کہتے ہیں دوست ہی دوست کا آئینہ ہوتا ہے ۔اور دوست وہی
ہوتا ہے جو مثبت انداز میں غلطیوں ،کوتائیوں کی اصلاح کی ضرورت پر زور دے ۔مگر
لوگوں کے سامنے اپنے دوست کا بھرم بھی برقرار رکھے ۔بہترین دوست وہی ہوتا
ہے ۔جو دوستی کی بنیادسے واقف ہو۔ادراک رکھتا ہوکہ آخر وہ کیوں دوست ہے ،جب
یہ ادراک ہوجائے تو پھر دوست کا دوست کا آئینہ بنے گا ۔اور آئینہ کبھی جھوٹ
نہیں بولتا ۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اچھے دوست بنانے سے زیادہ
جزوی وقتی اہداف و مقاصد پر کام کرنا ہوتا ہے۔ہمیں ایسا دوست کم ہی برداشت
ہوتا ہے جو آئینہ ثابت ہو چنانچہ ہم اپنی تخلیق کردہ دوستی کو حتمی سمجھ
بیٹھتے ہیں۔قومی حلقے ہوں یا سوسائٹی میں سے کوئی فرد یا افراد وہ یقینی
طور پر عزت و وقار کی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں ۔اِنھیں ملک سے محبت ہے ۔ہمیشہ
ملک کا بھلا چاہتے ہیں ۔اور عدلیہ ،مقننہ انتظامیہ ،دفاع سے متعلق اداروں
کی اہمیت و افادیت سے بھی آگاہ ہیں۔اور مجموعی طور پر ان ریاستی ستونوں کو
قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔اور ان سے بہتری کی خواہاں بھی رہتے
ہیں۔اور ساتھ ہی جب ملک کے اندر عدلیہ ،مقننہ ،انتظامیہ کا رول دیکھتے ہیں
تو اپنی اُمیدوں ،توقعات پر پانی پھیرتا نظر آتا ہے۔مگر جب دفاع اور دفاعی
کاوشوں پر نظر جاتی ہے تو ’’اطمینان‘‘ضرور ہوتا ہے۔ پاک افواج زمین ،سمندر
،فضا میں اپنی خدمات کی ناجم دہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں
کرتیں۔دیکھیں کنٹرول لائن پر کسی دور افتادہ ،بلند وبالا پہاڑٰی چوٹی پر
موسم کی شدت سے قطعی نظر ہمارے لئے سینہ سپر ’’فوجی‘‘پتہ نہیں ملک کے کس
علاقے سے تعلق رکھتا ہوگا۔وہ ہمیں جانتا تک نہیں ۔نہ ہی ہمیں اُس سے کوئی
تعارف ہے ۔مگر وہ ہمارے لئے موجود ہے ۔کسی بھی آزمائش میں اپنی جان پر کھیل
جاتا ہے۔جس طرح ایک فوجی کی اپنے حلف سے وفاداری ،اُسکے عملی سپاہیانہ
کردار میں ہے ۔اِسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ پاک فوج سے دوستی کریں تو دونوں
ایک دوسرے کیلئے آئینہ ہوں ۔حمایت کریں تو ہماری حمایت زبانی کلامی نہ ہو
بلکہ عملی طور پر محسوس ہو کہ واقعی ہی ہم پاک فوج کے حامی ہیں ۔اور جب
حامی ہوجائینگے ۔تو ’’اعتماد و یقین ‘‘کی اُس منزل پر ہونگے ۔جہاں ’’یکجہتی‘‘خود
بخود نظر آئیگی ۔اظہار کیلئے کسی بناوٹ اور بناوٹی ماحول کی ضرورت نہ ہوگی۔
اؤل و آخر افواج میں خدمات انجام دینے والے بھی تو اِسی ملک کے بیٹے ہیں ۔کسی
نہ کسی طبقہ و حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اور اُنکا سپاہیانہ کردار اُنکے ملک
و قوم سے وفاداری کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ ۔ یکجہتی کسی بھی سطع پر
اجتماعیت اور قومی مقاصد کی تقویت ومفاد میں اُٹھائے گئے حتمی (فیصلہ کن و
نتیجہ خیز)اقدام کا نام ہے۔جسکے بعد کسی اُونچ نیچ ،ہوں ہاں کی کیوں گنجائش
باقی نہیں ہوتی۔یعنی ایک ایسا عمل ہے۔جس کے بعد دوجہتی ،سہ جہتی کا کوئی
تصور نہیں ہوسکتا ۔چہ جائیکہ یکجہتی کا ڈھنڈورہ بھی پیٹا جاتا رہے ۔اور
نفرت و نفاق ،شر و شرارت بھی باقی رہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ من حیث القوم
لفظ یکجہتی کو درست پیرائے میں نہیں لے پاتے ۔بلکہ جزوی وقتی اہداف و مقاصد
کے تحت کسی بیان یا دوسرے کسی طرز عمل کو یکجہتی کا نام دیتے ہیں۔بعض اوقات
فوج کیساتھ یکجہتی کا راگ الاپا جانے لگتا ہے۔کوئی بیان کے ذریعے اپنی
یکجہتی ظاہر کرتا ہے ۔کوئی کسی طرح کوئی کسی طرح ،مگرمیں ذاتی طور پر
’’یکجہتی ‘‘کو ایک ایسی کیفیت سمجھتا ہوں ۔جس میں ریاست ،مملکت ،ادارہ یا
فرد و گروہ سے اپنے ربط و تعلق اور رشتوں کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے نیک و
قومی مقاصد کیلئے کُلی حمایت مہیا کرے۔یہی حمایت یکجہتی ہے ۔مثلاََدفاع وطن
کیلئے فوج کی کوششوں وکاوشوں کی حمایت سے یکجہتی کا ماحول تشکیل پانے کی
صورت میں کیا کیوں کیسے کس طرح فرض کرو ،جیسی کوئی جہت باقی نہیں رہتی ۔نہ
کوئی سوال اُٹھتاہے۔بلکہ اپنی حمایت پلڑے میں ڈال دی جاتی ہے۔اپنے قول و
عمل کو اُس کیساتھ ملا دیا جاتا ہے جس کی حمایت و یکجہتی کا ارادہ ہو۔پاک
فوج کیساتھ مختلف طبقوں و حلقوں کی جانب سے کبھی کبھار ’’یکجہتی‘‘کے
اعلانات ہوتے رہتے ہیں ۔اور یہ سب دعوؤں کی حد تک ہوتا ہے ۔ایسے دعوے کی
دلیل کم ہی موجود ہوتی ہے۔ملک خواہشات پر نہیں ،آئین و قانون کے تابع رہنے
سے چلتے ہیں۔اور اگرہم واقعی ہی آئین پرچل رہے ہیں تو پھرفیڈریشن بیزار
روئیے کیوں ہیں ؟ ماضی میں سب سے کہیں نہ کہیں غلطیاں سرزد ہوئیں ۔کوئی بھی
مبرا نہیں ۔عدلیہ نے ’’نظریہ ضرورت‘‘دیا ۔تو ضیاء الحق بھی ایسی فصل کاشت
کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔جس کا خمیازہ سب نے بھگتا۔اسلام کے نام پر اسلام
کیساتھ جو کھیل ضیائی سلام نے کھیلا۔اُس کے اثرات آسیہ مسیح کیس تک محسوس
کئے جاسکتے ہیں۔لیکن فوج نے ضیاء کے بعد خود کو سنبھالا ۔اور ہر ممکن کوشش
کی کہ کسی بکھیڑے میں نہ پڑا جائے ۔مگر پھر میاں کی میاؤں میاؤں نے ’’روشن
خیالی‘‘کو راستہ دیا ۔اُسے بھی پوری قوم ملک و دفاعی اداروں نے بھگتا ۔اُسکے
بعد فوج اگرچہ مکمل طور پر اپنے کام میں مصروف ہوئی۔مگر فوج مخالف حلقہ میں
اضافہ کا تاثرقومی ہوا ۔ اب گذشتہ سالوں سے فوج نشانے پر رکھی جارہی ہے۔بے
شک ماضی میں فوج کی لیڈرشپ پر اعتراض بھی ہوا۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی
رہتی ہے۔اور مجموعی طور پر فوج تو ملک و قوم کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں ۔اُنھی
کی بدولت مملکت کے دیگر ستونوں کیساتھ ملکر درپیش چیلنجز سے عہدہ برآہ ہونے
میں مدد دے رہی ہے۔لیکن ہر معاملہ میں فوج کو رگیدہ گیا ہے آسیہ مسیح کیس
سے فوج کا کیا واسطہ؟؟پھر فوجی قیادت پر فتوے کیوں آئے ؟؟ تو سوچنا ہوگا کہ
کہاں کہاں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی ۔بِلاشُبہ فوج اپنی قربانیاں بچانے
پرمتوجہ ہے۔قومی حلقوں کے اُس جانی و مالی نقصان کا احساس رکھتی ہے ۔جو
گزرے وقتوں میں ہوا۔مگر یہ بات باعث حیرت ہے کہ کچھ دانشور ابھی بھی اپنی
کرشماسازیاں چھوڑنے پر تیار نہیں۔اور اُنھیں فوج سے زیادہ حاصل اختیارات کی
طاقت نے خود ساختہ ترجیحات پر متحرک کیا ۔جنہیں آئینے کی ضرورت نہیں ۔کہ وہ
عظیم مشن کیلئے کبھی تھے ہی نہیں ،بس آگئے ۔اور نفرتیں اورحُب الوطنی کے
ٹکٹ بانٹنے لگ گئے۔ |