تحریر ۔۔۔علی رضا رانا
نصاب سے مراد وہ تمام مواد ہے جو کتابون، ورک بک کی صورت میں کسی بھی سکول
میں پڑھایا جاتا ہے یعنی وہ تمام علم جو کسی نہ کسی صورت ایک نسل سے دوسری
نسل میں منتقل کیا جائے پوری دنیا میں نصاب تعلیم مخصوص ملک کی روایات،
مذہب، معاشرت اور طرز بو دو باش کے مطابق ترتیب دی جاتا ہے اور اس کاخاص
طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ نصاب کا کوئی بھی حصہ مذہب یا روایات کے منافی
یا متصادم نہ ہو ایک معیاری نصاب تعلیم نہ صرف کسی قو م کے ورثہ کو نسل در
نسل منتقلی کا ذریعہ ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں نصاب تعلیم قوم کی بنیاد ہے
معیاری نصاب تعلیم قوم کی بقاء کی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ ایک معیاری نصاب
کے ذریعے ہی ملکی روایات، تاریخ اورمذہبی تعلیمات اگلی نسل تک پوری ذمہ
داری کے ساتھ منتقل کی جا سکتی ہیں ۔ اس کے بر عکس اگر نصاب تعلیم معاشرتی
روایات، اور مذہب سے متصادم ہو تو طلب علموں کے ذہن ابہام کا شکار ہو جاتے
ہیں کیونکہ جب وہ اپنے علم کے مطابق عملی زندگی میں عمل پیرا ہوتے ہیں اور
وہ موجودہ معاشرت سے متصادم ہونے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں نصاب جیسی بنیادی اکائی پر کوئی
توجہ نہیں دی گئی۔ اسے اہمیت دینا تو درکنار اس موضوع پر اس حد تک بات بھی
نہیں کی گئی جس حد تک اس معاملہ کی اہمیت ہے ہمارے ملک میں نہ تو نصاب و ضع
کرنے کے لیے کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون موجود ہے جو نصاب میں
ہونے والی بے قاعدگیوں کو روکنے ، یا نصاب میں مذہب سے متصادم مواد کو شامل
کرنے پر کوئی سزا متعین کر سکے یہی وجہ ہے کہ نصاب میں کوئی بھی کسی بھی
قسم کا ردو بدل بلا روک ٹوک کر سکتا ہے چاہے وہ وزیر تعلیم ہو یا پرائیویٹ
اسکول کا مالک اس کے لیے نصاب میں تبدیلی یا کوئی بھی مواد شامل کرنے کے
لیے نہ تو کسی ادارے کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کے سامنے
جوابدہ ہے۔ہمارے ملک میں بیک وقت کئی طرح کے نصاب تعلیم رائج ہیں جن میں سے
زیادہ تر اسکولوں میں چار طرح کے نصاب پڑھائے جارہے ہیں ۔ اس تمام اقسام کے
نصاب تعلیم میں زیادہ اہم نصاب مندرجہ ذیل ہیں پہلا اور سب سے زیادہ
اسکولوں میں رائج نصاب مغربی طرز کا ہے۔ اس نصاب میں ایک مضمون اسلامیات ،
مطالعہ پاکستان اور ایک مضمون اردو کا رکھاگیا ہے۔ ان مضامین میں بھی
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان انگریزی زبان میں پڑھایا جارہا ہے۔ زیادہ تر
پرائیویٹ اسکولوں میں رائج ہے۔ اور یہ نصاب میں ہر اسکول میں رائج ہے۔اور
اس نصاب میں ہر اسکول میں مختلف ناشران کی شائع کتب پڑھائیے جانے کا معیار
ان کتب میں معیاری علمی مواد ہونے کی بجائے اسکول مالکان کی پسند نا پسند
کا عمل زیادہ ہے۔ تقریبا ہر اسکول کا نصاب دوسرے اسکول کے نصاب سے یکسر
مختلف ہے۔
دوسرا نصاب تعلیم وہ ہے جوکہ سرکاری اور نیم سرکاری سکولوں میں رائج ہے اس
کی بھی دو شاخیں ہیں ایک انگریزی جبکہ دوسرا اردو۔ اردو میڈیم اسکولوں میں
تقریبا تمام کتب اردو جبکہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں بعض کتب اورجبکہ بعض
کتب انگریزی میں پڑھائے جارہی ہیں ۔ تاہم سن 2008ء میں سرکاری اسکولوں سے
انگریزی اور میڈیم کے نصاب کے فرق کوختم کیا گیا اور صوبائی اسکولوں میں
یکساں نصاب کی تعلیم دی جانے لگی۔ گورنمنٹ (صوبوں کے زیر نگرانی کام کرنے
والے) اسکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ شائع کرتا
ہے ملک کے ہر صوبے کا اپنا ایک الگ تعلیمی بورڈ ہے جس کا اپنا الگ نصاب ہے۔
جبکہ وفاق کے زیرِ نگرانی چلائے جانے والے اسکولوں میں وفاقی ٹیکسٹ بک بورڈ
کی کتب پڑھائی جارہی ہیں ۔ یہ نصاب عرصہ ء دراز سے بنا کسی ردو بدل یا وقت
کے ساتھ ساتھ کسی اضافہ یا کمی کے پڑھایا جا رہا ہے۔ وفاق کے زیر نگرانی
کام کرنے والے اسکولوں میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے بالکل اسی طرح فوج کے
زیرِ نگرانی کام کرنے والے اسکول پورے ملک میں کام کررہے ہیں اور پورے ملک
میں اے پی ایس اسکولوں کا نصاب ایک ہے۔
تیسرا بڑانصاب تعلیم کیمبریج سسٹم ہے۔ اس سسٹم کے تحت اے او لیول کے
امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس طرز تعلیم میں تمام کتب غیر سرکاری
اور غیر ملکی نصاب پر مبنی ہیں ۔ اس سسٹم میں اسلامیا ت، اسلامی تاریخ ،
مطالعہ ء پاکستان کا مضمون بعض اداروں میں نہ ہونے کے برابر اور بعض اداروں
میں سرے سے ہے ہی نہیں۔چوتھا نصاب تعلیم وہ ہے جو کہ مکمل طور پر صرف اور
صرف مذہبی تعلیم پر مبنی ہے۔ اس نصاب تعلیم میں فقہ، حدیث م نحو و تجوید
پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرز کے نصاب میں دنیاوی تعلیم کا عمل دخل نہایت غیر
مناسب حد تک کم ہے ۔ یہ نصاب تعلیم زیادہ تر مدرسہ جات میں رائج ہے 2008ء
میں پہلی بار وفاق المدارس کا قیام عمل میں لایا گیا اور تمام مدرسوں کو اس
ادارے کے تحت اپنا نصاب و ضع کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ اس سے پہلے نہ تو ان
مدرسوں میں دنیاوی کوئی مضمون پڑھایا جاتا تھا اور نہ ہی ان مدرسوں کی
ڈگریوں کی کوئی حیثیت تھی وفاق المدارس کے قیام کے بعد ملک میں وفاق اور
صوبوں کی سطح پر مدرسوں کے نصاب میں بعض مضامین شامل کئے گئے ۔ تاہم ابھی
بھی بعض ایسے مدرسہ جات ملک میں موجود ہیں جو کہ وفاق المدارس سے الگ اپنا
کام کر رہے ہیں ۔
مذکورہ بالا تمام نصاب کو بچپن میں جو پڑھایا جاتا ہے وہ پوری زندگی کے لیے
اس کی عادات، سوچ کا حصہ بن جاتا ہے۔۔مغربی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم
، مدرسے سے علم حاصل کرنے ولاے کو کافر گرداننے لگتا ہے۔ اس طرح ایک ہی ملک
میں بسنے والے بچوں کے درمیان آپس میں چپقلش اور نفرت جنم لینے لگتی ہے جو
کہ بعد ازاں معاشرے میں نفاق کا سبب بنتی ہے۔
ہمارا معاشرہ جن حالات سے گزر رہا ہے انہیں سدھارنے کے لیے وقت کا تقاضاہے
کہ ملک میں اتفاق و اتحاد کے فرق اور ایک مضبوط قوم کی تعمیر کی خاطر وفاق
پورے ملک کے اسکولوں (چاہے وہ گونمنٹ ہوں، پرائیویٹ یو کوئی مدرسہ) میں
رائج نصاب تعلیم کی ذمہ داری لے۔ نصاب تعلیم بنانے کے لیے پہلے سے موجود
اداروں سے کام لیا جائے اور یہ ذمہ داری HECکے سپرد کر دی جائے۔ اسی ادارے
کے تحت ملک کے اسکولوں ، مدرسوں کے لیے یکساں نصاب وضع کرے۔ نصاب بنانے
والے افراد کا چناؤ سیاسی و ابسطگیوں کی بجائے علم، تجربے، مذہب اور حب
الوطنی کی بنیاد پر کیا جائے تاکہ جو نصاب وضع ہو وہ ملکی روایات، تاریخ ،
مذہب، معاشرت کا امیں ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے قابلِ
قبول ہو یہ کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں قابل افراد کی کمی
نہیں ہے اس ارض وطن میں علماء ، بہترین سائنس دان جن میں ڈاکٹر عطا ء
الرحمٰن ، ڈاکٹر ثمر مند مبارک، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، مولانا تقی عثمانی،
ڈاکٹر طارق جمیل، علی معین نوازش، جیسے افراد موجود ہیں جو معیاری نصاب
تعلیم و ضع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔نصاب تعلیم و ضع کرنے کے ساتھ
ساتھ یہی HECسب اسکولوں کے نصا ب میں ردو بدل، یا کسی بھی مواد کے اضافے کے
لیے ذمہ داری ہو کے ساتھ ساتھ اس نصاب کے نفاذ کا ذمہ دار بھی ہو۔ اس ذمہ
داری کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیےHECکو مضبوط کرنے اور اس ادارے کے
اختیارات میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نصاب اور تعلیم کے معاملے میں
قانون سازی بھی نہایت ضروری ہے۔ تاکہ کوئی ایسا قانون ملک میں موجود ہو جس
کے تحت نصاب تعلیم میں موجود بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں پر سزا کا تعین
کیا جا سکے تاکہ ایسا کوئی بھی موادنصاب تعلیم میں شامل کرنے سے روکا جا
سکے جو کہ ملکی روایات اور دینِ اسلام کے منافی یا متصادم ہو۔ |