نیت کے ثمرات

’’خبردار…دین فطرت اِسلام کی حفاظتی دیوار ناقابل شکست اور اس کا دروازہ بڑا مضبوط ہے۔ عدل اسلام کی دیوار اور حق اس کی دہلیز ہے۔ جب یہ دیوارمنہدم ہو جائے گی اور دروازہ ٹوٹ جائے گا تو اسلام مفتوح ہوجائے گا، اسلام اس وقت تک ناقابل شکست رہے گا جب تک حکمران مضبوط رہے گا۔ اور حکمران کی مضبوطی تلوار چلا کر لوگوں کو قتل کرنے اور کوڑے لگا کر اْن کو سزا دینے سے قائم نہیں ہوتی یہ کام لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور عدل کے ساتھ مواخذہ کرنے سے ہوگا!!‘‘ یہ ہیں الفاظ حمص کے گورنر حضرت عمیر بن سعد الانصاری ؓ کے جو وہ بر سر منبر کہا کرتے تھے ،حضرت عمرؓ جب بھی کوئی عامل مقرر کرتے تو کافی سوچ و بچار ،غورو خوض اور مجلس شوریٰ سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرتے اور اپنے یہ مشہور الفاظ کسی بھی موقع پر دہرانا نہ بھولتے تھے کہ:’’میں ایسا آدمی منتخب کرنا چاہتا ہوں کہ جب وہ اپنی قوم کے درمیان ہو اور ان کا امیر نہ ہو لیکن لگتا امیر ہو۔میں ایسا گورنر چاہتا ہوں جو اپنے آپ کو لباس میں، نہ کھانے میں اور نہ رہائش میں لوگوں سے ممتاز سمجھے۔وہ ان کے درمیان نماز قائم کرائے، ان کے حق انہیں دلائے، عدل کے ساتھ ان کے درمیان فیصلے کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے سے اپنا دروازہ بند نہ کرے۔‘‘اس کسوٹی کے ذریعہ ایک روز حضرت عمرؓ نے حضرت عمیر بن سعد اانصاریؓ کو حمص کا گورنر مقرر کردیا۔جب حمص میں منصب امارت کی انجام دہی میں انھیں ایک سال گزرگیا اور ان کی کوئی خبر نہ آئی تو حضرت عمر ؓ نے قاصد بھیجا اور لکھا "جیسے ہی تمہیں میرا خط ملے فوراً میرے پاس چلے آؤ، مال غنیمت اور خراج وغیرہ ساتھ لیتے آنا "، حضرت عمیر ؓ کو خلیفہ ثانی کا قاصد ملاتو آپ نے زاد راہ میں ایک پیالہ اورپانی کا برتن لیا اور ہاتھ میں لاٹھی لے کر پیدل چلتے ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچے ، حضرت عمرؓ نے مال غنیمت اور خراج کے بارے میں استفسار کیا تو حضرت عمیر ؓنے کہا کہ میں نے کچھ بھی جمع نہیں کیا جو مال ملا حمص میں ہی لگا دیا ، حضرت عمر ؓ نے انہیں دوبارہ گورنر تعینات کرنے کا عندیہ دیا تو آپ نے انکار کر دیا اور اسی زاد راہ کے ساتھ گھر کی راہ لی جو مدینہ منورہ سے کافی دور تھا ، اب مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ نے حارث نامی ایک شخص کو بلایا اور اس کو ایک سو دینا ر دے کر کہا کہ جا کر حضرت عمیر بن سعد الانصاری کے گھر میں مہمان بن کر رہو اور اگر وہاں دولت کے آثار دیکھو تو واپس آجانا اور اگر فقر و فاقہ کی حالت میں پاؤ تو یہ دینا ر ان کو دے دینا ، وہ شخص وہاں تین دن رہا لیکن گھر میں فقر و فاقہ دیکھ کر ان کو وہ دینار دیئے اور رخصت ہو گیا ، اب حمص کے سابق گورنر کی سخاوت دیکھیں انہوں نے وہ تمام دینار اپنے کرتے میں رکھے اور تمام دینار شہداء کے خاندان ، فقراء اور مساکین میں تقسیم کر کے گھر واپس آ گئے ، قاصد واپس مدینہ پہنچا تو تو مکمل صورت حال بیان نہ کی جس کی وجہ سے حضرت عمر نے دوبارہ حضرت عمیر ؓ کو بلا بھیجا اور فرمایا "میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ مجھے بتاؤ تم نے وہ دینار کہاں خرچ کئے ؟ـ "تو جواب ملا " میں نے وہ دینا ر اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لئے ہیں ، یہ سننا تھا کہ امیر المومنین انہیں دعائیں دینے لگے ، لیکن کچھ دنوں بعد جب حضرت عمیر کے وصال کی خبر فاتح اعظم کو ملی تو ارشاد فرمایا "میری خواہش ہے کہ مجھے حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ مل جائیں جنہیں میں گورنر بناؤں اور مسلمانوں کے کاموں کا والی بناد وں "اسی واقعہ کے تناظر میں میری آنکھوں کے سامنے موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان( جس کو مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست بنانے کا خواب موجودہ وزیر اعظم پاکستان نے دیکھا ہے) کے عمّال اور افسران کے علاوہ حکمرانوں کی کار کردگی کا نقشہ پھرنے لگا ، تجوریاں بھر گئیں ، نیت نہ بھری ، روپے، ڈالر اور یورو سے بھری بڑی بڑی لانچیں ، بیرون ملک پر تعیش فلیٹس ، اربوں کی جائیدادیں اور پھر چشم فلک نے ایک عجیب نظارہ دیکھا !!!، جیل کی بڑی بڑی دیواریں ، قید و بند کی صعوبت سے لٹکا ، حزن و ملال سے بھر پور چہرہ اور بیوی کی وفات پہ یاس سے پرمژدہ کندھے ، پھر چاہے مادر جمہوریت تھی یا شہید جمہوریت دونوں کودو گز زمین میں ہی دفنایا گیا ، نہ کوئی مال ساتھ دفن ہوا نہ کوئی خادم اور نہ سیکرٹری، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ !

آج ایک بار پھرموجودہ حکومتی پارٹی کے سیاسی روح رواں جناب عمران خان تاریخ کے دھارے کا رخ مدینہ جیسی اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں تو ان کو نکولو میکاولی کی "دی پرنس" کی بجائے اسلامی ریاست کے اصولوں کا مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ بل گیٹس جیسے ایک سرمایہ دارکی پیروی کی جائے جو ساؤ تھ افریقہ کے جنگلیوں کو مرغیاں دے کر انقلاب لانے کی بات کرتا ہے ، آپ نے الو اور طوطوں کی جوڑی کا واقعی تو سنا ہو گا کہ کسی بھی ریاست میں ویرانی اور تباہی اس وقت آتی ہے جب وہاں سے انصاف اٹھ جائے اور ایسی حکومت جس کا نام ہی انصاف پر رکھا گیا ہو اور جس کا منشور بھی انصاف ہو اس کو سب سے پہلے زمینی حقائق کے مطابق کام کرنا ہو گا، میں نے اپنے ایک سابقہ کالم میں موجودہ حکومت کے ابتدائی دور میں تحریر کئے گئے ایک کالم میں خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ حکومت کو ایک چو مکھی لڑنی ہو گی جس میں سب سے اہم کردار افسر شاہی یعنی بیوروکریسی کا ہو گا ، کیونکہ میرے خیال میں وزراء کی بجائے اگر عمّال یعنی افسران اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی بہتر انداز میں سر انجام دیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ گڈ گورننس نہ ہو اور ملک میں بد امنی اور نا انصافی کا دور دورہ ہو۔ کہتے ہیں کہ صدام حسین نے اپنے ایک فوجی کاظم سے پوچھا کہ یہ بتاؤ اگر تمھارے دائیں بائیں دونوں طرف دشمن ہو تو تم پہلے کس کو مارو گے تو اس نے کہا کہ میں پہلے دائیں والے کو اور پھر بائیں والے کو ماروں گا ، صدام حسین نے خوش ہو کر کہا شاباش کاظم! اب بتاؤ اگر دائیں بائیں دشمن ہو اور آگے پیچھے بھی دشمن ہو تو تم کیا کروگے تو وہ بولا پہلے دائیں والے کو پھر سامنے والے اور بائیں طرف والے دشمن کو اور آخر میں پیچھے والے کو ماردوں گا تو صدر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا اگر دائیں بائیں ،آگے پیچھے اور تمھارے اوپر بھی دشمن ہو تو بتاؤ تم کیا کروگے تو کاظم تعظیمی انداز میں جھکا اور بولا "جناب والا! ایک بات تو بتائیں کہ کیا کاظم اکیلا ہی جنگ لڑ رہا ہے !!!! موجودہ صورت حال اور وزراء کی پوری کابینہ بلکہ فوج ظفر موج کو دیکھ کر ایسے ہی لگ رہا ہے کہ ہمارے محترم وزیر اعظم اکیلے ہی تحریک انصاف کے منشور کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کو سب سے زیادہ نقصان ان کے حلیف ہی پہنچا رہے ہیں کیونکہ اگر موجودہ سیاسی تناظر کا بغور جائزہ لیا جائے تو عوام کو جو امیدیں تحریک انصاف کی حکومت سے تھیں وہ اب بھی قائم ہیں جس کی وجہ سے اکثر تجزیہ نگار اور سرکردہ مفکر ابھی تک حکومتی ایوانوں کا ساتھ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن میرے ایک دوست نے ایک نجی محفل میں بہت اچھی بات کی تھی کہ موجودہ حکومت کو اس وقت کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ خود ہی حزب اقتدار ہے اور خود ہی حزب اختلاف ، لیکن میری سوچ کے مطابق موجودہ حالات میں سیاسی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کو اعتما د میں نہیں لیا جا رہا کیونکہ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جب بھی کسی افسر کا تبادلہ کیا جاتا ہے ، اس سے پہلے کہ متعلقہ ضلع یا تحصیل میں اس کے گھر کا سامان پہنچے اس کا وہاں سے تبادلہ کر دیا جا تا ہے اور اس اکھاڑ پچھاڑ سے ہر شخص واقف ہے جس کی وجہ سے DGMگروپ میں نہ صرف بد دلی پھیلی ہوئی ہے بلکہ وہ اندرون خانہ کوشش یہ کرتا ہے کہ صرف عزت و عافیت سے وقت گزرتا رہے، بات صرف چھوٹے چھوٹے افسران تک محدود رہتی تو خیر تھی لیکن یہاں تو معاملات ڈی پی او ، آر پی او سے ہوتی ہوئے آئی جی لیول کے آفیسر تک پہنچی ہوئی ہے ۔بیوروکریسی یعنی افسر شاہی گو سابقہ حکومت نواز افسران سے بھری ہوئی ہے لیکن اپنے شعبے سے مخلص، محنتی اور ایماندار افسران بھی موجود ہیں جن کو کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے سے باقی تمام افسران کا احتساب کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی بھی منتظم ہو اس کو باخبر رہنے کے لئے اپنے بہی خواہوں کی مدد سے ایک جاسوسی کا نظام قائم کرنا ہوتا ہوتا ہے اور وہی دوست اور بہی خواہ ہی اس کے کان اور آنکھ ہوتے ہیں لیکن موجودہ وزیر اعظم کی تمام تقاریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کو اکثر خبریں بعد میں الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کے ذریعے علم میں آتی ہیں جو کہ ایک لطیفے سے کم نہیں، میں نے سنا ہے کہ ایک سابقہ سیاستدان شام کو اپنے ضلع کے ہر ڈی سی سے براہ راست رپورٹ لیتے تھے اور اس کو احکام دیتے یہاں تک کہ اپنے قریبی ساتھیوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے تھے ( شاید اس میں ان کی کامیابی کار از ہو)۔ وی آئی پی پروٹوکول کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے تو آہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں لیکن سادگی اور کرپشن کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کی سعی مسلسل کی جا رہی ہے ، حضرت عمر ؓکی مثالیں دینے والی حکومت کے اقدامات کو اگر غور سے دیکھا جائے تو تمام اقدامات خلیفہ راشد کے دور سے مماثل ہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ بھی کسی بھی حاکم کو مقر ر کرنے سے پہلے اس سے پانچ باتوں کا حلف لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا ( وی آئی پی پروٹوکول کا خاتمہ ) ، باریک کپڑا نہیں پہنے گا ( محفل میں ممتاز نظر نہیں آئے گا) ، چھنا ہو ا آٹا نہیں کھائے گا ( غربت اور عسرت کو نہیں بھولے گا) اپنے دروازے پر دربان یا چوکیدار نہیں رکھے گا اور اس کا دروزہ ضرورت مندوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہے گا ۔ اس کے علاوہ ہر عامل کے مال و اسباب کی فہرست بنا لی جاتی تھی اور اگر کبھی کسی عہدیدار کے مال و اسباب میں ترقی ہو جاتی تو اس سے جواب طلب کیا جاتا تھا کہ آمدنی سے اثاثے کیسے زیادہ ہو گئے ۔ ہٹلر ، چرچل اور بل گیٹس کی مثالیں دینے والوں کے لئے عرض ہے کہ اگر ایک نظر صحابہ کرام ؓ اور خلفائے راشدین کی حیات مبارکہ پر ڈال لیں تو محفل میں مثال دینے کے لئے ہمیں مغرب کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ اگر ہمارے وزیر اعظم عمران خان صرف احتساب کا عمل شفاف اور تیز کر دیں تو چیخیں صرف اغیارکی نہیں ، کچھ اپنوں کی بھی سنائی دیں گی جو بغل بچہ بن کر بیٹھے ہیں ۔
؂ ہاں! دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

صرف مرغیاں پالنے یا کٹے جوان کرنے جیسی مثالوں سے تو اس ملک کا بچہ بچہ واقف ہے ، ہم اکثر دیہاتی لوگ اپنے گھروں میں مرغیاں بھی پالتے ہیں لیکن کٹے نہیں پال سکتے کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ ناکارہ اور نااہل کا کمیو نٹی میں کوئی سٹیٹس نہیں ہوتا جیسے کہ شہد کی مکھیاں اپنے نروں کو اس وقت مار دیتی ہیں جب ان سے بارآوری کا کام لے لیا جاتا ہے ، ڈیری کی صنعت گو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ عروج پر ہے اور اس کا شمار کمرشل فارمنگ میں ہوتا ہے لیکن بڑے پیمانے پر مرغیاں یا کٹے پالنے کے لئے سرمائے کا ہونا بہت اہم ہے اور ایک ایسا ملک جس کی 33فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو اس کے پاس سرمایہ کہاں سے آئے گا، دیکھا یہ گیا ہے کہ تقسیم پاکستان سے لے کر اب تک اس قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے لیکن موجودہ حکومت نے تو مذاق کی حد ہی کر دی ہے ، ہر روز نئے شگوفے ، نئے لطیفے سن سن کر پوری قوم الیکٹرانک میڈیا چینلز کے تفریحی پروگرام بھول چکی ہے اور جیسے ہی نئے دن کا سورج طلوع ہوتا ہے حزب اختلاف کے جیالے وزیر اعظم عمران خان کے کسی بیان میں کوئی نہ کوئی نیا لطیفہ ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتیہ حواری بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت اس لطیفہ کا دفاع کرنے کے لئے کمر کس کر میدان میں ااتر آتے ہیں ، میں چونکہ تعلیم سے متعلقہ بندہ ہوں ت مجھے موجودہ صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کی ایک پریس کانفرنس ابھی تک یا د ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایک سکول کو 25ہزار رواپے فی طالب علم ماہانہ بھی ادا کرتی رہی ہے اور میں بھی اس سکول کو ڈھونڈتا ہوں اور آپ صحافی چونکہ معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں آپ بھی وہ سکول تلاش کریں تو مجھے اس بیان کو سن کر بہت ہنسی آئی کہ جب کوئی ثبوت ہی نہیں تھا تو ایسا بیان کیوں داغ دیا گیا جس کا کوئی سرے سے سر پیر ہی نظر نہیں آرہا ، گو سابقہ حکومتوں نے بھی اس طرح کے وزراء پالے ہیں جن کے بیانات آج تک زبان زد عام ہیں لیکن اس طرح کے بے تکے بیانات کا بہت شد و مد سے دفاع کرنا چہ معنی دارد۔ ڈاکٹر عاصم ہو یا فواد حسین فواد یا پھر احد چیمہ ان کا سرپرست چاہے کوئی ایک ہو یا بہت سے اشخاص ہوں تو کیا وہ دودھ پیتے بچے تھے جو ان کو استعمال کیا گیا ، کیا ان کو اپنی آخرت کی فکر نہیں ہے۔یہ افسران ہی ہیں جنہوں نے اس ملک کو حالت تبدیل کرنی تھی کیونکہ سیاست کے کچھ فرعون تو نسل در نسل اس ملک کوگھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھینکنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے ہیں ۔انسان کے معاملات میں نیت کے اثرات اورثمرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

Muhammad Altaf Shahid
About the Author: Muhammad Altaf Shahid Read More Articles by Muhammad Altaf Shahid: 27 Articles with 20839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.