کراچی کی سیاست ہمیشہ سے ہی مزاحمتی اور پاکستان کے
دوسروں میٹروپولٹن شہروں سے الگ رہی۔ ایوب خان ا ور ضیاء الحق کی آمرانہ
حکومتوں کے خلاف جدوجہد میں قائدانہ کردار رہا ۔ لیکن شہر میں لسانی اور
فرقہ ورانہ تقسیم کو بھرپور انداز میں سیاسی طریقے سے استعمال کیا اور شہر
کی ترقی کو الٹا گئیر لگادیا گیا ۔شہر کی تباہی کی ایک لمبی کہانی ہے ۔
لیکن آج بات ہے2018 کے عام انتخابات اور ایم کیو ایم لندن کی سیاست سے چھٹی
کے بعد کراچی کی جب سیاست کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے ۔ بانی متحدہ کاووٹ
بینک گذشتہ انتخابات میں شامل نہیں جس کی وجہ سے ناصرف ٹرن آؤٹ کم رہا بلکہ
ایک بڑی تعداد نئے چہروں کے ساتھ کراچی کا مینڈیٹ لے کر قومی اور سندھ
اسمبلی میں پہنچی ۔تحریک انصاف کے ارکان نے متحدہ قومی موومنٹ کے متبادل کے
طور پر سامنے آئے جبکہ کچھ حصہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے پاس بھی رہا ۔
ٹی ایل پی کی شکل میں نیا چہرہ سیاسی انداز میں متعارف ہوا ۔کراچی میں ووٹ
حاصل کرنے کی تعداد لاکھوں میں رہی یہ کراچی میں جے یو پی اور بعد میں سنی
تحریک کا تسلسل ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ حالیہ گرفتاریوں اور آپریشن کے بعد
لگتا نہیں کہ کہ ٹی ایل پی مستقبل میں کراچی کی سیاست میں کوئی بڑا کردار
حاصل کرسکے گی ۔سیاسی طور پر عوام کو وراث ٹی ایل پی کی شکل میں نہیں مل
سکتا ۔اب ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اب بھی بانی متحدہ کے سحر سے باہر نہیں نکل
سکے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما دست وگریبان ہیں فاروق ستار
پارٹی سے فارغ ہونے کے بعد بھی کسی مردے میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے دکھائی
دیتے ہیں موجود الیکشن میں جو چار نشستیں ملی ہیں اگلی بار شاید وہ بھی
ہاتھ آتی دکھائی نہیں دے رہیں ۔ اب سوال یہ کہ کراچی کی سوا کڑوڑ عوام کا
مستقبل میں وارث کون ہوگا ۔عوام کو سمجھ نہیں آرہا لیڈر شپ کے اس قحط سالی
کو کیسے گذاریں کس پر بھروسہ کریں ۔ پی ٹی آئی کی نئی آنے والی قیادت تو
شاید اب تک شہر کی سیاست کے ساتھ ساتھ اس کے جغرافیہ کو سمجھنے کی کوشش
کررہی ہے ۔ کام کرنے کے لئے میدان میں آئیں گے تو پتا چلے گا کہ شہر کا بڑا
حصہ دیگر ادارے بھی کنڑول کرتے ہیں جن کے بنے بورڈ ریاست کے اندر ایک ریاست
کی حیثیت رکھتے ہیں شہر میں پانی ۔۔ سیوریج ۔۔ اور کچرے کے مسائل پہاڑ جیسے
دکھائی دے رہے ۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں ۔ سندھ حکومت پیپلزپارٹی کی ہے تو
لیاری سے چئیرمین بلاول بھٹو کی شکست کے بعد اب شہر میں دلچسپی کس حد
ہوسکتی ہے یہ بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ لہذا حالیہ جاری تجاوزات کے
خلاف آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور ہنماؤں کے کنفیوژ سیاست سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ انھیں خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا چاہتے
ہیں ۔ فاروق ستار اور جماعت اسلامی کے کے ایم سی بلڈنگ ایم اے جناح روڈ پر
ہونے والی سیاست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ شہر اپنی لاوارث ہونے کی
جتنی دوہائی دیتا تھا اس برس تو سچ میں یتیمی کے دن دیکھ لیے اور اب آگے
یہاں کے باسیوں کو کوئی اُمید بھی نظر نہیں آتی کہ وہ کونسی جماعت کے مسیحا
ہونگے جو اس شہر کے دکھ کو سمجھ سکے گے۔کیوں اب اس میں کونسی اچھنبے کی بات
ٹھہری ۔چلو اب 2018 کے الیکشن میں کراچی میں ووٹنگ کا ٹرن آوٹ ہی دیکھ
لیں۔کراچی کے عوام سیاست دانوں سے کس حد تک بدظن ہیں اس کا اندازہ کراچی
میں ووٹو کے ٹرن آؤٹ سے کیا جاسکتا ہے 2013 میں جو کہ55 رہا اور اس سال کم
ہو کر فقط40 رہ گیا۔پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سب سے غیر
یقینی صورتحال کراچی کی تھی۔سندہ صوبائی اسمبلی میں پاکستان کا قانون ساز
ایوان ہے جس کا دارلحکومت کراچی میں واقع ہے ۔یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل
106 کے تحت قائم کی گئی۔اس ایوان کی 168 نشستیں ہیں جن میں سے 130 پر براہ
راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 38نشستیں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں
کے لئے مخصوص ہیں۔سندہ اسمبلی کی 129 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی 76
نشستیں حاصل کرکے پہلے نمبر پہ رہی جب کہ تحریک انصاف 23 نشستوں کے ساتھ
صوبے کی دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری ۔ایم کیو ایم پاکستان16نشستوں کے
ساتھ تیسرے نمبر پر رہی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائینس صرف 11 نشستیں حاصل
کرسکا۔سندہ اسمبلی تک کوئی بھی آزاد امیدوار رسائی حاصل نا کرسکا تاہم
تحریک لبیک پاکستان 2 اور متحدہ مجلس عمل نے ایک نشست حاصل کی۔
ایم کیوایم دھڑوں میں بٹ چکی تھی ۔پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی آگئی تھی ۔پی
پی کی رہنماوں کی کارکردگی نے خود ہی عوام کے دلوں کا راستہ بن کردیا تھا ۔مصطفی
کمال کی پاک سر زمین پارٹی بہت سے اُمیدیں لے کر میدان مارنے کا خواب دیکھ
رہی تھی ۔ٹی ایل پی کا وہ اثر نظر نہیں آتا تھا جو بعد میں ثابت ہوا۔اور اس
تمام سیاسی جنگ میں کہیں نا کہیں فتح جماعت ِ اسلامی کی نظر آتی تھی لیکن
جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے تجربے کو آزماء رہی تھی ۔لیکن ساری پیشن
گوئیاں اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئی اور ووٹوں کا ٹرن آؤٹ48.11 فیصد
رہا۔کراچی میں آپریشن اور سیاسی تبدیلوں کے بعد ان انتخابات میں مذہب اور
مسلک کی بنیاد پر سیاست کے رنگ کو دیکھا گیا۔3 دہائیوں تک شہر پر راج کرنے
والی ایم کیو ایم دھڑے بندیوں کی وجہ سے نمایا ں مقام حاصل نا کرسکی۔وزارت
عظمی کے امیدوار تین سیاسی جماعتوں کے سربراہان عمران خان،بلاول بھٹو
زرداری اور شہباز شریف نے کراچی سے انتخاب لڑا لیکن کامیابی صرف عمران خان
کو ملی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اہم پارٹیوں کے سربراہان کوبھی کراچی کی
اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔نومولود جماعت پاک سر زمین پارٹی کو عوام نے مکمل
طور پر مسترد کردیا۔تحریک انصاف نے کراچی سے 14نشستیں جیتی ۔سوال یہ ہے کہ
کراچی کی سیاست کو بلا شرکت غیرے چلانے کے دعویدار کہاں ہیں۔
کراچی کے عوام سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ناجائز تجاوزات ختم کرنے
کی مہم میں کچلے جارہے ہیں اور اب انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ فریاد لے کر
جائے تو کہاں جائے۔کچھ کردیکھانے کی جستجو میں مئیر کراچی واضح منصوبہ بندی
کئے بناء ہی کراچی کے عوام پر چڑ دوڑے ۔شہر کے اہم تجارتی مراکز اور سڑکوں
ایمپریس مارکیٹ بولٹن مارکیٹ اور لی مارکیٹ سے ہوتی ہوئی یہ مہم اب شہر کی
رہائشی بستیوں تک پہنچ گئی ہے۔یہ بحث اپنی جگہ کہ یہ صحیح کیا جارہا ہے یا
نہیں البتہ جن لوگوں کا کاروبار اکھاڑ پھنکا گیا ان کے لئے متباد دل جگہ کی
فراہمی بہرحال انھیں کی ذمہ داری تھی جو اپنا نام سنہری حروف میں لکھے جانے
کے لئے اتاورے ہورہے ہیں۔منصوبہ بندی کے فقدان کے ساتھ جس طرح یہ سب کیا
جارہا ہے یقینا کراچی کے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔اور یہ بے چینی جرائم
میں اضافہ میں سبب بن کر مستقبل میں سامنے آئے گی۔پی پی کی حکومت پچھلے دس
سالوں سے سندھ پر حکمرانی کررہی ہے لیکن مجال ہے کہ کراچی کے حوالے سے بھول
کر ہی کچھ سوچا گیا ہے۔2008 سے اب تک سندہ حکومت کراچی میں کوئی نئی ہاؤسنگ
اسکیمیں نہیں بنا سکی ۔سو یہی ہونا تھا جو ہوا کچی آبادیوں اور بے ہنگم
تجاوزات کا دیو کراچی کو نگلتا رہا شہر بد صورت ہوتا گیا اور ہوتا ہی گیا۔
کبھی یہ شہر بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا ۔پھر اس شہر میں بستیاں بسانے اور
آباد کاری کے نام پر جو کچھ ہوا وہ زمینوں کی لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہ
تھا۔اس صورتحال کے ساتھ قرینے کے اس شہر کو بری طرح بدنظمی کا شکار کردیا
گیا۔مختلف اداروں میں بٹے ہوئے اس بدقسمت شہر میں منصوبہ بندی نام کی کوئی
چیز آپ کو نظر نہیں آئے گی۔
بجلی اور گیس کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس حد تک بلند عمارتیں بننی
چاہییں، کتنی بستیاں بسنی چاہیں؟ اس کی کوئی منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں
دے گی۔ ٹریفک کے مسائل اپنی جگہ کسی آدم خور دیو کی طرح کراچی میں بسنے
والوں کو کھا رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس شہر نے کیا نہیں دیکھا۔
لسانی فسادات سے لے کر مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، بھتے کی پرچیاں، بھتا
نہ دینے پر ملنے والی لاشیں، ہڑتالوں کے باعث کاروبار کا پہیہ جام کرنے کی
سازشیں، ٹارگٹ کلنگ سے لال ہوتی سڑکیں، اغواء برائے تاوان کام کرتے گروہ
غرض اس شہر کے باسیوں پر ہر قیامت گزر چکی ہے۔
سندھ حکومت کی طرف سے وفاق سے اپنے حصہ کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے اور کیا
جاتا رہا ہے لیکن بجٹ منظوری کے بعد بھی پچھلے دس سالوں سے سندھ حکومت نے
کراچی کی ترقی سے لاپرواہی برتی، اور اگر چند سکے خرچ کر بھی دیے جائیں تو
اس میں کام سے زیادہ تشہیری عوامل کر مدِنظر رکھا جاتا ہے۔کراچی میں بسنے
والے مہاجرین کی ہمیشہ حق تلفی کی گئی جس کے نتیجہ میں لسانیت کی بناء پر
قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کے عوام کی ہمدرد ی حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئی۔مہاجروں کی پہچان بنے والا کراچی وفاق کے بجٹ کا67 فیصد حصہ
دیتا ہے یہ وہی کراچی ہے جو کہ سونے کی کان کی طرح سندہ کے بجٹ کا97 فیصد
حصہ پورا کرتا ہے ۔یعنی صوبہ سندہ کراچی کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے ۔اس سب
کے باوجود یہ شہر مسائل کا شکار اور تباہی سے دوچار ہے ۔کراچی سے محبت کا
ڈھونگ رچاتی سیاسی جماعتوں نے کراچی کوکھنڈر بنانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی
۔
کراچی میں پیدا گیری کے مواقعے کھل جائے تو ہر جماعت بہتی نئیا میں ہاتھ
دھونے آجاتی ہے کہ ہمارا حق پہلے ہے کیوں کہ ہم ہی کراچی کے اصل حق دار
ٹھیرے لیکن جب مسائل کے حل کی بات ہوتو کراچی اندھیر نگری چوپٹ راج کی منہ
بولتی تصویر نظر آتا ہے۔
گلی محلے کے مسائل ہوں یا کسی بستی اور گاؤں کے معاملات، کوئی قبیلہ ہو یا
کمیونٹی، انسانی فطرت اور ہماری سماجی اور اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے کہ ہم
کچھ لوگوں کو چُن کر انھیں اپنے فیصلوں کا اختیار دے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ
ہوتے ہیں جنھیں متعلقہ انسانی گروہ میں سب سے زیادہ عقل مند، دیانت دار،
بالغ نظر، جرأت مند اور قیادت کے لیے دیگر خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
ان سے سنجیدگی اور بردبادی کی توقع کی جاتی ہے۔ انھیں رول ماڈل سمجھا جاتا
ہے۔ قبائلی معاشرے سے جدید جمہوریت تک دنیا کے ہر خطے میں یہی روایت رہی
ہے۔لیکن افسوس ہمارے یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔
سندھ پر حکومت کرتی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب کی
تقریریں اس بات کا کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سند اور کراچی کے عوام کے لیے
مخلص ہیں، لیکن فقط تقریروں سے نظام درست نہیں کیے جاسکتے۔ ذوالفقار علی
بھٹو کی تقریریں آج بھی لوگوں کے کانوں میں گونجتی ہیں، پرویز مشرف جب
تقریر کرتے تھے تو ان سے بہتر لیڈر کوئی معلوم ہی نہیں ہوتا تھا اور اب
عمران خان صاحب کی خوب صورت تقریر نے عوام کو حالات بہتر ہونے کی نوید دی
ہے۔ لیکن کیا کراچی کے عوام جو یہ سمجھتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا
ہے کیا ٹھیک ہوگیا؟
اس وقت کراچی کے عوام سوالیہ نظروں سے مرکزی حکومت کو دیکھ رہی ہے کیونکہ
صوبائی حکومت سے تو کسی خیر کی امید نہیں ۔کراچی کے مسائل کا بہت بڑا حل
یہاں پر کسی ایک مستحکم سیاسی جماعت کاہونا ہے جو اس شہر سے مخلص ہو کر کام
کرسکے۔کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنے مقررہ وقت میں کراچی میں بلدیاتی
انتخابات کروانے میں کامیاب ہوسکے گی جبکہ موجودہ حکومت پہلے ہی بہت سے
مسائل سے دوچار ہے۔اور ان حالت میں جبکہ ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے
مئیر کراچی کے حوالے سے شہر کے مکینوں کو بہت سے تحفظات ہیں ایسے حالات میں
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کس پارٹی کا مئیر کراچی کے عوام کے دلوں میں
جگہ بنا سکے گا ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت ہی د ے گا۔ |