علم تاریخ نے اپنے دامن میں اچھی
اور برُی ہر دوصفت کی حامل شخصیات کو سمیٹ کر پناہ دی ہے اس طرح انہیں
زمانے کی دست برد اور شکستگی سے محفوظ کردیا ہے تاکہ آئینہ تاریخ میں ماضی
کے عکس و نقش کا مشاہدہ حال و استقبال کو جاندار اور شاندار بنانے میں
معاون ہو۔ لیکن بعض شخصیات کا پیکرِ احساس اتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے کہ
جنہیں تاریخ محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے یا نہ کرے وہ شخصیات اپنی تاریخ آپ
مرتب کرلیتی ہیں اس لئے کہ وہ عہد ساز اور تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں یہ
شخصیات اپنی پہچان کیلئے مؤرخ کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ ان نادر زمن ہستیوں
کے خوبصورت تذکرے کو تاریخ اپنے صفحات کی زینت بنانے کیلئے خود محتاج ہے
اور مؤرخ ان کے تذکرے لکھ کر خود کو متعارف کرانے کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسی
ہی عہد ساز ہستیوں میں ایک مہر درخشاں وہ بھی ہے جسے شرق تا غرب شیخ
الاسلام و المسلمین، محدث عصر، فقیہہ دہر، مجدد دین و ملت ، حامی سنّت،
قامع بدعت، اعلیٰ حضرت وغیر ہم القابات و خطابات سے پہچانا جاتا ہے ۔ امام
احمد رضا فاضل و محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے اسم گرامی کے اعزاز و اکرام کے
بارے میں علامہ ہدایت اللہ بن محمود سندھی حنفی قادری مہاجر مدنی علیہ
الرحمۃ لکھتے ہیں۔
''وہ (امام احمد رضا علیہ الرحمۃ) اس کے اہل ہیں کہ ان کے نام سے قبل اور
بعد میں کوئی بھی فضیلت کا خطاب لگایا جائے۔'' (معارف رضا 1986ء ، صفحہ
102)
مجدد اما م احمد رضا علیہ الرحمۃ علم و فضل کا وہ خورشید ہیں کہ جس کی جلوہ
گری انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر تا بیسویں صدی کے ربع اوّل کے عرصہ پر
محیط ہے، اور یہ دور جس قدر پر آشوب تھا بلاد اسلامیہ میں کوئی دور بھی
ایسا نہیں گزرا، فتنوں کی بیخ کنی اور فسادِ اُمت کے ذمہ دار مفسدین کو بے
نقاب کرنے کیلئے امام احمد رضا نے فقہی بصیرت اور مدبرانہ فراست کے ذریعے
ملت کی راہنمائی کا جو فریضہ انجام دیا وہ صرف آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ نے جو
شمع عشق رسالت فروزاں کی وہ آج بھی ملت کیلئے مینارہ نور ہے۔ اور آئندہ بھی
اس کی چمک دمک ماند نہیں پڑے گی۔ (انشاء اللہ جل مجدہ، و الرّسول علیہ
الصلوٰۃ والسلام)
امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا
گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و
کردار، قدیم و جدید وعلوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت
، احیاء سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد و عبادت اور روحانیت کے
علاوہ سب سے بڑھ کر قیمتی متاع و سرمایہ عشق ختمی مرتبت (علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم) میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور غالباً
نہیں، بلکہ یقیناً آج بھی سطور بالا صفات میں عالم اسلام میں امام احمد رضا
کا ہمسر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ کی اسی انفرادیت کے بارے میں سید ریاست علی
قادری علیہ الرحمۃ کہتے ہیں:''امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی
سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی
روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب
الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا
جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی ، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن ارشد
جیسی خداداد ذہانت تھی دوسری طرف امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فیض سے
فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے
روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل
علم و فن کا منبع تھا ان کی ذہانت میں کتنے ہی علم و عالم ،گُم تھے۔''
(معارف رضا جلد ششم صفحہ 124)
شمسی تقویم کی بیسویں صدی عیسوی اور قمری تقویم کی چودھویں صدی ہجری میں
شانِ تجدّد اور محی ملت و دین کی حامل ذات امام احمد رضا کے سوا کسی اور کی
قرار نہیں دی جاسکتی، اور اس صدی کو جیسے مجدّد و مصلح کی ضرورت تھی وہ
تمام کمالات و اوصاف بدرجہ اتم اعلیٰ حضرت میں نظر آتے ہیں۔ دین اسلام کی
اساسیات اور ایمان کی جملہ فروعات و جُزئیات پر بیک وقت مشرق و مغرب سے
حملے ہورہے تھے ، ایسے موقع پر ضرورت تھی کہ مشرق میں فتنہ اُٹھانے والے
مُنافقین کا مقابلہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لازوال ہتھیار سے
کیا جائے اور مغرب کے مُلحد سائنس دانوں کے کائنات سے متعلق گمراہ کن
نظریات کا مقابلہ کلامِ الٰہی کی شایانِ شان تفسیر، ''لَا تَبْدِیْلَ
لِکَلِمَاتِ اللّٰہ'' کی بَدیہیات و یقینیات کے اجالے میں کیا جائے۔
چودھویں صدی ہجری میں ملت اسلامیہ کی اصلاح کیلئے جن علمی گوشوں اور شعبہ
ہائے حیات میں قولاً و عملاً کام کی ضرورت تھی وہ تمام تقاضے امام احمد رضا
علیہ الرحمۃ نے پورے کئے ایک ایک علم پر لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک ایک فن پر
لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور لکھتے ہی چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مردہ علوم کو کئی صدیوں بعد زندہ
کیا، بعض علوم اپنی اختراعات سے خود ایجاد فرمائے۔ امام کے اسلوب تحریر میں
امام اعظم سے لے کر دیگر علماء و دانشور اور ہئیت دان کے کارناموں سے مزین
دوسری صدی تا ساتویں صدی ہجری کی تصویر نظر آنے لگی، اسلامیان ہند ہی نے
نہیں بلادِ عرب ومغرب اور افریقہ نے بھی اپنے اسلاف کے ماضی کو جیتا جاگتا
محسوس کیا، تہذیب و تمدن اسلامی کے تابناک دور کی روشنی امام احمد رضا کی
تحریروں سے پھوٹتی محسوس ہوئی۔
ماہر رضویات ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود مظہری مجدّدی ایجاد و اختراع کے
حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:''ایجاد و اختراع کا دار و مدار فکر و خیا ل پر
ہے، خیال کو اساسی حیثیت حاصل ہے ، قرآن کریم میں خیالوں کی ایک دنیا آباد
ہے اور عالم یہ ہے کہ
مجبور یک نظر آ، مختار صد نظر جما!
ہر خیال اپنے دامن میں صدیوں کے تجربات و مشاہدات سمیٹے ہوئے ہے ، جس نے
قرآن کی بات مانی اس نے مختصر زندگی میں صدیوں کی کمائی کمالی۔ امام احمد
رضا انہیں سعادت مندوں میں سے تھے جنہوں نے سب کچھ قرآن سے پایا، وہ قرآن
کا زندہ معجزہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم لدّنی اور فیض سماوی سے نوازا
تھا۔'' (امام احمد رضا اور علوم جدیدہ و قدیمہ ، مطبوعہ اداریہ مسعودیہ
کراچی، صفحہ ۷/۸)
زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ امام احمد رضا کو جیومیٹری کی گتھیاں
سلجھاتے ہوئے دیکھ کر والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان نے فرمایا،
''بیٹا یہ تمام علوم تو ذیلی و ضمنی ہیں تم علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو،
بارگاہِ رسالت سے یہ علوم تمہیں خود عطا کر دیے جائیں گے۔'' پھر واقعی دنیا
نے دیکھا کہ کسی کالج و یونیورسٹی اور کسی سائنسی علوم میں ماہر کی شاگردی
کے بغیر تمام سائنسی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل ہوئے اور ایسے مشاق ہوگئے کہ
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین کو ریاضی کے ایک
لاینحل مسئلہ کے جواب کیلئے امام احمد رضا سے رجوع کرنا پڑا اور امام احمد
رضا نے فی البدیہہ جواب لکھ کر دیا، جبکہ ڈاکٹر سر ضیاء الدین صاحب مسئلہ
کے حل کیلئے جرمنی جانا چاہتے تھے۔ بریلی کے بوریا نشین کی جدید علوم و
فنون پر اس مہارت کو ڈاکٹر سر ضیاء الدین ملاحظہ کرکے حیران و ششدر تو تھے
ہی مزید حیرانگی اس وقت بڑھی جب یہ معلوم ہوا کہ اس مولوی صاحب نے کسی غیر
ملکی درسگاہ سے علوم جدیدہ کی تحصیل کیلئے کبھی رجوع نہیں کیا بلکہ یہ ذات
خود ہی مرجع ہے۔ خلائق میں سے کوئی دنیا کیلئے اور کوئی دین کیلئے یہیں
رجوع کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بے ساختہ کہا کہ علم لدنی کے بارے میں صرف سنا
ہی تھا آج آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اعلیٰ حضرت نے علوم سائنس میں اپنی خداداد
مشاقی کی بنیاد پر ان علوم کی قد آور شخصیات بابائے طبعیات ڈیمو قریطس (٣٧٠
قبل مسیح) بطلمیوس (قبل مسیح) ، ابن سینا (٩٨٠ تا ١٠٣٧ء) نصیر الدین طوسی
(متوفی ٦٧٢ء) ، کوپر نیکس (١٤٧٣ء تا ١٥٤٢ء) کپلر (١٥٧١ ء تا ١٦٣٠ء) ، ولیم
ہر شل (سترہویں صدی عیسویں) ، نیوٹن (متوفی ١٧٢٧ء) ملا جونپوری (متوفی
١٦٥٢ء) گلیلیو (١٦٤٢ء) آئن اسٹائن (١٨٧٩ تا ١٩٥٦ء) اور البرٹ ایف پورٹا
(١٩١٩ء) کے نظریات کا ردّ اور ان کا تعاقب کیا ہے ، جبکہ ارشمیدس (متوفی
٢١٢ ق۔م) کے نظریہ وزن ، حجم و کمیت ، محمد بن موسیٰ خوارزمی (٢١٥ھ/٨٣١ء )
کی مساوات الجبراء اور اشکال جیومیٹری، یعقوب الکندی (٢٣٥ھ /٨٥٠ء) ، امام
غزالی (٤٥٠ھ تا ٥٠٥ھ/١٠٥٩ء تا ١١١٢ء)، امام رازی (٥٤٤ھ تا ٦٠٦ھ /١١٤٩ء تا
١٢١٠ء) کے فلسفہ الہٰیات، ابو ریحان البیرونی (٣٥١ھ تا ٤٤٠ھ/٩٧٣ء تا ١٠٤٨ء)
، ابن الہیثم (٤٣٠ھ/١٠٣٩ء) ، عمر الخیام (٥١٧ھ /١١٢٣ء) کے نظریاتِ ہیّت و
جغرافیہ، ڈیمو قریطس کے نظریہ ایٹم اور جے جے ٹامس کے نظریات کی تائید کی
اور دلائل عقلیہ سے پہلے آیات قرآنیہ پیش کیں۔ امام احمد رضا پر یہ عطا
۔۔۔۔۔۔ یہ نوازش ۔۔۔۔۔۔ یہ کرم ۔۔۔۔۔۔ یہ عنایت ۔۔۔۔۔۔ یہ التفات ۔۔۔۔۔۔ یہ
فیض ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ محض اس بنا پر تھا کہ اعلیٰ حضرت کو اسلام کی عظیم
انقلابی قوت جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل تھا اور اسی
والہانہ عشق سے مسلمانوں کی دینی ترقی ، سیاسی کامیابی ، علم کی ترویج ،
معاشی و عمرانی استحکام اور ثقافتی و تمدنی الغرض ہر سطح کی کامیابیاں و
کامرانیاں وابستہ ہیں حقیقت ہے کہ جسے محبت رسول کا صادق جذبہ ہاتھ آگیا
دین و دنیا کی تما م دولت اسی کے دامن میں آکر سمٹ جاتی ہیں ، امام احمد
رضا کا یہی تجدیدی کارنامہ ہے جس کے سب ہی معترف ہیں۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی غلبہ دین اسلام یا احیاء اسلامی کی تحریکیں اٹھی
ہیں وہ عشق رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرہونِ منت رہی ہیں انگلستان کے
ایک مشہور مستشرق پروفیسر ایچ ۔ اے گب نے اپنی کتاب اسلامک کلچر میں لکھا
ہے، ''تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت
سے مقابلہ کیا گیا ہے لیکن بایں ہمہ مغلوب نہ ہوسکا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ
صوفیا کا اندازِ فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و
توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔" (اسلامک
کلچر ، صفحہ ٢٦٥، مطبوعہ لندن ١٩٤٢ء)
صوفیا کا یہی پیغام ''محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم '' تھا کہ جسے
اعلیٰ حضرت نے اپنی تمام زندگی اپنا کر اپنی تصنیفات و تالیفات کی روشنائی
کے ذریعے ملت اسلامیہ کو منور کیا، آپکو معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل
عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہوگئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت
بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے اور نہ اصلاح و تجدید کی
ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ مغربی استعمار کی
مذمو م سازش یہی تھی کہ مسلمانوں میں سے جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کو نکال دیا جائے، جس کی طرف شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے بھی یوں اشارہ کیا
ہے:۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ |