منطق کی تعریف کچھ اس طرح سے سامنے آئی ہے کہ منطق افکار
کا علم ہے جس کو زبان کے وسیلے سے اظہارِ بیان میں لایا جاتا ہے۔ اسی فکریِ
علم کے تحت جب ہم کوئی دعویٰ کرتے ہیں تو اُسے منطقی استدلال سے درست ثابت
کرنا ہوتا ہے ورنہ دیے گئے بیان کو دیوانے کی بَڑ سے زیادہ نہیں سمجھا
جاتا، اس مشکل ترین کام کو کرنے کے لئے کچھ خاص قسم کے نگینے ہوا کرتے ہیں
جن کا کام ہی فکر کے گہرے سمندر میں غوطے لگانا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ کام
دانشوروں کے بجائے سیاست دان اور بیوروکریٹس کرنے پر مامور ہو جائیں تو
منطق فکریِ علم سے نکل کر اپنی خواہشات پر عقلی جامہ پہنانے کی کوشش کہلائے
گا، ایسا کرکے ہم اپنے زعم میں جانبدارانہ خیالات کی عمارت تعمیر کرنے کے
سوا کچھ نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔
سابق صدرِ پاکستان جناب ممنون حُسین صاحب اپنی تقاریر میں منطقی استدلال کی
بڑی کوششیں کرتے رہے، اُنھوں نے کرپشن اور کرپٹ افراد کے خلاف بڑے دلائل
دیے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اُ س وقت کی حکومت
پر کرپشن میں ملوث ہونے کے کوہ ہمالیہ جیسے الزامات ہیں اورجناب ممنون
حُسین اُسی حکومت کا حصہ بھی تھے۔ منطق کی رو سے اُن کی تقاریر فکری علم کا
حصہ نہیں بن سکتی کیونکہ سابق صدر کی تقاریر اور سابقہ حکومتی کارکردگی
عملی طور پر ایک دوسرے کے برعکس تھیں۔
”پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا“ موجودہ صدرِ پاکستان جناب عارف علوی صاحب
کے اس دانشورانہ نکتے پر ہم اُنگشت بدنداں رہ گئے جب اُنھوں نے انسدادِ
بدعنوانی کے عالمی دن کے مناسبت سے ایک تقریب میں کہی، صدرِمملکت کے حرکات
و سکنات (باڈی لینگویج) سے اندازہ ہو رہا ہے کہ دانشوروں کے پیٹ پرلات پڑنے
والی ہے۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ ہمیں محترم جناب عارف علوی صاحب کی
علمی قابلیت پر شبہ ہو، اُن کی قابلیت و علم کسی دانشور سے کم نہیں، لیکن
مذکورہ بالا بیان دیتے ہوئے اُنھوں نے نہ صرف جانبدارانہ خیالات کی عمارت
تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ حقائق ومنطقی استدلال کو نظرانداز کیا ہے۔
اگرچہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب جاننے کے لئے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ
انتہائی اہم ہے گو کہ اس رپورٹ سے پاکستانیوں کو دور رکھا گیا کمیشن کی
رپورٹ کے علاوہ اب بھی دانشور سقوط ڈھاکہ کے تاریک اسباب پر روشنی ڈالتے
رہتے ہیں، لیکن ہمیں اب تک کسی بھی پہلو سے صدر محترم کے اس موقف کی تائید
ہوتی نظر نہیں آئی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کرپشن کے باعث وقوع پزیر
ہوئی تھی، اگر محترم جناب صدرِ پاکستان یہ دعویٰ فکری علم کے مطابق کررہے
ہوتے تومنطقی استدلال سے متذکرہ بالا بیان سے اُٹھنے والے سوالات کے جوابات
بھی دیتے کہ ہمارا پیارا ملک کس قسم کی کرپشن کے باعث دو لخت ہوا، کس نے
کرپشن کی اور کر پشن کے جُرم میں کیا سزا دی گئی؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بہت سے اسباب میں سے اہم غیر آئینی رویے تھے
جن کے باعث وہاں کے باسیوں کے دلوں میں مایوسی، نفرت اور محرومی پیدا ہوئی
جس کے بطن سے بے چینی نے جنم لیا اور ان بے چینیوں کی طویل عرصے تک پرورش
بھی کی گئی، پاکستان ٹوٹنے کے 47 برس بعد بھی وہ ہی بے چینی باقی ماندہ
پاکستان میں تا حال موجودہے، کیونکہ ملک ٹوٹنے کے اسباب سے ہم نے کوئی سبق
نہیں سیکھا اور نہ ہی سیکھنا چاہتے ہیں، اسی لئے ہم اصل وجوہات کو آئیں،
بائیں، شائیں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔
صدرِ مملکت کو پاکستان ٹوٹنے کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالنے کی اشد ضرورت
تھی، نا کہ اپنی پارٹی کے اکابرین کو خوش کرنے اور پارٹی کے سلوگن کو فروغ
دینے کی خاطر تاریخ کے اہم ترین حصے کو مسخ کرنے کی؟ عزت مآب صدرِ محترم
اگر پاکستان کے دو لخت ہونے کے اسباب پر سے پردہ حقائق کی روشنی میں
اُٹھاتے تو اس تاثر کے خاتمے کا زیادہ امکان ہوتا کہ پاکستانی حکمران،
اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ اپنا محاسبہ نہیں کرتے، صدرِ پاکستان اگر حمود
الرحمن کمیشن رپورٹ پاکستان میں ریلیز کروا دیں تو یہ اُن کا تاریخ میں
فقیدالمثال کام ہو گا۔ |