حکومت کیا کرنا چاہتی ہے ؟

نئی حکو مت کے وزیر اعظم عمران خان منتخب ہو نے سے قبل جلسوں میں یہ بو لتے آ رہے ہیں کہ ’’ ہم غریب لو گوں کے حالات بد لیں گے۔ ۔ایک آدمی علاج کر نے کیلئے لندن جا تا ہے تو دوسرے کو اپنے ملک میں علاج کی سہولت نہیں، ہم اب ایسا نہیں ہو نے دیں گے ‘‘ ۔ یہ تقریرتو حقایق کی بنیاد پر درست ہے مگر جو کچھ ا ب وہ کر رہی ہے گذشتہ 71سال میں نہیں ہوا۔1300در آ مدی اشیاء پر ٹیکس لگا کر آ ٹا سمیت اور بیکری کی اشیاء خور دنی سمیت کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مہنگا ئی میں مذید اضافہ کر دیا ہے ۔ درحقیقت حقیقی تنخواہ میں اضافہ کر نے کی بجا ئے کمی ہو جا یگی ۔ ڈھا کہ کا مل مل کے کپڑے کی طلب بر طا نیہ میں بڑھنے سے انگریز استعمار نے سو فیصد ڈیو ٹی لگا دی تھی، مذید طلب بڑھنے سے دو سو اور بڑھتے بڑھتے پانچ سو فیصد تک بڑھادی تھی۔ پھر بھی جب طلب با قی رہی تو بر طا نیہ نے ہندوستان سے مل مل کے کپڑے کی درآمد پر پا بندی لگا دی ۔ اب ہماری حکومت نے در آمدی اشیاء پر ٹیکس لگا نے کے بہا نے عوام کے سر پر مہنگا ئی کا بم گرا دیا ۔ ہو نا تو یہ چا ہئے تھا کہ وہ ساری در آمداد جو غیر پیداواری اشیاء ہیں ان پر در آمد کی پا بندی لگا تے ۔ دودھ مکھن اور اشیاء خورد و نوش کی پیداوار میں ہم خود اضافہ کریں اور غیر پیداواری اشیاء کی در آمد پر پا بندی لگا دیں ۔ اگر قیمتی گا ڑیاں ، قیمتی ٹی وی ، کا سمیٹک اور اسلحہ کی در آ مد پر پا بندی لگا دیں تو اربوں ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے ۔ آج ہماری مار کیٹ چینی اشیاء سے بھری پڑیں ہیں جبکہ ہمارے اپنے کار خا نے بند ہو تے جا رہے ہیں ۔ غیر ملکی کمپنیاں سپر مارکیٹ قایم کر کے ہمارے اپنے چھوٹے چھوٹے دکان دار وں کو بے روزگار کر رہے ہیں ۔ بسیں سڑکوں سے غائب ہو رہی ہیں اور کا روں کی بھر مار ہے جبکہ یہ رقوم غیر ملکوں میں منتقل ہو رہے ہیں ۔ دوسرا کار نا مہ حکو مت یہ انجام دینے جا رہی ہے کہ غیرپیداواری اخراجات کو روک کر ترقیاتی منصوبوں کو بڑھا نے کی بجا ئے ترقیاتی منصوبوں کو روک رہی ہے ۔ جہاں تک ٹیکس لگا نے کی بات ہے تو ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں پر پانچ سو فیصد ٹیکس لگا نے کی ضرورت ہے اور ہمارے اپنے ملک کے سر ما یہ داروں پر ٹیکس دو گنا اور جاگیر داروں پر پیداواری ٹیکس ، دولت ٹیکس وغیرہ کے مد میں زیادہ ٹیکس عا ید کر نی چا ہئے ۔ اسکے ساتھ ساتھ سو ایکڑ سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دینی چا ہئے ۔ ہمارے ملک میں اتنی زمین ، پا نی ، معدنیات اور افرادی قوت ہے کہ ہم زرعات کی پیداوارمیں دس گنا اضافہ کر سکتے ہیں بشر طیکہ تیرہ کھرب روپے کا فوجی بجٹ کو کم کر کے سا ڑھے چھ ارب رو پے پر لا یں ۔ در آمدی اشیاء پر اس طرح سے ڈیو ٹی عاید کیا جا ئے جس میں عوام کو زیادہ قیمت میں اشیاء ضرورت خرید نا نہ پڑے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب در آمدی اشیاء پر حکو مت غیر ملکی بر آ مدپر ڈیو ٹی بڑھا دے اور ہماری مارکیٹ میں فروخت ہو نے وا لی اشیاء کی قیمتوں میں اضا فہ نہ ہو ۔ در حقیقت جب امریکی وزیر خار جہ پاکستان آ ئے تھے تو ہمارے حکمرا نوں کو دو شرایط پیش کئے تھے ، ایک افغانستان سے تعلقات بہتر کر نا اور دوسرا عوام سے ٹیکس وصول کر کے آئی ایم ایف کو قرضے اور سود ادا کر نا اور عوام کو دی گئی رعا تیں واپس لینا۔ ہما ری حکو مت نے انھیں اثبات میں جواب دیا تھا ۔ اور اب اس پر در آمدی اشیاء پر ٹیکس لگا نے کے بہا نے عوام سے با الواسطہ ٹیکس وصول کئے جا ئینگے اور عوام کو دی گئی سبسیڈیز بھی واپس لی جا ئینگی ۔ اسی وعدے پر امریکی وزیر خارجہ پو مپیونے آ ئی ایم ایف سے پا کستان کو قر ضہ حاصل کر نے میں رو کاوٹ نہیں بنے گا ۔ سب سے زیادہ ضرورت عوام کو روٹی کی ہے ۔ اب آٹے کی قیمت بھی بڑھ جا ئے گی ۔ جبکہ ہمارے پاس تین برسوں سے 65 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ فالتو میں پڑا ہوا ہے ۔ حکو مت کو چا ہئے کہ اس گندم کو سستے دا موں میں آ ٹا پیسنے وا لی ملوں کو فراہم کرے جس میں عوام کو بھی آ ٹا سستے دا موں میں میسر ہو۔ اگر ہم تیرہ کھرب روپے دفاع پر خرچ کر سکتے ہیں ( جس سے کو ئی فا یدہ نہیں بلکہ جبری نقصان ہے)تو دال چاول اور تیل کی پیداوار پر بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ہماری ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہو ئی ہیں۔ اسے کام میں لا ئی جا سکتی ہے ۔ ان مسائل پر انقلابی شاعرساحر لدھیانوی کے الگ الگ دو اشعار پیش کر تا ہوں ۔
جنگ خود ایک مسلہء ہے ۔۔۔۔جنگ کیا مسلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج ۔۔۔۔۔۔بھوک اور احتیاج کل دے گی
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف ۔۔۔امن پر امن زندگی کے بقا کیلئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اسی لئے زمین نے اناج اگلا تھا کہ ۔۔۔اولاد آدم و حوا۔۔۔بلک بلک کے مرے
جہاں کی ملیں ریشم کی ڈھیر بنتی ہوں ۔۔۔۔وہاں کے دختران وطن تار تار کو ترسیں
 
یہ تو رہی آئی ایم ایف سے قرضے لینے سے قبل کے اقدامات ۔ اسکے بعد جب قرضہ مل جا یگا تو عوام کو حکو مت کی جا نب سے دی گئی سہولتوں کو واپس لے لیگی ۔ بات یہیں تک نہیں ر کے گی یہ عمل نجکاری تک جا یگی ۔ جب وزیر خزا نہ کے مطا بق دو سو اداروں کی نجکاری ہو گی تو کیا لا کھوں لو گوں کو روز گار ملے گا یا بے روز گارہو نگے ۔ اداروں کو جب نجی سر ما یہ داروں کے حوا لے کئے جا تے ہیں تو وہ اسے بیچ بھی سکتے ہیں ۔ اور مزدوروں کی چھانٹی بھی کریں گے ۔ را ئٹ سایزنگ اور ڈاون سایزنگ کرینگے ۔ ٹریڈ یونین پر قدغن لگا یں گے اور پیداوارکی قیمتوں میں بھی اضافہ کریں گے ۔ جیسا کہ پی ٹی سی ایل اور کے ایکٹرک کے ساتھ ہوا ۔ ہزاروں مزدوروں کی چھانٹی کی گئی ،بجلی کی نرخوں میں اضافہ کیا گیا اور لوڈ شیڈ نگ بڑ ھا دی گئی ۔گھی، سیمنٹ ، تیل اور چینی کی جب نجکاری ہو ئی تو انکی قیمتوں میں سو اور دو سو گنا اضافہ ہوا اور لاکھوں مزدور ملا زمت سے نکا لے گئے ۔ نجکاری سے قبل حکو متیں یہ کہہ رہی تھیں کہ کے ایلکٹرک اور پی ٹی سی ایل سے ملا زمین کو فارغ نہیں کیا جا ے گا ۔ جبکہ نجکا ری کے فورا بعد دو نوں اداروں سے ساٹھ ہزار ملا زمین کو ملا زمت سے بر طرف کیا گیا ۔ یہ ہے سچا ئی ۔ اب موجودہ حکومت بتا ے کہ وہ خود مختار اقتصادیات کو فروغ دیگی یا سامراجی اداروں آ ئی ایم ایف کے احکا مات کی بجاوری کریگی ۔ ہمارے ملک کو جاگیر داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے چھٹکاراہ حاصل کئے بغیر کو ئی بھلا ئی عوام کیلئے نہیں کی جا سکتی ہے ۔ ہر چند کہ مسا ئل کا مکمل حل ایک امداد باہمی یا پنچا ئیتی سماج کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ۔ جب سارے ذرایع آمدنی کے مالک سا رے لوگ ہونگے تب ہی یہ دھرتی ہماری ہو گی ور نہ اسکی تمام تر پیداوار کے ما لک دس فیصد سر ما یہ دار اور جا گیر دار ہونگے۔ دس فیصد لو گوں کی ملکیت کو عوام کی ملکیت میں تبدیل کر نے کیلئے ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جہاں ساری دو لت کے مالک سارے لوگ ہوں ۔

Rosa Nuzhat
About the Author: Rosa Nuzhat Read More Articles by Rosa Nuzhat: 3 Articles with 2807 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.