مدھیہ پردیش کے اندر مایا وتی نے کانگریس کی حمایت کا
اعلان کردیا۔ اس خبر پر افسوس جتاتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا کہ کاش کانگریس
انتخاب سے قبل بہوجن سماج پارٹی کو اپنے ساتھ لے لیتی تو اسے بڑے آرام سے
۱۴۰ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوجاتی اورفرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجاتا ۔ اخلاص
کے ساتھ کی جانے والی یہ خواہش سیاسی سادہ لوحی ہے اس لیے کہ فسطائیت کا
آسیب اتنی آسانی قابو میں آنے والی شئے نہیں ہے۔ انتخابی دنگل میں کوئی
ایک ووٹ سے جیتے یا ۱۰ لاکھ کے فرق سے ایوان میں جائے اس کی قدرو قیمت
یکساں ہوتی ہے۔ جمہوریت میں بندو ں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔ مدھیہ
پردیش میں سرکار ۱۱۴ ارکان سے بنے یا ۱۴۰ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں ایک
پارٹی کی سرکار اور کئی جماعتوں کی مخلوط حکومت سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
کانگریس اگر بہوجن سماج پارٹی یا سماجوادی پارٹی سے قبل از انتخاب الحاق
کرلیتی تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ اسے کئی مقامات ان حمایتی پارٹیوں
کے لیے چھوڑنے پڑتے ۔ ان حلقوں کے آرزو مند کانگریسی آزاد امیدوار کے طور
پر کھڑے ہوجاتے اس طرح بغاوتوں کا طوفان مزیدشدت اختیارکرلیتا۔ علاقائی
جماعتیں کانگریس کی کامیابی کا سہرا اپنے سرباندھ لیتیں اور اترپردیش میں
اس پر مزید دباو بنایا جاتا۔اس لیے صوبائی سطح پر سب نے انفرادی طور پر زور
آزمائی کرکے اپنی اپنی طاقت کا اندازہ لگالیا ہے۔کانگریس کو پتہ چل گیا ہے
ان جماعتوں کے بغیر این ڈی اے سے لوہا لینا مشکل ہے اور دیگر جماعتوں کو
بھی احساس ہوگیا کہ کانگریس ویسی گئی گذری بھی نہیں جیسا کہ وہ اسے سمجھتے
ہیں۔ باہمی اعتماد و توازن کے لیے ان حقائق کا ادراک و احترام لازمی ہے۔
مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان فوٹو فنش ہوا ۔ مرتے پڑتے
کانگریس پہلے نمبر پر تو آگئی لیکن اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ اب بھی بی جے
پی کے ووٹ کا تناسب اس سے عشاریہ ایک فیصد زیادہ ہے۔ رائے دہندگان کی تعداد
پر غائر نظر ڈالی جائےتو بی جے پی کی شکست بنیادی طور پر اس کے ووٹرس میں
۷۸ء۳ فیصد کی کمی اور کانگریس کے رائے دہندگان میں ۶۲ء۴ فیصد کے اضافہ کی
وجہ سے ہوئی ہے ۔ ایم پی میں بہوجن سماج پارٹی نے ۵ فیصد ووٹ حاصل کیے،
سماجوادی پارٹی کو ۳ء۱ فیصد اور عآپ کو ۷ء۰ فیصد ووٹ ملے اس طرح یہ جملہ ۷
فیصد ووٹ ہوجاتے ہیں ۔ پارلیمانی انتخاب کے وقت اگر ان چاروں جماعتوں کے
درمیان اتحاد قائم ہوجائے تو بی جے پی کو فیصلہ کن شکست دینا مشکل نہیں ہے۔
اسی طرح جو ۸ء۵ فیصد ووٹ آزاد امیدواروں کے کھاتے میں گئے ان میں سے بھی
بڑا حصہ بی جے پی اور کانگریس کے باغیوں کا ہے۔ آئندہ انتخاب کی حکمت عملی
ان حقائق کو سامنے رکھ کر وضع کرنی ہوگی۔
راجستھان کے اندر کانگریس کے ووٹ میں ۲ء۶ فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ بی جے پی
کے ووٹ ۴ء۶ فیصد کم ہوگئے اس طرح کانگریس نے بی جے پی سے عشاریہ ۵ فیصد
زیادہ ووٹ حاصل کرلیے ۔ یہ معمولی سا فرق کانگریس کو ۲۱سے ۹۹ پر لے گیا
اوراس نے بی جے پی کو ۱۶۳ سے ۷۳ پر پہنچا دیا۔ ایم پی کے برعکس راجستھان کے
اندر بی ایس پی کو صرف ۴ فیصد ووٹ ملے لیکن اس نے ۲ کے بجائے ۶ نشستوں پر
کامیابی درج کرائی۔ ۲ء۱فیصد ووٹ پانے والی سی پی ایم نے دوحلقوں میں
کامیابی حاصل کی اور ۳ء۰ فیصد ووٹ لینے والی آر ایل ڈی کو بھی ایک مقام پر
کامیابی مل گئی لیکن عآپ ۴ء۰ فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اپنا کھاتہ
نہیں کھول سکی۔ کانگریس کے لیے بی ایس پی اور آرایل ڈی کے ۳ء۴ فیصد ووٹ کم
اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ راجستھان میں ۱۳ آزاد امیدوار جملہ ۶ء۹ فیصد ووٹ
لے کر کامیاب ہوگئےان کی جانب توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔
چھتیس گڈھ کے اندر کانگریس کے پاس پہلے بھی ۳ء۴۰ فیصد ووٹ تھے لیکن چونکہ
بی جے پی ۴۱ فیصد پر تھی اس لیے یہ ۷ء۰ کا فرق نے بی جے پی کو۴۹ نشستوں پر
اور کانگریس کو صرف ۳۹ تک محدود رکھا تھا ۔ اس بار بی جے پی کے ووٹ میں ۸
فیصد کی کمی واقع ہوئی اور وہ ۳۳ فیصد پر آ گئی ۔ یہ ووٹ کانگریس اور جوگی
میں تقسیم ہوگئے۔ جوگی اور بی ایس پی اتحاد کو جملہ ۵ء۱۰ فیصد ملے جسے نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے قبل چھتیس گڈھ میں کوئی جماعت ۵۰ سے زیادہ
نشستیں نہیں جیت سکی تھی لیکن اس بار کانگریس نے ۹۰ میں سے ۶۸ مقامات پر
کامیابی درج کروا کر نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ میزورم میں کانگریس کے خلاف غم
وغصے کا یہ عالم تھا کہ اس کا وزیراعلیٰ دو حلقوں سے ہار گیا اور پارٹی ۲۹
نشستوں کا نقصان اٹھا کر۳۴ سے ۵ پر آگئی ۔ کوئی پارٹی اگر اپنے ۴ء۱۴ فیصد
ووٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کا یہ حشر ہونا ہی ہے لیکن چونکہ میزورم سے
صرف ایک رکن پارلیمان آتا ہے اس لیے کانگریس کا بہت بڑا نقصان نہیں ہوگا۔
تلنگانہ نے کے سی آر نے قبل از وقت انتخابات کروا کے ایک جوا کھیلا اور اس
کا زبردست فائدہ اٹھایا۔ ان کے ارکان کی تعداد ۶۳ سے بڑھ کر ۸۸ پر پہنچ گئی
جبکہ ٹی ڈی پی کو ساتھ لینے کے باوجود کانگریس ۲۱ سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔
تلنگانہ کے اندر کانگریس اور ٹی آر ایس کے ووٹ کا فرق بہت زیادہ ہے ۔ٹی
آرایس نے ۹ء۴۶ فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ کانگریس ۵ء۲۸ پر سمٹ گئی۔ ۷ فیصد
ووٹ کے باوجود بی جے پی کو صرف ایک اسمبلی حلقہ میں کامیابی ملی جبکہ ۷ء۲
فیصد ووٹ پانے والی ایم آئی ایم ۷ نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ بی ایس پی ۱ء۲
فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ایک بھی امیدوار نہیں جتا سکی ۔ گزشتہ
پارلیمانی انتخاب میں کانگریس کو تلنگانہ سے دو مقامات پر کامیابی حاصل
ہوئی تھی لیکن اس بار اس کے لیے وہ سیٹیں بچانا بھی مشکل ہوجائے گا ۔ اس
نقصان کی بھرپائی ممکن ہے آندھرا پردیش میں ہوجائے جہاں چندرا بابو نائیڈو
سے اس نے معاہدہ کرلیا ہے۔ بی جے پی کے لیے فی الحال تلنگانہ اور آندھرا
دونوں جگہ سے بری خبر ہے ۔آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی کا ساتھ چھوٹ جانے سے
بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ معلق پارلیمان میں کے سی آر کے لیے این ڈی اے میں
شامل ہونے سے زیادہ آسان یو پی اے کا حصہ بن جانا ہے۔
بی جے پی کو اس بار یہ کہنے کا موقع نہیں ملا کہ ہم جیسے باہو بلی کو شکست
دینے کے لیے سب کو ساتھ آنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس نے جب اکیلے ہی بی
جے پی کو دھول چٹا دی تو سدھو کو کہنا پڑا راہل باہوبلی ہے یعنی اب مقابلہ
بقول یوگی جی کے علی اور بجرنگ بلی میں نہیں بلکہ باہوبلی اور بجرنگ بلی
میں ہوگا۔ معروف صحافی ارون شوری نے ممبئی کے بھونس کا لج میں کہا تھا کہ
بی جے پی کو ۹۰ فیصد نشستیں ان صوبوں سے ملی ہیں جہاں سے ۶۰ فیصد ارکان
پارلیمان منتخب ہوتے ہیں ۔ ان صوبوں میں مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس
گڑھ بھی شامل ہیں ۔ ان تین ریاستوں کے ۶۵ پارلیمانی حلقوں میں سے ۶۲ پر کمل
کا پھول کھلا تھا ۔ یہ ۹۵ فیصد سے بھی زیادہ کا تناسب بنتا ہے۔ اب اگر یہ
راہل لہر قومی انتخاب تک برقرار رہے تو بی جے پی کی نصف سے زیادہ مقامات پر
ناکامی ہاتھ لگے گی اور وہ ۳۱ پر سمٹ جائے گی ۔
راہل گاندھی نے اس کامیابی کے بعد بڑے اعتماد کے ساتھ اخبار نویسوں سے خطاب
کیا اور سوالات کے جوابات دیئے ۔ ہندوستان کی عوام پچھلے ساڑھے چار سال میں
اس طرح کا منظر دیکھنے کے لیے ترس گئے تھے۔ مودی جی اول تو صحافیوں سے بات
نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو بناوٹی سوالات کے ریہرسل شدہ جوابات سنتے
وقت ناٹک کا گمان گزرتا ہے۔ راہل کی خوداعتمادی اور حزب اختلاف کے متوقع
اتحاد سے بی جے پی کو اترپردیش اور بہار میں بھی شدید جھٹکے لگیں گے ۔ اس
لیے آئندہ پانچ ماہ مودی جی اور شاہ جی چین کی نیند نہیں سوپائیں گے۔ بعید
نہیں کہ وہ بھی نتن گڈکری کی طرح چکرا کر گرنے لگیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ
۳۱ فیصد ووٹ کے باوجود ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ حزب اختلاف کا انتشار
تھا ۔ قومی انتخاب میں اپوزیشن پارٹیاں اگر صف بندی کرلیں تو بی جے پی کا
رام نام ستیہ ہوجائے گا ۔ لوک سبھا کے نتائج دیکھ کر بے ساختہ یوگی جی ،
مودی جی اور شاہ جی کے منہ سے ’ہے رام ‘نکلے گااور پھر ایک پراسرار خاموشی
چھا جائے گی۔
|