ہر طرح بعدازوقت تھی۔
اگر صورت حال یہ تھی اور جنرل یحییٰ خان 21 نومبر کو مشرقی پاکستان کے لئے
دعا کے سوا کچھ نہ کر سکتے تھے تو پھر جنگ کیوں کر لڑ سکتے تھے؟ جلد ازجلد
جنگ بندی ہی ایک ایسی چیز تھی جس کی تمنا وہ ہتھیار ڈالنے کے شرمناک فعل سے
بچنے کے لئے کرسکتے تھے۔
جوں جوں واقعات رونما ہوتے گئے انہوں نے صرف پیپلزپارٹی کو برسراقتدار لانے
کی کوششیں شروع کر دیں کیونکہ حالات ایسے تھے کہ عوامی لیگ تو بنگلہ دیش تک
محدود ہو جاتی اور مغربی پاکستان میں فوج ایک شکستہ اور بے بضاعت ادارے کی
حیثیت اختیار کر لیتی۔ یہی وہ نقشہ تھا جو مسٹر بھٹو نے ترتیب دیا تھا۔
بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ملک میں صرف تین ہی طاقتیں ہیں جنہیں تسلیم
کیا جا سکتا ہے۔ ایک فوج‘ دوسری عوامی لیگ اور تیسری پاکستان پیپلزپارٹی۔
عوامی لیگ نے اپنے راستہ کا انتخاب کر لیا تھا۔ فوج نے اپنی قسمت بھٹو کے
ہاتھ میں دے کر اپنی عزت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ مسٹر بھٹو کو اپنا وقت
اقوام متحدہ میں صرف کرنے کی بجائے ملک میں رہنا چاہئے تھا لیکن اس منصوبے
کے لئے وہ دفتر خارجہ کے کسی آدمی پر اعتماد نہ کرسکتے تھے۔ ان کے سوا کون
تھا جو مشرقی پاکستان کے فوجیوں کے مصائب میں اضافہ کرتا اور جنگ بندی قبول
نہ کرتے ہوئے ملک کے مفاد کے خلاف کام کرتا۔
ایشین نے اپنی 19 دسمبر 1971ء کی اشاعت میں لکھا ’’مسٹر بھٹو پچھلے ماہ مسز
گاندھی سے کہہ رہے تھے کہ وہ دسمبر تک انتظار کریں تاکہ جنرلوں کی بجائے
پاکستان کے سیاست دانوں سے بات کر سکیں۔‘‘ ان کا ٹائم ٹیبل مسز گاندھی کے
ٹائم ٹیبل سے مماثلت رکھتا تھا۔ مسز گاندھی سے بات کرنے کا یہ حوالہ مسٹر
بھٹو کی کراچی کی تقریر سے تعلق رکھتا ہے جو انہوں نے چین سے واپسی پر کی
تھی۔
7 دسمبر کو وہ مرکزی مخلوط کابینہ میں وزیرخارجہ اور نائب وزیراعظم بن کر
آئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا یہ اقدام بحران میں ملک کو سلامتی بخشنے
کے لئے ہے۔
11 دسمبر کو وہ اقوام متحدہ میں تھے اور جو کارنامہ کر رہے تھے وہ سلامتی
کونسل کے مسودہ قرارداد کو پھاڑنے کا تھا۔
وہ جانتے ہیں کہ جب سلامتی کونسل کا پردہ اٹھا تو ہم جنگ ہار رہے تھے‘ وہ
صرف اپنا کردار ادا کر رہے تھے جو ان کو دیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ان کے
پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں اور جیتنے کو سب کچھ ہے۔
مغربی محاذ پر حملہ سے متعلق جو کبھی بھی نہ کیا جا سکا اور جس کی کمانڈ
جنرل ٹکا خان کو کرنا تھی‘ جنہیں جنرل مقیم فوج کے خوش قسمت ترین جنرل کے
نام سے موسوم کرتے ہیں‘ وقت کا انتظار کرتے رہے۔ ہائی کمان کی طرف سے گرین
سگنل کا بے صبری سے انتظار کرتے رہے‘ وہ 7 دسمبر کو بذریعہ طیارہ جنرل
ہیڈکوارٹر پہنچے لیکن تمام ہدایات اور ان کے اضطراب کے باوجود انہیں اس
حملہ کو شروع کرنے کی اجازت نہ ملی اور انہیں گرین سگنل نہ دیا گیا‘ انہیں
جو کرنے کو کہا گیا وہ فقط یہ تھا کہ انہیں صرف اپنے فوجی دستے کو ادھر سے
ادھر حرکت دیتے رہنا چاہئے۔
جیسا کہ جنرل فضل مقیم خیال کرتے ہیں جنرل فرمان علی کی 11 دسمبر کو اقوام
متحدہ سے درخواست نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان مزید فوجی محاذ آرائی
برداشت نہیں کر سکتا۔ دوستانہ دم بھرنے والے ملک سکتے میں رہ گئے اور
پاکستان کا کیس عملاً ختم ہو گیا۔
دریں اثناء بھارتی فوج ڈھاکہ کی طرف سرعت سے پیش قدمی کر رہی تھی۔ چھاتہ
بردار تانگیل میں اتر چکے تھے۔ چھمب میں پاکستانی حملہ پسپا کیا جا چکا
تھا۔ بھارتی ہتھیار ڈالنے کو کہہ رہے تھے۔ مغربی محاذ پر جنگ گرم ہونے سے
پہلے ہی سرد ہو چکی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے سوا سب کچھ
منصوبے کے مطابق کیا جا رہا تھا۔
اگرچہ جنرل فضل مقیم نے واضح نہیں کیا لیکن 3 دسمبر کو مغربی محاذ تک جنگ
کا دائرہ وسیع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تنازعے کو عالمی حیثیت دی جائے اور
دو طرفہ شرائط پر جنگ بندی عمل میں آ سکے۔ وہ بار بار شکایت کرتے ہیں کہ
مغرب میں جوابی حملہ نہیں کیا گیا۔ ایسا اس لئے نہیں ہو سکا کہ بھٹو کبھی
لڑنا چاہتے ہی نہیں تھے‘ نہ ہی فضائیہ نے ایسا کیا کیونکہ وہ بھی اس ڈھانچے
کا حصہ تھی۔ ایئرمارشل رحیم‘ جنرل گل حسن کی طرح مسٹر بھٹو کی براہ راست
ہدایات تلے کام کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حرکت نہ کی۔
مشرقی پاکستان میں ہماری افواج کے حوصلے اور جنگی جذبے کے بارے میں جنرل
فضل مقیم کا تاثر یہ ہے۔ ’’جنگ کے دوران یہ احساس عام ہو چکا تھا کہ انہیں
مغربی پاکستان سے منقطع کر دیا جائے گا اور ان تک کوئی امداد نہ پہنچ سکے
گی۔ صدر جو کمانڈر انچیف بھی تھا‘ نے بغاوت کے تاریک مہینوں میں ایک مرتبہ
بھی جوانوں سے ملاقات نہیں کی جبکہ دوسرے سینئر افسران بہت کم تھے اور بہت
دور دور تھے۔ قصہ مختصر اس فوج کی حیثیت بھولی بسری فوج کی سی تھی۔ فوجیوں
کے لئے اتنی دیر وہاں پڑے رہنے اور بے مقصد کارروائیوں میں مصروف رہنے کی
منطق ناقابل فہم تھی چنانچہ حکومت پر عام تنقید ہونے لگی۔ اس مرحلہ پر مسٹر
بھٹو کا مکمل کنٹرول تھا اور پیرزادہ‘ رحیم اور گل حسن ان کی خواہشات کے
مطابق کام کر رہے تھے اور یحییٰ خان ایوان صدر میں محض ایک قیدی کی طرح
تھا۔
جس طریقہ پر یہ جنگ لڑی گئی وہ ناقابل یقین تھا۔ 25 نومبر تک ڈھاکہ‘
چٹاگانگ روڈ کو بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھ کر چیف آف سٹاف کو تحریک ہوئی کہ
مشرقی کمان کو تلقین کرے کہ وہ اس سیکٹر کو مضبوط کریں۔ یہ امر حیران کن ہے
کہ چیف آف سٹاف کو یہ تک علم نہ تھا کہ جنرل نیازی اور ان کے ڈویژنل
کمانڈروں کے پاس کوئی ریزرو فوج نہیں ہے حتیٰ کہ ڈھاکہ تک یونہی چھوڑ دیا
گیا تھا اور اس کے دفاع کے لئے ایک بٹالین تک موجود نہ تھی۔ اندرونی علاقوں
میں ان گنت مقامی مرکز جنہیں مضبوط مرکزوں میں بدلا جا سکتا تھا‘ وہ باغیوں
کے محاصرے میں تھے۔ ڈھاکہ کے دفاع کا کوئی بندوبست نہ تھا اور اس جگہ کوئی
لڑائی نہیں ہوئی۔
مشرقی کمان کے دو سینئر افسران 10 نومبر کو کانفرنس کے لئے جنرل ہیڈکوارٹر
اسلام آباد آئے لیکن وہاں کوئی معنی خیز گفتگو نہ ہوئی۔ وہ اپنی عید کی
چھٹیاں بیس اکیس نومبر کو مغربی پاکستان میں اپنے گھروں میں گزارنا چاہتے
تھے لیکن انہیں ’’معتبر ذرائع کی اطلاع‘‘ پر فوراً مشرقی پاکستان بھیج دیا
گیا جو 14 نومبر کو موصول ہوئی کہ بھارت 20 نومبر کو مشرقی پاکستان پر
بھرپور حملہ کرنے والا ہے۔
مغربی پاکستان کی سرحد پر بعض مقامات پر خصوصاً سندھ کے لوگ اس بارے میں
جانتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں اس علاقے میں تجارت اور دوسری تجارتی
سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی تھیں‘ اس وقت تک مشرقی کمان کو ہدایات نہیں دی
گئی تھیں کہ وہ اپنے دفاع پر آ جائیں اور کسی اپنے علاقے کو دشمن کے قبضہ
سے روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں۔ سیکرٹری خارجہ اور مشیر دفاع جو حکومت
کے اہم ترین رکن متصور ہوتے ہیں‘ نے جنگ کے دائرہ کو مغربی محاذ میں آگے
بڑھانے کا منصوبہ اپنی بیویوں سے سنا جس پر انہیں یقین نہ آیا۔ کمانڈر
انچیف بحریہ سے نہ کبھی مشورہ لیا گیا اور نہ ہی منصوبہ بندی میں شریک کیا
گیا۔
بحری ہیڈکوارٹر کو جنگ بندی کے مذاکرات سے قطعی لاعلم رکھا گیا جو مشرقی
کمان اور بھارت میں ہو رہے تھے۔ کمانڈر انچیف بحریہ کو اس وقت پتہ چلا جب
16 دسمبر کی صبح کو فلیگ افسر کمانڈنگ مشرقی پاکستان سے ہدایات طلب کی
تھیں۔
کراچی کی فضائیہ نے بحریہ کی اس درخواست پر کوئی کارروائی نہ کی کہ وہ
بھارتی میزائل کشتیوں کے حملے کے سلسلے میں ان کی مدد کریں جنہوں نے کراچی
پر حملہ کر دیا تھا۔ کمانڈر انچیف بحریہ نے کمانڈر انچیف فضائیہ کو فون کیا
اور اسے جگایا۔ ہر قسم کے دلائل کے جواب میں اسے کہا گیا ’’کوئی بات نہیں‘
بوڑھے آدمی جنگ میں یہ ہوتا ہی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہارے جہاز غرق ہو
گئے‘ ہم آئندہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرینگے۔‘‘
ایک سازش کے نتیجے میں جب ڈھاکہ میں پاکستان کا سورج کبھی نہ طلوع ہونے کے
لئے غروب ہوا تو پاکستانی فوج کو کلکتہ کی طرف بھاری فوجی گاڑیوں میں منتقل
کیا جا رہا تھا۔
وطن واپس آنے پر مسٹر بھٹو نے ہتھیار ڈالنے کی تقریب فلم ٹیلی ویژن پر
دکھانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن پر فلم چلائے جانے کا یہ پہلا
موقع تھا۔ 1972ء کے اوائل ہی میں اس فلم کے کچھ حصے ٹیلی ویژن پر چلا ئے
گئے جس پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ مسٹر بھٹو کے وزیراطلاعات نے ان تنقید
کرنے والوں کو شترمرغ قرار دیا اور کہا کہ کوئی وجہ نہیں کہ حقائق کو
منظرعام پر نہ لایا جائے۔ یہ بالکل صحیح ہے اور مزید صحیح ہو گا کہ اگر اس
سازش کو بھی منظرعام پر لایا جائے جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اور
غیرضروری ہتھیار ڈالنے کی محرک بنی۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب مسٹر بھٹو
پر مقدمہ چلایا جائے جو قوموں کی تاریخ میں سب سے مکار ویلن کے طور پر
سامنے آئے ہیں۔
متذکرہ حقیقتوں کا سلسلہ ثابت کرتا ہے کہ ڈھاکہ میں فوج کا ہتھیار ڈالنا
اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا منصوبہ درحقیقت مسٹر بھٹو نے بنایا تھا
اور ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب اس نے خودغرض بن کر اپنے ذاتی مقاصد کے لئے
مادرِ وطن کے خلاف کیا۔ (بشکریہ: ہفت روزہ صحافت‘ 14 دسمبر تا 21 دسمبر
1977ء) |