خلیج تعاون کونسل کے 39ویں سالانہ اجلاس میں کئی اہم
فیصلے کئے گئے۔خلیج تعاون کونسل کا ایک رکن ملک قطر بھی ہے ۔ سعودی
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جی سی سی کے سالانہ سربراہی اجلاس میں
امیر قطر کو بھی مدعو کیا تھا لیکن امیر قطر نے وزیر خارجہ شیخ خالد بن
احمد آل خلیفہ کو اجلاس میں روانہ کیا کیونکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی
ممالک نے گذشتہ سال قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے اور قطر کو سعودی
عرب نے ایک جزیرہ میں تبدیل کردینے دھمکی دی تھی۔ جی سی سی سربراہ سالانہ
اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں خطے کو در پیش چیالنجس سے نمٹنے کیلئے
کونسل کے رکن ممالک کے درمیان اتحاد اور اس کے مشترکہ کردار کی ضرورت پر
زور دیا گیالیکن اس موقع پر قطر سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوئی بات
نہیں کی گئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جی سی سی کے سیکریٹری جنرل عبداللطیف
الزیانی نے سعودی دارالحکومت الریاض میں کونسل کے اختتامی اجلاس کے بعد
نیوز کانفرنس میں سات نکات پر مشتمل اعلامیہ جاری کیا۔انہوں نے کہا کہ
کونسل کے مقاصد کے حصول کیلئے ایک نقشہ راہ وضع کیا جائے گا۔اس کے تحت رکن
ممالک کے شہریوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔خطے میں سکیورٹی
میں اضافہ کیا جائے گا اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جی سی سی کے
کردار میں اضافہ کیا جائے گا۔اجلاس میں شریک جی سی سی کے رہنماؤں نے رکن
ممالک کے درمیان اقتصادی سمجھوتے کی تصریحات پر جامع عمل درآمد کی ضرورت پر
زور دیا اور بالخصوص مشترکہ معاشی منڈی کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے حائل
رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پربھی زور دیا۔ جی سی سی کی قیادت کے ویڑن کے
مطابق ایک نقشہ راہ وضع کیا جائے گا تاکہ تنظیم کے رکن ممالک کے عالمی
برادری کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دیا جاسکے اور شہریوں کی امنگوں کے
مطابق ترقی اور خوشحالی کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔خطے کی سلامتی اور ا
ستحکام کو مضبوط بنایا جاسکے اور جی سی سی کے رکن ممالک کے علاقائی اور بین
الاقوامی سطح پر کردار میں اضافہ کیا جاسکے۔جی سی سی کے رکن ممالک کے
درمیان 2025ء تک معاشی اتصال وارتباط کیلئے بروقت اقدامات کیے جائینگے اور
اس ضمن میں معاشی سمجھوتے کی تصریحات پر عمل درآمد کیلئے ضروری قانون سازی
کی جائیگی۔جی سی سی کے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے شعبے میں مشترکہ فوجی
کمان کے کمانڈر کا تقرر کیا جائے گا۔خلیجی ریاستوں کے سربراہان مشترکہ فوجی
قیادت کو فعال کرنے کیلئے تمام ضروری طریقہ کار کو جلد سے جلد مکمل کرینگے۔
جی سی سی کی قیادت خطے میں سکیورٹی اور استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے
کونسل کے بنیادی کردار کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔دہشت گرد تنظیموں سے جی سی
سی کی ریاستوں کے درمیان مربوط سکیورٹی کے ذریعے نمٹا جائے گا۔انتہا پسند
نظریے کی بیخ کنی کیلئے دین اسلام اور مصدقہ عرب روایات پر مبنی اعتدال
پسندی، رواداری ، اثباتیت اور انسانی حقوق کے اقدار پر زور دیا جائے
گا۔دہشت گردی اور اس کے ذرائع کے استیصال کے لیے عالمی برادری میں جی سی سی
کے شراکت داروں سے مل کر کام کیا جائے گا۔خطے کے ممالک کی دولت اور وسائل
کو نقصان پہنچانے والی ملیشیاؤں اور دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ کیا جائے
گا۔ جی سی سی کی قیادت کونسل کے منشور پر مبنی ایک مشترکہ اور فعال خارجہ
پالیسی اختیار کرنے پر زور دیتی ہے۔ وہ فلسطینی کاز کی حمایت کا اعادہ کرتی
ہے اور فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ جی سی سی کے
رہنماؤں نے کونسل ، اس کے دوست ممالک اور دوسرے علاقائی نظاموں کے درمیان
تزویراتی شراکت داری اور اقتصادی اور ثقافتی تعاون کو مضبوط بنانے کی ہدایت
کی ہے تاکہ خطے میں سکیورٹی اور استحکام کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔ انھوں نے
اسلامی اور عرب اقدار کے تحت اپنی انسانی ذمے داری سمجھتے ہوئے جی سی سی کے
رکن ممالک کی جانب سے دنیا کے غریب ممالک میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر
امدادی کاموں کے لیے مالی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ قیادت
نے جی سی سی کے رکن ممالک ، کاروباری شعبے ، خواتین اور خلیج خاندان اور
غیر سرکاری تنظیموں کے کونسل کی کامیابیوں کے تحفظ کے لیے اہم کردار کی
اہمیت وضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ کونسل کی قیادت کی جانب سے جاری
کردہ قراردادوں اور ہدایات پر عمل درآمد کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا
ہے۔امیر قطر کی سالانہ سربراہی اجلاس میں غیر موجودگی پر بحرین کے خارجہ
امور کے وزیر نے تنقید کی ۔ گذشتہ سال قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر و دیگر ممالک کے فیصلہ نے قطر کی
اقتصادی پارلیسی کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ
سعودی عرب کی جانب سے قطر کو ایک جزیرہ بنادینے کی دھمکی اور پھر اسکی
معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ فضائی حدود پر بھی مکمل پابندی کے باوجود قطر
کوکمزور نہیں کرسکی بلکہ قطر ان حالات کا مقابلہ کیا اور اس نے اپنا انسانی
حقوق کا ریکارڈ بھی بہتر کیا ہے۔ 25لاکھ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک نے
تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے نکلنے کا اعلان کرکے سعودی عرب
اور دیگر سفارتی تعلقات منقطع کرنے والے ممالک کو کڑا جواب بھی دیا ہے۔ یہی
وجہ ہوسکتی ہیکہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے قطر کے امیر کو جی سی سی سالانہ
سربراہی اجلاس میں خصوصی دعوت دی ۔ انہوں نے اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے
اپنے وزیر خارجہ کو روانہ کیا۔ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی
کا آغاز مصر میں صدر محمد مرسی کو 2013میں فوجی بغاوت کے ذریعہ عہدے سے
ہٹادیئے جانے کے بعد ہوا۔ قطر تیل اور گیس سے ملنے والی بے شمار دولت سے
دنیا بھر میں سرمایہ کاری کررکھی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دنیا کے کئی
بڑی کمپنیوں میں قطر کی حصہ داری ہے یہی نہیں بلکہ نیو یارک کی ایمپائر
اسٹیٹ بلڈنگ، لندن کے سب سے اونچے ٹاور دی شارڈ، اوبر اور لندن کے
ڈیپارٹمنٹ اسٹور ہیرڈس میں قطر کے سلطان کی حصہ داری ہے ۔ قطر ایئر ویز
دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار کی جاتی ہے۔ اور 2022کا فٹبال عالمی کپ
قطر میں ہی منعقد ہونے والا ہے جس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس طرح قطر عرب
دنیا کا پہلا ایسا ملک ہے جو اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کرے گا۔ قطر کی
خوشحالی کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق قطر فی شخص جی ڈی
پی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق قطر ان
پابندیوں کی وجہ سے اور مضبوط ہوا ہے کیونکہ اس نے اپنی پوری توجہ بین
الاقوامی سرمایہ کاری میں لگائی ہے۔سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا سعودی واقعی
قطر کو ایک جزیرہ میں تبدیل کردے گا اور اگر ایسا کرنے کی سعودی عرب کوشش
کی تو اس کے خلاف عالمی سطح پر کس قسم کا ردّعمل ہوگا یہ تو آنے والا وقت
ہی بتائے گا کیونکہ ممتاز صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر
عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب قطر کے ساتھ ایسی
حرکت نہ کرے۰۰
توانائی کے شعبے میں سعودی عرب کی ایک اہم پیشرفت
شہزادہ محمد بن سلمان ویژن 2030کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جس طرح مملکت
سعودی عربیہ میں سعودی شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی سعی کررہے
ہیں اور ملک میں مختلف طریقوں سے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے عملی اقدامات
کررہے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی شاہ سلمان انرجی پارک (سپارک) کا منصوبہ
ہے جس کے پہلے مرحلے کا سنگِ بنیادولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے رکھ دیا
ہے۔ یہ منصوبہ مشرقی صوبے کے شہر دمام اور الاحساء کے درمیان واقع ہے۔
ـذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزیر توانائی اور قومی ائیل اینڈ گیس کمپنی
آرامکو کے چیئرمین خالد الفلیح نے تقریب ِسنگِ بنیاد کے موقع پر کہا کہ
سپارک ایک خصوصی اقتصادی زون ہوگا۔ اس منصوبے کے نمایاں خصوصیات بتاتے ہوئے
انہو ں نے کہا کہ سپارک مملکت کے ویژن 2030کے تحت وضع کئے گئے منصوبوں میں
سب سے اہم ہے۔ اس سے مملکت سعودی عرب کو عالمی سطح پر توانائی کے شعبے میں
اہم مقام حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس روزگار کے ہزاروں مواقع فراہم
ہونگے۔ تقریب کے موقع پر سعودی آرامکو کے صدر اور سی ای او امین ایچ نصر نے
کہاکہ شاہ سلمان توانائی پارک سے ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور یہ خطے
کی معیشت میں مرکزی گیٹ وے کا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپارک
میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے منتظر ہیں، اس منصوبے کی تکمیل کے
بعد ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سالانہ چھ ارب ڈالرز کا
اضافہ ہوگا اور بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار کے کم ازکم ایک لاکھ مواقع
پیدا ہونگے۔ سپارک 50مربع کلو میٹر پر محیط توانائی کا ایک بڑا منصوبہ ہے
جس کا پہلا مرحلہ 2021میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر
ہے کہ مملکت میں سعودی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے دیگر ممالک سے
روزگار کے سلسلہ میں آئے ہوئے ہزاروں تارکین وطنوں کو نوکریوں سے نکال دیا
جارہا ہے اور انہیں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بھی باقی ہیں اور ان میں بعض
تارکین وطن ایسے بھی ہیں جن کے اقاموں کی مدت ختم ہوچکی ہے اور پاسپورٹس
بھی انکے پاس موجود نہیں ہیں اگر ہیں بھی اقاموں کی مدت ختم ہونے کی وجہ
انہیں ہزاروں ریال جرمانے ادا کرکے اپنے ملک واپس ہونا ہوگا جس کی وہ
استطاعت نہیں رکھتے۔ اس سلسلہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ
محمد بن سلمان خصوصی توجہ دیں اور ان ہزاروں تارکین وطنوں کو انکے اپنے ملک
واپس ہونے سے پہلے انکے تمام بقایاجات ادا کرنے کے ان کمپنیوں کو احکامات
جاری کریں اور واپسی کے بھی انتظامات کریں۔
سعودی عرب میں 2020سے ٹول ٹیکس کا نفاذ
2020سے سعودی عرب میں ٹول ٹیکس کا نفاذ عمل میں لایا جارہاہے۔ مملکتِ سعودی
عرب میں ٹول ٹیکس نہیں لیاجاتا تھا اب جبکہ ویژن 2030کے تحت ملک بھر میں
کئی طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور معیشت کے استحکام کیلئے مختلف طریقے
اپنائے جارہے ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی 2020سے ٹول ٹیکس کا نفاذ بھی شامل
ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر نقل و حمل ڈاکٹر نبیل العامودی نے عندیہ دیا
ہے کہ 2020ء کے اوائل سے ٹول ٹیکس کا نفاذ شروع کردیا جائیگااس سلسلہ میں
ایوان شاہی سے منظوری لی جائیگی۔العامودی نے مشرقی ریجن میں 9ہائی ویز کے
افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی سے باہر
شاہراہوں کی ذمہ داری تبدیل ہوگی۔6شاہراہیں ٹول ٹیکس کیلئے متعین کردی گئی
ہیں۔
امریکی دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ
سوپرپاور امریکہ ، ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرکے عالمی سطح پر دیگر
ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے لیکن یورپی وزرائے خارجہ نے امریکی
دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک بار پھر ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی
معاہدے کو یورپ کی سلامتی کیلئے انتہائی اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔ ایرانی
ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن وزیر خارجہ ہیکوماس نے برسلز میں یوروپی وزرائے
خارجہ کے اجلاس کے موقع پر کہا کہ ایران کے ساتھ طے پانے والا جوہری معاہدہ
یورپ کی سیکیوریٹی کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر خاجہ بلجیم ڈیڈیئررینڈرز
نے بھی کہا ہیکہ یورپی ممالک جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے آگے کی جانب
قدم بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔یورپی یونین کے 28رکن ممالک کا اجلاس برسلز
میں منعقد ہوا جس میں ایران کے ساتھ مالیاتی لین دین کے خصوصی یورپی نظام
کے بارے میں بات چیت کی گئی۔ جرمنی اور فرانس نے امریکی حکام کے دباؤ کے
باوجود ایران کے ساتھ یورپی یونین کے خصوصی مالیاتی نظام ایس پی وی کی
میزبانی پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایس پی وی نظام پر جلد ہی
عملدرآمد شروع ہوجاتا ہے تو اسکے فوراً بعد 9دیگر یورپی ممالک بھی اس نظام
میں شامل ہوجائیں گے۔ ویسے ایران قدرتی تیل اور گیس کیلئے اہمیت کا حامل
ملک ہے ۔ امریکی دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ کئی ممالک اپنے تعلقات کو
توڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ایران قدرتی تیل اور گیس کی پیداوار کیلئے اہمیت
کا حامل ملک ہے اور اس سے کئی ممالک جڑے ہوئے ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ امریکہ
یورپی یونین کے خلاف کس قسم کا برتاؤ کرتا ہے۰۰۰
اقوام متحدہ میں امریکہ کی ایک اورناکامی
امریکہ کی جانب سے حماس کے خلاف قرار داد ناکام ہوچکی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے جنرل اسمبلی میں اسلامی
تحریک مزاحمت حماس کی مذمت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام بنائے جانے کا خیر
مقدم کیا ہے۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں
کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے خلاف پیش کی
گئی قرارداد کی ناکامی فلسطینی سفارتی کامیابی ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک
آزادی کو عرب ممالک اور پوری مسلم دنیا کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔احمد
ابو الغیط نے کہا کہ امریکہ کی حماس کے خلاف قرارداد غیر متوازن اور من
گھڑت دعووں پر مشتمل تھی۔ اس میں کئی بڑے برے سقم (نقائص)اور مغالطے موجود
تھے۔ اس میں صہیونی ریاست کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے
ہتھکنڈوں کی مذمت کی گئی تھی۔واضع رہے کہ چند روز قبل امریکہ نے جنرل
اسمبلی میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس کی مذمت کیلئے ایک قرارداد
پیش کی تھی تاہم وہ قرارداد ناکام ہوگئی۔عرب لیگ نے کہاہے کہ جنرل اسمبلی
میں امریکی قرارداد کی ناکامی اور آئرلینڈ کی فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت
میں قرارداد کی کامیابی قابل تحسین ہے۔ عالمی برادری کو فلسطینیوں کے حقوق
اور ان کے منصفانہ مطالبات کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔فلسطینی عوام پر
صیہونی مظالم کے باوجود امریکہ فلسطینی عوام کو موردِ الزام ٹھہرانے کی
کوشش کررہاہے جبکہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ظلم و بربریت کے خلاف سخت
کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
اسرائیل کولبنان کی حزب اﷲ کا خوف
فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والا اسرائیل حزب اﷲ کے خلاف کئے
جانے والے آپیریشن کو پیچیدہ بتاتا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر
تعلیم نفتالی بینیٹ کا کہنا ہیکہ ’’شمال کی ڈھال‘‘آپریشن آسان کام نہیں
بلکہ یہ ایک پیچیدہ آپریشن ہے۔ لبنان کی سرحد پر جاری یہ آپریشن کئی ماہ تک
چل سکتا ہے۔اسرائیلی کابینہ کی داخلہ وسیکیورٹی کمیٹی کے رکن نے کہا کہ حزب
اﷲ کہ کی سرنگوں کے خلاف آپریشن انجینئرنگ کا پیچیدہ آپریشن ہے۔ جیوش ہوم
کے چیئرمین اور وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ حزب اﷲ نے سرنگوں
کو جنگ کے ایک حربے کے طور پر اختیار کیا ہے اور وہ سرنگوں کے ذریعے اپنے
جنگجوؤں کی بڑی تعداد اسرائیل میں داخل کرنا چاہتی تھی۔بینیٹ کا مزید کہنا
تھا کہ حزب اﷲ کے پاس ایک لاکھ 40 ہزار میزائل ہیں۔ وہ اگرچہ پیچیدہ نہیں
مگر صہیونی ریاست کی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔اس طرح حزب اﷲ کی طاقت
اور اسکی جنگی حربوں سے اسرائیل خوف کھایا ہوا ہے ۔
*** |