اپنی حالیہ بریفنگ میں میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کے
کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، یہ ریاست کا چوتھا
ستون ہے، سب مضبوط ہوگئے اور آپ جھٹکے لگائیں تو بلڈنگ کو نقصان ہوگا۔انہوں
نے کہا میڈیا صرف چھ مہینے کے لیے پاکستان کی ترقی دکھائے اور پھر دیکھے کہ
ملک کہاں پہنچتا ہے۔ افواج پاکستان اس ملک کی فوج ہے، اس کا تعلق ایک پارٹی،
بندے یا ایک صوبے سے نہیں، ہم حکومت کا ادارہ ہیں، آج پی ٹی آئی کی حکومت
ہے، اس سے پہلے کسی اور پارٹی کی تھی، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت کو ان پٹ
دیتی ہے، یہ خوشی کی بات ہے کہ تمام ادارے مل کر قومی مقصد کے لیے کام کرنا
چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفورنے کہا اس میں کوئی شک نہیں
کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی،
سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی اور پھر ہم نے اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا،
اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مقصد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر
دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں، اب
اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے۔اس
موقع پر انہوں نے میڈیا کے کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا بہت
بڑا کردار ہے، یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے، سب مضبوط ہوگئے اور آپ جھٹکے
لگائیں تو بلڈنگ کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا میڈیا صرف چھ مہینے کے لیے
پاکستان کی ترقی دکھائے اور پھر دیکھے کہ ملک کہاں پہنچتا ہے۔میجر جنرل آصف
غفور نے کہا کہ ہم ملک کو ایک ایک انچ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں، مل کر
امن کی صورتحال بہتر کر رہے ہیں اور ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین
کے مطابق قانون کی حکمرانی ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آئینِ پاکستان کے تحت
قانون کی بالا دستی ہو، یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی
ادارہ ریاست سے بہتر ہو۔ انھوں نے پاک فوج میں احتساب کے بارے میں بتایا کہ
یہ منظم ادارہ ہے اور اگر یہ منظم نہیں ہوتا تو ہم نے جو گزشتہ 15 سالوں
میں کارکردگی دکھائی ہے وہ یہ نہ ہوتی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فوج
میں چین آف کمانڈ اور نظم و ضبط ہے جبکہ احتساب سے متعلق ایک پوری برانچ ہے
جس کی سربراہی ایک لیفٹننٹ جنرل کرتا ہے جس میں میجر جنرلز بھی شامل ہوتے
ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس برانچ کا کام ہی یہ ہے وہ پاکستان آرمی کے نظم و
ضبط دیکھے اور احتساب کرنا ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ 2 سالوں
میں 4 سو سے زائد فوجی افسران کو سزائیں دی گئیں اور یہ سزائیں احتساب کے
تحت ہی دی گئیں، جن میں سروس کی معطلی اور جیل بھی شامل ہے، پاک فوج میں
ڈیوٹی پر تاخیر سے آنے کی بھی سزا ملتی ہے، ڈیوٹی میں تاخیر پر مختلف
سزائیں دی جاتی ہیں، یہاں چین آف کمانڈ اور ڈسپلن ہے۔آخر میں انہوں نے
درخواست کی کہ سب مل کر اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو وہاں لے کر
جائیں، جہاں ہمارا حق بنتا ہے۔سنجیدہ حلقوں کے نزدیک شعبہ تعقات عامہ پاک
فوج کی تفصیلی پریس بریفنگ کے بعد قومی رائے عامہ پر انتہائی مثبت اثرات
مرتب ہونگے ۔
م ملک کو ایک ایک انچ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں، مل کر امن کی صورتحال
بہتر کر رہے ہیں اور ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون
کی حکمرانی ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آئینِ پاکستان کے تحت قانون کی بالا
دستی ہو، یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی ادارہ ریاست سے
بہتر ہو۔ پاک فوج میں احتساب کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آرنے بتایا کہ
یہ منظم ادارہ ہے اور اگر یہ منظم نہیں ہوتا تو ہم نے جو گزشتہ 15 سالوں
میں کارکردگی دکھائی ہے وہ یہ نہ ہوتی۔ فوج میں چین آف کمانڈ اور نظم و ضبط
ہے جبکہ احتساب سے متعلق ایک پوری برانچ ہے جس کی سربراہی ایک لیفٹننٹ جنرل
کرتا ہے جس میں میجر جنرلز بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس برانچ کا کام ہی یہ ہے وہ
پاکستان آرمی کے نظم و ضبط دیکھے اور احتساب کرنا ہے۔ گزشتہ 2 سالوں میں 4
سو سے زائد فوجی افسران کو سزائیں دی گئیں اور یہ سزائیں احتساب کے تحت ہی
دی گئیں، جن میں سروس کی معطلی اور جیل بھی شامل ہے، پاک فوج میں ڈیوٹی پر
تاخیر سے آنے کی بھی سزا ملتی ہے، ڈیوٹی میں تاخیر پر مختلف سزائیں دی جاتی
ہیں، یہاں چین آف کمانڈ اور ڈسپلن ہے۔آخر میں انہوں نے درخواست کی کہ سب مل
کر اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو وہاں لے کر جائیں، جہاں ہمارا حق
بنتا ہے۔ ہم نازک وقت سے اس مقام پر آگئے ہیں، جسے واٹر شیڈ کہتے ہیں، آج
ہم اس واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں، جہاں سے آگے نازک وقت نہیں، یا بہت اچھا وقت
ہے یا پھر نازک وقت سے خراب وقت ہے۔ 70 سال گزر گئے لیکن ہم اب بھی عوام کو
بتا رہے کہ ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ یہ
نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر بحث ہوئی ہے لیکن نتیجہ
نہیں نکلتا، سب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی میں بیٹھے رہے
تو آگے نہیں جاسکتے، ہم ماضی سے صرف نتیجے لے سکتے ہیں۔ ہم نے کئی جنگیں
لڑیں، آدھا ملک گنوادیا، لیکن پچھلے چند سالوں میں بہتری کی طرف آئے، ملک
امن کی طرف گیا، معیشت میں بہتری آئی، ہم اس کو ریورس کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
کیا اس نازک لمحے سے اچھے پاکستان کی طرف نہیں جاسکتے؟2017 میں بھارت کی
جانب سے 1881 سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں، لیکن رواں برس کنٹرول
لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید
اور 300 زخمی ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز جان بوجھ کر عام آبادی
کو نشانہ بتاتی ہیں۔کرتارپور راہداری صرف ون وے ہوگی، بھارت سے سکھ یاتری
آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے، کرتارپور راستے پر خاردار تاریں لگائی
جائیں گی۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کسی پارٹی،شخصیت یا صوبے کی تقسیم سے
بالاتراور پاکستان کی محافظ ہے۔ملکی تاریخ اور مختلف ادوار کی ہنگامہ
خیزیوں ،اُتار چڑھاؤ کے تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ماضی قریب و بعید میں سول
و فوجی قیادت سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔لیکن جب سے پاکستان کے اندر دشمن و
دوستوں کی کاریگری سے محاذگرم ہوا ہے۔تب سے لیکر اسوقت تک پاکستان کی مسلح
افواج ،دفاعی تنصیبات ،اہل وطن کو بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا
کرنا پڑا ہے۔مسلح افواج ہوں یا قومی حلقے سب نے اپنی اپنی قربانیوں پر ملال
نہیں محسوس کیا ۔کیونکہ مسلح افواج اور قومی حلقوں کے پیش نظر پُر امن
پاکستان کی منزل ہے ۔جسے پانے کیلئے کڑے وقت ،کڑی آزمائشوں کی پرواہ نہیں
کی گئی۔چنانچہ جب سول قیادت یہ کہتی ہے کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں
گے،تو اِسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سول قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھ چکی
ہے۔اور جب فوج کی جانب سے سول قیادت کے ساتھ ملکر مضبوط و مستحکم پاکستان
کیلئے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے تو وہ قوتیں کچھ زیادہ ہی ’’دُکھی‘‘ہونے
لگتی ہیں ۔جنہیں ہمیشہ بہانہ ملتا رہا کہ وہ فوج کو ہر معاملہ میں حکومت
مخالف ظاہر کرنے میں کامیاب رہیں۔اس امر میں بھلاکیا شک ہوسکتا ہے کہنائن
الیون کے بعد پاکستان میں سول فوجی قیادت میں باہمی اعتماد و یقین کی کمی
تھی ۔جسکی وجہ سے حالات ایسے بگڑے کہ دشمن نے اپنے طریقے سے باہر کی جنگ
پاکستان کے اندر لائی ۔اور پھرپاکستان میں متعدد آپریشنزکے ذریعے اہداف
حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔حالیہ عرصہ میں پاکستان میں آنیوالی تبدیلی اور
پھر مسلح افواج کی فیڈریشن کی مضبوطی کیلئے عدلیہ و حکومت کیساتھ ایک صفحہ
پر ہونا کافی نتیجہ خیز بھی مانا جاتا ہے۔ادارے جب ایک صفحہ پر ہوں تو
یقینی طور پر فیڈریشن کی مضبوطی کا تاثر قوی ہوتا ہے ۔اور درپیش چیلنجز سے
عہدہ برآہ ہونے میں آسانی ہوجاتی ہے۔لیکن یہاں یہ امر ملحوظ خاطر کھنا
ضروری ہے ۔کہ پاکستان کے دشمنوں نے مختلف شکلوں میں ابھی بھی اپنی جنگ جاری
رکھی ہوئی ہے ۔اور اب وہ ففتھ جنریشن وار کی جہت سے بھی آگے بڑھ رہے
ہیں۔دور جدید کی تمام تر تکنیک (جس میں میڈیا کے تمام میڈیمز شامل ہیں) کو
استعمال کیا جارہا ہے۔دشمن اپنی کاریگری سے بدنما ،بدصورت چیزوں کو خوبصورت
بناکر پیش کررہا ہے ۔تو مسلح افواج کو ایک طرح سے ولن بناکر پیش کررہا
ہے۔آئے روز ایسے تجزیئے ،تبصرے ہوتے رہتے ہیں ۔جن سے یہ تاثر ملے کہ فوج
پیچیدگیوں کا سبب ہے۔یہاں تک کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو کاری ضربات
لگانے والوں کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش بھی کیجاتی ہے۔ان حالات میں
پاکستان کی رائے عامہ شدید خطرات کی زد میں ہے۔اور ضرورت اس امر کی ہے کہ
درپیش چیلنجز سمیت ہر ایشو پر تفصیلی بریفنگ آئے ۔تاکہ دشمن کو باور کرایا
جاسکے کہ اُسکی سازشیں نظر انداز نہیں تو دوستوں کو بھی باور ہوکہ اُنکی
ملک و قوم کیلئے قربانیاں ،کوششیں و کاوشیں ’’رائیگان‘‘نہیں جائینگی ۔ پاک
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی حالیہ میڈیا
بریفنگ نے تمام معاملات پر تفصیلی اور نتیجہ خیز بریفنگ کا اہتمام کرکے
رائے عامہ کو درست سمت پر برقرار رکھنے کی سعی کی ہے۔ اُنھوں نے تمام ضروری
اُمور پر مدلل نقطہ نظردیا۔اور اداروں کی باہمی اعتمادو یقین کی کوششوں پر
بات کی ۔سنجیدہ قومی حلقوں کو اس امر پر کوئی شک نہیں کہ سکیورٹی
اسٹیبلشمنٹ کی نیک نیتی ،معاملہ فہمی اورعزم و ارادہ میں کوئی ابہام
نہیں۔سب کلیئرہے۔مسئلہ سیاسی قیادت کی ترجیحات کا ہے ۔جو ملکی مفادات سے
میل نہیں کھاتیں۔واٹر شیڈ سے اچھی سمت پر چلنا ہوگا۔ |