جس طرح پی پی گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیںیقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ
وہی پارٹی ہے جو جمہوریت کی واحد دعوے دار اور چیمپئن تصورکی جاتی
تھی۔زرداری صاحب سے پہلے پارٹی کی پہچان اور تھی آپ کے ڈرائیونگ سیٹ پر
بیٹھنے کے بعد یہ بدل گئی۔یو ں لگتا ہے جیسے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت
انہیں پروموٹ کیا گیا۔ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھانے والوں نے ایک تیر سے
کئی شکار کیے۔پیپلزپارٹی کے بھولے بھالے ووٹرز کو بھی خو ش کردیا۔سب سے بڑی
پارٹی کو بھی درہم برہم کروادیا اور زرداری صاحب کو بھی اس قدر ممنون اور
شاکر کرلیا کہ وہ آج تک آمنا و صدقنا کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔پی پی والے ایک
زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگاتے ہیں تو پردہ نشین زیر لب مسکرادیتے
ہیں۔انہیں اس بھاری پن کی حقیقت کا خوب پتہ ہے۔غیر مستحق لوگوں کو مسلط
کرنے والے ریاست کی بے توقیری کی بھلا کب پرواہ کرتے ہیں۔انہیں تو اپنے
مفاد سے غرض ہے۔زرداری منصوبے کے ثمرات آج بھی وصولے جارہے ہیں۔ جناب
زرداری نے بلوچستان میں جو انقلاب دکھایا تھا۔پردہ نشینو ں کے لیے باعث
اطمینان تھا۔جنرل الیکشن کے بعد سے بھی جناب زرداری مسلسل وہی کچھ کررہے
ہیں جوپردہ نشینوں کی طلب ہوتی ہے۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف نے پی پی قیادت کی طرف سے نیب پرتنقید کرنے کے
بیان پر رد عمل دے دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نیب پرویز مشرف نے بنایا
تھا۔اسے باقی رہنا چاہیے۔ہم بھگت رہے ہیں ہیں باقی بھی بھگتیں۔ہم نے ملک سے
اندھیرے ختم کیے۔امن لائے ۔اس کا صلہ ہمیں جیلوں میں ڈال کردیا جارہا
ہے۔یاد رہے پی پی قائد آصف زرداری نے الزام لگایا تھا کہ نیب نوازشریف نے
بنایا تھا زرداری کے خلاف مگر آج خود بھگت رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادت
کا رویہ جزباتیت کا عکاس ہے۔پی پی قیادت محض اس لیے نیب کی مخالفت کررہے
ہیں کہ جناب زرداری کے متعدد دوست نیب کے ہاتھوں پریشانی سے گزر رہے
ہیں۔تقریبا ہر دوسرے معاملے کا ا کھرا جناب زرداری کی طرف نکل رہا ہے۔وہ
انہی مشکلات کو دیکھ کر نیب کا خاتمہ ہونے کے متمنی ہیں۔سابق وزیر اعظم
نوازشریف کی طرف سے نیب کے قائم رکھے جانے کا بیان ان کے اندر پائے جانے
والے انتقامی جزبے کو عیاں کررہا ہے۔دراصل وہ بالواسطہ اپنے مخالفین کو
تنبیہ کررہے ہیں کہ باز آجاؤ کل کو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔دونون بڑی
جماعتیں غیر حقیقی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔احتسابی ادارے کا وجود ناگزیر
ہے۔اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی پرسش لازم ہے۔یہ درست ہے کہ نیب نامی
موجودہ احتسابی ادارہ مشرف دورمیں بنا مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ
نہیں ہے۔ہر حکومت میں احتسابی عمل کسی نہ کسی نام سے جاری رہتا ہے۔ایوب خاں
۔بھٹو ۔ضیاء الحق دورمیں بھی احتساب وپرسش اپنے اپنے رنگ میں جاری رہج۔بے
نظیر اورنوازشریف دورمیں بھی احتساب کاعمل اپنے اپنے انداز میں کیا گیا۔
بیسیوں لوگ نااہل ہوئے ۔حوالات اورجیل بھجوائے گئے۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے
اداروں سے کبھی بھی مثبت کام نہیں لیا جاسکا۔ہر حکومت نے ایسے ادارے سے
مخالفین کی چھٹی کروائی۔ادارے ناکام رہے مگر اس کی وجہ ادارے نہیں انہیں
چلانے والے بنے۔جنہوں نے اپنے منصب سے بے وفائی کی ۔حکم کے غلام بنے
رہے۔ادارے کبھی بھی خود مختار نہیں رہے۔ آج بھی ہدایا ت پر عمل ہورہاہے۔یہ
کبھی بھی ازخود کوئی شیڈول بنانے اور اس پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔ ہمیشہ
حکمرانوں کے زیر تسلط رہا۔زیادہ ترنے مخالفین کی سرکوبی کے لیے استعمال
کیا۔جوکرپٹ تھے انہوں نے اسے غیر فعال رکھا۔کچھ حکمران بزدل نکلے اس کا
فائدہ نہ اٹھا سکے۔کچھ حکمران مصلحتاچپ سادھے رہے۔کچھ بھی ہواب تک احتسابی
ادارے سے کبھی بھی صحیح کام نہیں لیا جاسکا۔اس ناکامی کا سبب احتسابی ادارے
نہیں بلکہ حکمران ہیں۔
آج احتسابی ادارے پوری طرح متحرک نظر آرہے ہیں۔یہ تھریک تو خوش کن ہے مگر
تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ تحریک ادارے کے اندرکی بجائے باہر سے دلائی جارہی
ہے۔ بد نیتی صا ف جھلک رہی ہے۔یہ ادارے آج کچھ لوگوں کے اصل چہرے چھپانے کا
وسیلہ بن رہے ہیں۔کچھ مکروہ چہرے چھپ کر کام کرنے کے عادی ہیں۔یہ آج بھی
احتسابی اداروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مقاصد پانے میں لگے ہوئے
ہیں۔اداروں سے آج بالکل ناجائزاور غلط کام لیا جارہاہے۔ کچھ لوگوں کو سبق
سکھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اورکچھ لوگوں کومسٹر کلین کی چٹ دینے
کے لیے۔آج بھی اداروں کا مطمع نظر ریاست کا وقار نہیں نہ عوام کی
بھلائی۔اگر کوئی مقصد ہے تو زیادہ سے زیادہ تابعد اری دکھانا۔ آج کا سب سے
بڑا ٹارگٹ نوازشریف ہیں۔ان کے خلاف روزانہ کی بنیا د پر پیشیاں ترتیب دی
جارہی ہیں۔اول تو کہیں سے ریلیف مل ہی نہیں رہا۔بھولے سے کہیں مل جائے تو
چار کھڈے اور کھدوادیے جاتے ہیں۔نوازشریف کے علاوہ باقی سب کو مہینوں سالوں
تک طلبی کی چھوٹ ہے مگران کے خلاف کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جارہے
ہیںیہی نہیں ان کے خلاف کیسز کے فیصلے جلد کرنے کے باربار حکم نامے جاری
کروائے جارہے ہیں۔نوازشریف واحد ٹارگٹ ہیں۔اداروں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی
ہے۔آج ادارے بڑے متحرک نظر آتے ہیں۔اداروں مین بیٹھے کچھ لوگ بڑی اچھل کود
دکھارہے ہیں مگر کوئی بھی مطنئن نہیں ہوپارہا۔ نہ عوام کو اطمینان ہے نہ
دنیا اعتبار کررہی ہے۔نوازشریف کے پیچھے اداروں کو لگانے والے اس لیے غصے
میں ہیں کہ وہ پتلی تماشے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہورہے۔بات اگر یہی تک
رہتی تو شاید نہ بگڑتی۔ایک نوازشریف کے انکار سے کچھ فرق نہیں پڑتا ایک فوج
میسر ہے ۔ضمیر فروشوں کی۔جو خدمت گاری پر آمادہ ہیں۔اصل مسئلہ نوازشریف کی
طرف سے اس پتلی تماشے کو ختم کرنے کی تمناہے۔پتلی تماشے والے کسی طور
دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔باقی سب طرف سے اطینان کرلیا جاچکا۔سب تابعدار
ی پر آمادہ ہیں۔نوازشریف آخری رکاوٹ ہیں۔جسے روندنے کے لیے پورازور لگایا
جارہاہے۔ |