اردوزبان میں ادبی معرکوں کابہت بڑاذخیرہ موجودہے۔اس
امرمیں کوئی شک نہیں کہ ان معرکوں سے فریقین کے فن اورشخصیت کااسفل ترین
حصہ معرض وجودمیں آیاہے ، مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ وہ ذخیرہ ہے جس کے
وسیلے سے ادب اورادیب کی بہت سی پرتیں کھلتی ہیں اورہم اسکے مطالعے سے فن
اورشخصیت کے امتزاج کی اس شاہراہ پر پہنچ جاتے ہیں ، جہاں سے ادبی نظریات
کی نئی راہیں نظرآتی ہیں۔ شعراکے معرکوں پرایک سرسری نظرڈالنے سے معلوم
ہوتاہے کہ اصل میں موافق ومخالف فریقین کے سامنے ادب ہی وہ بنیادی
تصورتھاجوان مناقشوں میں زیربحث آیاہے۔ ان مباحثوں نے ہردورمیں فکروخیال کی
سطح پر عمل اورردعمل کے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں اوران سے نئی تحریکیں
وجودمیں آئی ہیں۔قابل غوربات یہ ہے کہ ہردورکے معرکے شخصی اورذاتی رنجشوں
کے اظہارکو چھوڑکربہ اعتبار موضوع سخن اوربہ لحاظ زمانہ ایک دوسرے سے مختلف
رہے ہیں اوراس کایہ فائدہ ضرورہواہے کہ مجموعی طورپر پورے انتقادی ادب
کامنزل بہ منزل ارتقاابھرکرسامنے آیاہے۔انشا اورمصحفی کی چپقلش پر بات کرنے
سے پہلے دونوں شاعروں کے حالات زندگی کامختصرجائزہ لیتے ہیں۔انشااﷲ خان ولد
ماشاء اﷲ خان 1752میں پیداہوئے ۔ انکی ذہانت اورجدت پسندی نے انہیں اپنے ہم
عصروں میں منفردمقام عطاکیاہے۔انشاغزل ، ریختی اور قصیدہ کے بہت بڑے
شاعرتھے اوراسکے علاوہ بے نقط مثنوی اوربے نقط دیوان کاخالق ہے۔ جب تک دہلی
میں رہے، انکی خوب پذیرائی ہوئی ۔شاہ عالم کے دربارسے وابستہ ہوئے ، جہاں
ایک طرف لطائف اورچٹکلے سناتے تھے تودوسری طرف شعروشاعری میں گل افشانی
کرکے محفل لوٹتے تھے۔ مصحفی کاپورانام غلام ہمدانی اورتخلص مصحفی تھا۔ وہ
1748میں پیداہوئے ۔بچپن اورعنفوان شباب کازمانہ دہلی میں گزارا، اس لئے
ابتدائی شاعری پر دہلی کااثرنمایاں ہے۔مصحفی کواپنی زبان اورقدرت بیان پر
بڑانازتھااورخودکو میرومرزاکے مرتبے کاشاعرسمجھتے تھے اوربعض اوقات ہجوکی
شکل میں اس حریفانہ چشمک کااظہاربھی کرتے رہے ۔انکی شاعری میں دہلی
اورلکھنو کی نمایاں خوبیاں موجودہیں۔ انہوں نے غزل ، قصیدہ ، ہجو، نعت ،
منقبت اورمثنوی لکھاہے۔جہاں تک دونوں شاعروں کی آپس کی چپقلش اورمعرکہ
آرائی کاتعلق ہے تویہ فیصلہ کرنامشکل ہے کہ اسکی ابتداء کس نے کی اورکس نے
دوسرے کے فن کی تضحیک کرتے ہوئے شخصیت پر کیچڑاچالنے میں پہل کی ، لیکن
انشاکے مزاج میں لطیفہ گوئی اورشگفتہ مزاجی حد سے زیادہ تھی اورانکے بارے
میں یہ مشہورہے کہ بہت اکھاڑے بازآدمی تھے ، نہ خودچین سے بیٹھتے تھے اورنہ
دوسروں کو بیٹھنے دیتے تھے ، اسکاثبوت دہلی میں نواب امیرالدولہ
مرزامینڈھوکے دربارمیں منعقدہ وہ مشاعرہ ہے ، جہاں عظیم بیگ نے ایک غزل
پڑھی اورغزل میں بحررجزکے ساتھ بحررمل کچھ اشعارشامل ہوئے توانشا نے فورا
خبرلی اوریہ اشعارکہے۔
گرتومشاعرے میں صباآج کل چلے کہیوں عظیم سے کہ ذراتوسنبھل چلے
اتنابھی حد سے اپنی نہ باہرنکل چلے پڑھنے کو شب جو یارغزل درغزل چلے
بحررجز میں ڈال کربحررمل چلے
چونکہ انشاکابنیادی اعتراض درست تھااورعظیم نے اسے تسلیم کرتولیالیکن یہ
توجیہہ پیش کی۔
موزونی ومعانی میں پایانہ تم نے فرق تبدیل ِ بحر سے ہوئے بحرخوشی میں غرق
روشن ہے مثل مہر بہ ازغرب تابہ شرق شہہ زوراپنے زورمیں گرتاہے مثل برق
وہ طفل کیاگرے گاجوگھٹنوں کے بل چلے
مصحفی اورانشا دونوں لکھنوگئے۔دونوں کامزاج درباری تھا۔انشا نے شجاع الدولہ
کے دربارمیں خوب اثررسوخ پیداکیا۔انکی شاعرانہ صلاحیتیں دہلی میں نمایاں
ہوچکی تھیں ، لکھنو کی رنگین فضامیں انہیں اوربھی فروغ حاصل ہوا۔ لکھنوں
میں مرزاسلیمان شکوہ کے دربار میں انشا اورمصحفی کے معرکوں کاآغازہوا۔ایک
مشاعرے میں انشا نے مصحفی کے شعرپر اعتراض کیاتوانہوں نے ترکی بہ ترکی جواب
دیا۔ چنانچہ ہاروت میں انگلی ، تابوت میں انگلی اورلنگورکی گردن ، امچورکی
گردن والی سنگلاخ غزلیں ان معرکوں کی یادگارہیں۔ یہ جھگڑا جوزبان سے شروع
ہواتھا، ہاتھاپائی تک پہنچااوردونوں استادوں کے شاگردوں نے ایک دوسرے کے
خلاف جلوس نکالے اورمظاہرے کئے ، جن میں حامیوں اورشاگردوں کے علاوہ ، عالم
لوگ ،ہاتھی اور گھوڑے بھی شامل تھے۔ محمدحسین آزدلکھتے ہیں ’’ شرم کی
آنکھیں بندہوگئیں اوربے شرمی کی زبانیں کھل گئیں‘‘۔ مصحفی کے شاگردوں نے
انشاکی شان میں ایک زوردارہجو لکھااورسارے جمع ہوکرہجویہ اشعارپڑھتے ہوئے
انشاکے مکان پرپہنچے۔انشانے قبل ازوقت امرائے شہر اوردوست احباب جمع کرکے،
مصحفی کے شاگردوں کاخوب استقبال کیااورانکے اشعارکی خوب تعریف کی۔ جواب میں
انشا نے اپنے شاگردوں اوردوستوں کوجمع کرکے ہجویہ اشعارپڑھتے ہوئے مصحفی کے
مکان پرپہنچے ۔اس معرکے میں مرزاسلیمان نے انشاکاساتھ دیااوریوں مصحفی
کوخفت اٹھاناپڑی۔لیکن دوسری طرف انشاحد سے زیادہ تمسخراورلطیفہ گوئی کے سبب
نواب سعادت علی خان کے دربارسے بے دخل کردئے گئے، جس کی وجہ سے انکی زندگی
میں زبردست انقلاب آیا۔ معاشی اورذہنی طورپر پریشانیوں سے دوچارہوئے
اورانکی شوخی اورشگفتگی حسرت ویاس میں بدل گئی اوردوسروں کے لئے عبرت
کاسامان بن گئے۔ اُدھرمصحفی کایہ حال ہواکہ غزلیں بیچ بیچ کرگزاراکرتے تھے۔
مصحفی اورانشا دونوں علم وفضل میں یکتائے زمانہ تھے لیکن حریفانہ کشمکش
اورمعاصرانہ چشمک نے جوعامیانہ اندازاختیارکیا، اس نے دونوں کو بدنام کیا۔
کاش یہ سخن گسترانہ باتیں غالب اورذوق کی سطح پر رہتیں تواردوادب کو دوعظیم
شاعرمل جاتے۔دونوں شاعر وں کی صلاحیتیں مقابلوں اورمعرکوں کی نذرہوگئیں
اوروہ اپنی راہ پرچلنے کی بجائے دوسروں کے آگے پیچھے بھاگتے رہے۔ یہ بات سچ
ہے کہ نمائشی مصنوعات کے اس بازارمیں بہت سے اہل ہنر سستے داموں بک گئے ،
ان میں مصحفی اورانشاجیسے فنکاربھی شامل ہیں۔ |