یوں تو جنگِ عظیم دوم کو گزرے ہوئے تقریباً 73 سا ل ہو
چکے ہیں، مگر اس کے آثار آج بھی دنیاکے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔آپ
یقیناً غلط سمجھ رہے ہیں، میں جاپان کی بات نہیں کر رہا، بلکہ میری مراد
’’ورلڈ وار‘‘کے اس جادو سے ہے جو آج’’'ورڈ وار‘‘کی صورت میں نوجوانوں کے دل
و دماغ پر حاوی ہے اور جس پر، بقول صرف ان کے، پوری قوم کی ترقی کا انحصار
ہے۔ طاقت کے حصول کی یہ غیر معمولی چاہت عرفِ عام میں’’جی پی ا ے‘‘ کہلاتی
ہے جبکہ مخالفین کئی دیگر خصوصیات بھی اس کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں، جن کے
مکمل ادراک کے لیے قابلِ فہم اور حالاتِ حا ضرہ سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔
لہذا آپ کامزید وقت لیے بغیر چلتے ہیں اس عمومی جنگ کے چند مخصوص نتا ئج کی
طرف، جس میں کبھی ہم بھی اپنے جوہر دکھا چکے ہیں البتہ ا ب مزید لڑنے کی
ہمت باقی نہیں رہی۔۔۔
’’جی پی اے ‘‘ہمارے تعلیمی نظام کے اعلیٰ مرحلوں میں وہ پیمانہ ہے جس سے
کسی فرد کی حسنِ کارکردگی اور اس کی دماغیِ صحت کا اندازہ لگایا جاتاہے
تاکہ مستقبل میں معاشرے میں اس کی حیثیت متعین کرنے میں آسانی رہے۔ لہذا ہم
یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی اس کو پانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک
ایسا فعل ہے جو تقریبا ہر ادارے کے طلباء میں مشترک ملتا ہے، مگر کچھ تو اس
کا واضح اعلان کرتے نظر آتے ہیں اور فہرستِ بدنام میں شامل ہو جاتے ہیں اور
کچھ چھپ چھپ کر اس نیک کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بلاشبہ بڑا نام
کماتے ہیں، مگر اکا دکا لوگ ہی انھیں شکل سے پہچانتے ہیں۔
اول الذکر اپنی سچ گوئی کے باعث ابتدائی لمحوں میں ہی اس امید، ’’کہ جب کسی
چیز کو دل سے چاہا جائے پوری کائنات اس سے ملانے کی سازش کرتی ہے۔‘‘ کے ٹوٹ
کر بکھر جانے کا نظارہ کرتے ہیں کیونکہ سازش تو ہوتی ہے مگر منا فقت بھری
۔۔۔کچھ اس طرح کہ وہ دوست جو اکھٹے جینے مرنے کی باتیں کرتے ہیں، یا تو اس
نیک خواہش کو ترک کر کے ایک ہی طرزِ زندگی اپنانے پر مجبور کرتے ہیں یاپھر
صرف امتحانات کے دنوں میں شکل دکھاکر، کھانا کھلا کر؛ تعریف میں زمین و
آسمان کے قلابے ملاکر؛ آئن سٹائن اور نیوٹن سے تشبیہ دلا کر؛ پورے سمسٹر کا
ایک ہی رات میں کام نکلوا نے کے بعداگلے امتحان تک رفو ہو جاتے ہیں۔ یہ
صورتحال مزید نا قابل برداشت تب بنتی ہے جب’’ جی پی اے‘‘ میں صرف انیس بیس
کا فرق نکلتا ہے او ر سارا سمسٹر پڑھنے والا بھائی صدمے میں ہوتا ہے کہ مجھ
سے ایک رات تیاری کر کے دوست زیادہ ’’جی پی اے‘‘ کیسے لے گیا! گویا
آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
دوسری طرف ایسے صاحبان ہیں جو اس جی پی اے کے عشق میں اس حد تک مبتلا ہوتے
ہیں کہ اردگرد سے مکمل طور پر بیگانہ ملتے ہیں، جس کے باعث نتائج آنے پر
صرف نوٹس بورڈ پر ہی ان کی زیارت ممکن ہو پاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ
وہ بنیادی ستون ہیں جن پر کسی بھی ادارے کی بنیادیں قائم ہیں۔ (لگتا ہے کچھ
زیادہ ہے کہہ دیا ہے، البتہ آپ حسبِ توفیق اس میں کمی و بیشی کر سکتے ہیں۔)
کیونکہ یہی وہ چند نگینے ہیں جو عموماً کمرہ جماعت میں بر وقت،با ملاحظہ
اور ہوشیار، پہلی نشستوں پر براجمان ملتے ہیں اور دیگر طلباء و طالبات کو
نظرِ بد سے بچاتے ہیں۔
نوٹ! یہاں لفظ’’ طالبات‘‘ کے استعمال سے کسی خاص گروہ کی دل آزاری ہرگز
مقصود نہیں۔
ویسے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان شخصیات کے اندر مخالف صنفِ نفس کے
لیے ایک عجیب طرز کی کشش بھی موجود ہوتی، جو زیادہ تر امتحانات کے دوران ہی
قائم رہ پاتی ہے اور امتحان کے خاتمے پر ان کے بہت سے سہانے خواب چکنا چور
کر دیتی ہے۔
کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
بہر حال انہی’’'بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے‘‘ کے مصداق صاحبان کی شبانہ
روز محنت اور دل لگی کے باعث ہمیں گزرتے وقت کے ساتھ کئی شعبوں میں ایجادات
اور کئی طرز کے ’’انسانی نمونے‘‘دیکھنے کو ملتے ہیں، جس سے ماہرِ نفسیات کا
کاروبار نہ صرف گرم رہتا ہے بلکہ انسانی نفسیات میں مزید تحقیق کو بھی
تقویت ملتی ہے۔
اب اس سے پہلے کہ میں آپ سے سوال کروں کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔ یعنی
ان میں سے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم خود اس
’’ورڈ وار‘‘میں کس گروہ کے اتحادی ہیں؟
تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک کسان کے تین بیٹے تھے۔۔۔غلط آغاز کر لیا،
براہِ کرم ایک سطر پیچھے کو لوٹیں۔
تو جناب یونیورسٹی کے چار سال انسان کی زندگی میں کئی خوشگوار تبدیلیاں لے
کر آتے ہیں لہٰذا اس فطری اصول کے پیشِ نظر بہت سے افراد معاشرتی سرگرمیوں
کو ’’جی پی اے ‘‘پر ترجیح دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو عملی میدان میں ایسے
کام کر جاتے ہیں کہ ’’ تھیٹا‘‘ حضرات پریشان ہو جاتے ہیں ’’کہ یہ ٹوٹا ہوا
تارا مہ کامل نہ بن جائے۔‘‘ البتہ ایسی نوبت کم ہی آتی ہیں کیونکہ ہر دو
ماہ بعد امتحانات کی آمد سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے اور
ادارے میں مجموعی طور پر علمی و عملی توازن برقرار رہتا ہے۔
اب مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا تعلق اس گروہ سے بھی نہیں ہے کیونکہ ہم
نیوٹرل رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔تاہم اس جنگ میں جہاں کئی دیگر
چھوٹے گروہوں کا تعلق ہے تو ان کی اپنی کوئی خاص پہچان نہیں البتہ یہ
’’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘کے پیروکار بدلتے موسمو ں کے ساتھ مندرجہ
بالا حضرات کے ہی اتحادی ملتے ہیں؛اور یوں یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے میرے
قرب و جوار میں جاری ہے،جس میں کبھی کسی کے گھرمیں خوشی کے شامیاے بجتے ہیں
تو کبھی امیدسے بھر پور عمارتیں مسمار کر دی جاتی ہیں۔
آخر میں گزارش ہے کہ’’ جی پی اے‘‘ پر زرا کم دھیان دیجئیے اور اپنے ذمے
موجودسوال کا جواب تلاش کیجئیے، اس احتیاطی تدبیر کے ساتھ کہ
’’مسکرائیے! آپ مزاح پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘
|