ایسا بھی ہوا اور خوب ہوا کہ پیار ہو گیا کسی لڑکی سے جس
کو پہلے سے کسی سے پیار تھا یا منگنی کی وجہ سے ہو گیا ہو گا جس کا حامد کو
بعد میں پتہ چلا مگر سانولی سے اُس کی محبت کم نہ ہوئ بلکہ اور زیادہ بڑھ
گئ۔
شروع میں تو یہ بات اُس کے لئے تکلیف دہ تھی لیکن محبت کا پانی حالات کے
حساب سے اپنا راستہ بناتا گیا اور آخر کار ایسی شکل اختیار کر گیا جو خود
حامد کے لئے بھی حیرت کا باعث تھا ۔
اپنے منگیتر اور رشتہ داروں کی وجہ سے جب وہ حامد سے زرا کتراتے لگی اور
حامد کی محبت اس اذیت سے اپنے کو کتروانے لگی تو اس غم سے گزر کر جو شکل
اُس محبت نے اختیار کی وہ بے غرض بھی تھی اور وہ ایسی ہار میں بدل گی جو
جیت پر بھی بھاری تھی ۔
کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا
کس محبت سے ہار مانی ہے
اپنی قسمت پہ ناز کرتا ہوں
جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں
حامد پہلے تو اُس کے لمبے لمبے فون برداشت نہیں کر پاتا تھا اور اب وہ فون
کرنے پر خود اسرار کرتا اور اُن کے درمیان کوئ غلط فہمی یا لڑای ہوتی تو وہ
رنجیدہ ہو جاتا تھا ۔ اور اُن کو پھر سے ملانے کے جتن شروع کر دیتا ۔ بس وہ
اُس کو خوش دیکھنا چاہتا تھا ۔
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے
وہ بہت خاموشی سے سانولی کے دل میں رہنا چاہتا تھا اور اُس کی کوئ خدمت کر
کے اُسے خوشی محسوس ہوتی ۔
پہلے جس کو اپنی بات منوانے کا جنون ہوتا تھا اب وہی سانولی کی بات مانے
میں لزت محسوس کرنے لگتا اور اس کی پریشانی میں دل بھرنے لگتا اور کچھ نہ
کچھ اُس کے لئے کرنے لگتا۔
اُسے ہر اُس چیز سے لگاؤ ہوجاتا جو سانولی اپنے دل سے لگا کر رکھتی خواہ وہ
اُس کا موبائل ہو یا منگیتر ، اُس کا چھوڑا ہوا دوپٹہ ہو یا اُس کا پالا
ہوا کبوتر۔
نہ جانے انجانے میں اُسے کیسی محبت سے پالا پڑا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہا
تھا کہ اُسے محبت کا سبق پڑھایا جارہا ہے یا کسی امتحان سے گُزارا جا رہا
ہے یا کسی گزشتہ عمل کا مکافاتِ عمل ۔ وہ کیفیت جو بھی تھی جیسی بھی تھی وہ
اُس کا عادی ہو چُکا تھا۔
وہ ماضی کا پچھتاوا اور مستقبل کے اندیشے دونوں سے بے نیاز اس نئے حال میں
بے حال اور ہر چیز سے آزاد اس نئ قید کے جال میں خوشی خوشی جینے لگا اور
پیار کے خطرناک نشے کو پینے لگا جس کا آغاز تو ہو چُکا تھا مگر انجام کی
کوئ خبر نہ تھی۔ لیکن اتنا محسوس ہوا کہ وہ خُدا سے قریب ہو گیا ہے اور دل
کا غریب ہو گیا ہے اور محبت سمیٹنے کے بجاے بانٹنے کے فن سے کچھ کچھ آشنا
سا ہو گیا ہے۔
|