محقق۔ مصنف اور کالم نگار جناب محمد صدیق چغتائی نے اپنے
ایک حالیہ کالم میں آزاد کشمیر کے عدالتی نظام پر تبصرہ کیا ہے چغتائی صاحب
کا شمار آزاد کشمیر کی ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جو کسی کی بلا وجہ حمایت
یا مخالفت نہیں بلکہ مفاد عامہ کے لیے قلم اٹھاتے ہیں۔ ایسی ہی اصلاحی
شخصیات کی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ محمد صدیق چغتائی کے
ساتھ میری پہلی ملاقات سن اناسی میں یورپ کے لیے وطن چھوڑتے ہوئے راولپنڈی
میں اس وقت او ر اس عمر میں ہوئی جب زندگی کا نصب العین میرے سامنے اتنا
واضع نہیں تھا لیکن چغتائی صاحب کی مشفقانہ گفتگو اور انداز ہمیشہ میرے
ساتھ رہا۔ یورپ میں چار سال گزارنے کے بعد زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا
۔ میں تحریک آزادی کشمیر سے منسلک ہو گیا۔ اس دوران برطانیہ میں بھارتی
سفارتکار مہاترے کو مقبول بٹ شہید کی جان بخشی کے لیے کشمیری نوجوانوں نے
پکڑ کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ ایک
کشمیری نوجوان کے ہاتھوں مہاترے قتل ہو گیا ۔ قتل کے فوری بعد وہ نوجوان
برطانیہ سے فرار ہو گیا اور ہم تین ساتھیوں کو سازش میں گرفتار کر کے خفیہ
سزا دی گئی۔ مہاترے کیس برطانیہ کی تاریخ کا ایک ایسا عجیب کیس تھا جس میں
جج کے بجائے وزیر داخلہ نے ہم کو سزا دی اور اسے بھی منظر عام پر لانے سے
انکار کر دیا گیا جسکی وجہ ہمارے خلاف ناکافی شوائد ہونے کے باوجود بھارتی
اور برطانوی حکومتوں کے درمیان طے پایا کہ مجھے اور میرے ساتھی ریاض ملک کو
تا مرگ جیل میں رکھ کا یورپ میں بسنے والے کشمیریوں کو ڈرانے کے لیے نشان
عبرت بنایا جائے۔ اس دوران ہمارے اکثر سیاسی مائرین یہ مشورہ دیتے تھے کہ
ہم برطانوی حکومت سے ٹکرانے کے بجائے کوئی معافی تلافی کا راستہ نکالیں
لیکن ہمارے اندر حریت پسندی کی جڑ اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ ۔ حق و باطل کی
اس جنگ میں بلیک میلنگ کو ہم توئین سمجھتے تھے۔ حق کو اس وقت فتح نصیب ہوئی
جب ہم نے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں رٹ دائر کر کے موقف اختیار کیا
کہ عدالت جو سزا دے گی قبول کریں گے لیکن وزیر داخلہ کی طرف سے ایک دن کی
سزا بھی قبول نہیں۔ اتنے میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں بھارت
کی خوشنودی کے لیے یہ بیان دیا کہ مہاترے ایک عام سفارتکار نہیں بلکہ
انتہائی اہم دوست بھارت کا سفارتکار تھا۔ میں نے فوری یہ بیان برطانیہ کے
لارڈ چیف جسٹس صاحب کی توجہ میں لاتے ہوے کہا کہ جناب آپ دیکھیں ہم پہلے ہی
کہتے تھے کہ ہمیں ایک انسان کے قتل کی سزا نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر سزا
دی جا رہی ہے۔ ہمارے کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران جج برسٹو کی ہمارے خلاف
جانبداری ہر ایک کو صاف نظر آ رہی تھی لیکن برطانوی عدلیہ کی اس خوبی کا
بھی اعتراف کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ جب حکومت نے ہمیں خیراتی وکلاء کی
سہولتوں سے محروم کر دیا توہم نے لارڈ چیف جسٹس سے خط و کتابت شروع کر دی
اور جناب لارڈ چیف جسٹس نے یہی نہیں کہ ہمارے ساتھ خط و کتابت جاری رکھی
بلکہ جب وہ مطمئن ہو گے کہ ہمارے کیس میں قانونی جان ہے تو انہوں نے ہمیں
غیر معینہ مدت تک خیراتی وکلاء مہیا کیے۔ اس جنگ میں مجھے ۲۲ سال لگ گے۔
بری ہو کر جب میں وطن واپس آیا تو راولپنڈی ایک ولیمے کی میز پر میں اور
چغتائی صاحب اکھٹے ہو گے ۔ چھبیس سال قبل چغتائی صاحب جوان تھے اور میں
جوان ہو رہا تھا اب میری جوانی کا سورج بھی غروب ہو رہا تھا اور چغتائی
صاحب بزرگوں میں داخل ہو چکے تھے۔ تھوڑے بہت اندازوں کے بعد ہم نے ایک
دوسرے کو پہچان لیا۔ چغتائی صاحب کے تحقیقی کام کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی
تب سے ہم رابطے میں ہیں۔ مذکورہ بالا کالم میں چغتائی صاحب لکھتے ہیں کہ
بعض اوقات آزاد کشمیر کی عدلیہ اچھے فیصلے بھی کرتی ہے لیکن اس میں تسلسل
قائم نہیں رہتا۔ وہ موجودہ چیف جسٹس جناب آفتاب تبسم علوی صاحب کی صلاحیتوں
سے کافی متاثر نظر آتے ہیں اور ان سے عدالتی اصلاحات کی توقع رکھتے ہیں۔
میرا بھی موقف ہے کہ اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی کے دوران صرف عدل کرنا
کافی نہیں بلکہ نظام عدل کو درست کرنا ضروری ہے مثال کے طور پر ایک اچھے جج
کے سامنے جب کوئی کیس جائے تو شاید وہ اچھا فیصلہ کر دیں لیکن اگر عدلیہ
بطور ادارہ مضبوط نہ ہو تو پھر منصفانہ فیصلوں کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔
اس وقت ہمیں سب سے بڑا جو مسلہ درپیش ہے وہ ہے ایگزیکٹو اور عدلیہ کے
درمیان اختیارات کا مسلہ۔ اکثر معاملات میں ایگزیکٹو کی مداخلت ہوتی ہے
جسکی وجہ سے عدلیہ اگر کوئی فیصلہ کر بھی دے تو عمل در آمد نہیں ہوتا۔
دوسرا اگر کوئی شہری حکومت کے خلاف شکایت کرتا ہے تو حکومت عدالت کو جواب
ہی نہیں دیتی یا کیس کو لٹکائے رکھتی ہے جس کی ایک حالیہ مثال میری رٹ ہے
جو میں نے مطالعہ جموں کشمیر کو نصاب میں شامل کروانے کے لیے کی تھی یہ رٹ
کوئی تین ماہ قبل جناب چیف جسٹس ہائی کورٹ آفتاب تبسم علوی صاحب نے منظور
کی تھی لیکن چار پیشیاں گزر جانے کے باوجود حکومتی نمائندہ ابھی تک حاضر
نہیں ہوا عدلیہ کو فریقین کی حاضری کو یقینی بناتے ہوئے کیسوں پر فیصلوں کے
لیے ٹائم فریم مقرر کرنا چائیے۔ ہمارے ہاں فریقین مر جاتے ہیں اور کیس چلتے
رہتے ہیں۔ وکلاء انصاف دلانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن انکی اکثریت بھی کیسوں
کو بلا وجہ لٹکانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کرتی ہے لہذا ججز صاحبان کو
چائیے وہ وکیلوں کو تاخیری حربے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ کچہریوں میں
رشوت کے نت نئے طریقے ایجاد ہوتے رہتے ہیں جسے ہمارے کلچر میں قطعی معیوب
اور برا تصور نہیں کیا جاتا۔ ہماری عدالتوں میں سماعت اردو میں ہوتی ہے اور
اعلی عدالتیں اکثر فیصلے انگلش میں لکھتی ہیں جنکا ترجمہ کروانے کے لیے
فریقین کو غیر ضروری اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ طریقہ انتہائی
مضحکہ خیز ہے۔ برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے مجھے معلوم ہے کہ صرف
عدلیہ ہی نہیں ہمارے اکثر اداروں کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہیں ہوتی جس پر
کسی کو شرمندگی نہیں ہونی چائیے کیونکہ انگلش ہماری مادری زبان نہیں ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ بیان اردو میں اور فیصلہ انگلش میں کیوں لکھا جاتا ہے؟
مظلوم ہر جگہ ہر ادارے میں خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ مظلوم کو بعض اوقات
پولیس بھی اپنے اخراجات پر جائے حادثہ پر لے جانی پڑتی ہے جیسا کہ یہ ریاست
کی نہیں بلکہ پرائیویٹ پولیس ہے۔ ایک دفعہ ایک ادمی کوجعلی چیک دینے کے جرم
میں عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ اسے تھانے لے جاؤ تو راستے میں پولیس
افسران ملزم سے کہنے لگے کہ وہ انکا بھی اور اپنا بھی کرایہ دے اس بگڑے
ہوئے نظام کی اصلاحات کا عمل راتوں رات تو مکمل نہیں ہو سکتا لیکن توقع کی
جاتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اصلاحات کی ایسی بنیاد یں قائم کر
جائیں گے جن پر بہتری کا عمل جارہی رہ سکے گا اور عام شہریوں کے لیے نظام
عدل آسان اور قابل رسائی بنائیں گے۔
|