آپ دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں کے محرکات کا جائزہ لیں
، ہر قسم کی کتابیں پڑھ لیں ، عالمی منظر ناموں پر غور و فکر کر لیں ،
فلاسفروں ، دانشوروں اور نقطہ دانوں کے لکھے اقوال بغور پڑھ لیں تو بے
ساختہ کہہ اٹھیں گے کہ اکثر جنگیں ظالم اور مظلوم ،حاکم اور محکوم کے
درمیان ہیں کہ جن کے پس پردہ ’’روٹی ‘‘ کا مسئلہ ہے ۔بظاہر جو اس مسئلے سے
بے نیاز نظر آتے ہیں درحقیقت ان کے بھی صبح و شام اسی کشمکش میں گزرتے
ہیں۔۔تبھی تو بابا بلھے شاہ نے کہا تھا کہ :
’’دیکھ بندیاں آسماناں تے اُڈدے پنچھی دیکھ تے سہی کی کر دے نیں
کدی کسے نے پنکھ پکھیرو پھکے مردے ویکھے نیں
بندے ہی کر دے رزق ذخیرہ بندے ہی پکھے مردے نیں ‘‘۔۔من و سلوی لینے سے
انکار کے بعد انسان اسی روٹی کی تلاش میں خوار ہو رہا ہے اور یہ تلاش اسے
اتنا بھٹکاتی ہے کہ بالآخر وہ خود کھو جاتا ہے کیونکہ انسان کو راستے میں
آنے والا پہاڑ نہیں تھکاتے لیکن جوتے کے اندر پڑا کنکر نڈھال کر دیتا ہے
اورزندگی تو ہر لمحہ آزمائش ہے پھر بھی اپنی اور اپنوں کی بھوک مٹانے کے
لیے چلنا پڑتا ہے اورسالک نے کیا خوب کہا تھا کہ:’’تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
! ۔۔تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘انسان کی بنیادی تگ و دو اسی روٹی کے لیے ہے
۔ماں کی گود سے لیکر لہد تک روٹی کا ہی جھگڑا ہے اور اسی انسانی مجبوری کو
بنیاد بنا کر حاکمیت کے دلدادہ انسانوں پر حکومت کرتے ہیں حالانکہ ’’جمہوری
نظام ‘‘ انسانی گروہوں کو بد انتظامی ،نا انصافی اور دھونس و زبردستی سے
بچانے کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر غریب پروری اور ہمدردی کے دعوے دار اسے
بطور ہتھیار استعمال کرنے لگے اور بے ثباتی میں گم حاکم حاکمیت کے تکبر کے
نشے میں اس قدر چور ہوئے کہ اپنی آخرت بھلا بیٹھے اورایک ایسا طبقہ وجود
میں آگیا جو کہ ایسے نا عاقبت اندیش شعبدہ بازوں کو ’’لبیک ‘‘ کہتااور
مفادات کے حصول کے لیے غلامی میں عافیت سمجھتا اور یوں یہ لوگ مضبوط سے
مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور اپنا آپ غلامانہ ذہنیت پر یوں مسلط کر دیا کہ
خود ہر آئین و قانون سے بالاتر ہوگئے جبکہ عقل و فہم سے عاری اذہان پر علم
و ہنر کے دروازے بند کرکے انھیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر قدرتی آسائشوں
کو بھی زیر دام کر دیا ۔
آپ کسی بھی دنیاوی کامیاب لیڈر کی زندگی سامنے رکھ لیں ‘غریب کی غریبی
مٹانے کا نعرہ لگانے والا ہی نامور ٹھہرا ۔چلیں ۔۔ہم تاریخ کے ابواب نہیں
پلٹتے اور ماضی قریب میں ہی جھانک لیتے ہیں۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ
ذوالفقار علی بھٹو آج بھی عوام الناس میں مقبول ہیں حالانکہ وہ نہ ہی غریب
تھے نہ غریب پرور مگر انھوں نے جب ’’روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تو
پاکستان کے طول و عرض پر چھا گئے اور اسی دن سے پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں
حکمرانی ہی کر رہی ہے یہ الگ بات کہ 2018 کے انتخا بات میں پیپلز پارٹی نے
روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ہی تبدیل کر دیا اور اسے ’’بھوک مٹا ؤ پروگرام
‘‘ کا نام دے دیا ۔یعنی وعدہ پھر روٹی کا ہے مگر روٹی صرف بلاول ہاؤس اور
زرداری ہاؤس میں باقاعدگی سے پکتی ہے جبکہ سندھ کے بیشترحصے قحط زدہ ہیں
اور تھر میں تو موت ناچتی ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی خوشحال پاکستان کا
نعرہ لگایا لیکن ستاروں پر کمندیں ڈالتے رہے اور انسان سسک سسکتے
رہے۔پاکستان کی ساٹھ دہائیوں کے نیم خواندہ اور بے روزگارافراد کی آہ وبکا
دیکھ کر عمران خان نے بھی پریشان حال پاکستانیوں کو سو دن کا خواب دکھایا
اور وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی کی من مانیاں اور نادانیاں دکھا کر عوام کو
ہمنوا بنایا تو عوام الناس نے انھیں بھاری مینڈیٹ دے دیا مگر عوام کو کرپشن
کے خلاف جہاد کے اعلان کے سوا تقریباً کچھ نہ ملا اور بعض موقع پرست
دانشوران نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان نے قوم سے ایک ہی وعدہ کیا
تھا کہ ’’میں انھیں رلاؤنگا ‘‘ تواس نے رلا دیا ہے اور سب کا حقہ پانی بند
کر دیا ہے ۔یہ لوگ قوم کے مجرم ہیں جوکہ حقائق کو مسخ کر کے اپنے مفادات
حاصل کرتے ہیں اور جب ان پر گرفت ہوتی ہے تو چیختے ہیں کہ آزادی رائے کا
نعرہ جھوٹ ہے ۔آزادی رائے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ رائے عامہ اپنے
حق میں ہموار کرتے ہوئے ملک و قوم کا چہرہ مسخ کر دیں اور حکمران کو روز
آخرت سے غافل کر دیں ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کو ’’سو دن کا خواب ‘‘ (بے
روزگارکو روزگار اور بے گھر کو گھر مہیا کرنا) ایفائے عہد کے لیے سو دن کم
تھے اوراس مبالغہ آرائی سے کافی خفت بھی اٹھانا پڑ رہی تھی مگر سعودیہ اور
چین سے کامیاب دوروں کے بعد وزیراعظم کے جو بیانات سامنے آرہے ہیں ان میں
پر امیدی اور استقامت واضح دیکھی جا سکتی ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے
کہ چین اور سعودیہ نے بحران سے نکال دیا ہے ،ہم نے پاکستان کو اڑھائی ماہ
میں ڈیفالٹر ہونے سے بچا لیاہے ،حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی
ہے ، کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ، یہ بھی کہا کہ میں دس روز میں غربت
کے خاتمے کے لئے بڑے پیکج کا اعلان کرونگا ،کرپشن کے بڑے انکشافات کرونگا
،ایسی فلاحی ریاست بنائیں گے جس کی مثال دی جا سکے ۔یقینا باتیں نئی نہیں
ہیں اور چند دن پہلے تک تو تبدیلی سرکار نے بھی رونا دھونا شروع کر دیا تھا
کہ پچھلی حکومت کچھ نہیں چھوڑ کر گئی اور ملک دیوالیہ ہو چکا ہے ۔حالانکہ
ایسے بیانات مڈٹرم میں سننے کو ملتے تھے کیونکہ ابتدائی تین مہینوں کو کسی
بھی نئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ کہا جاتاتھا ۔اس کے بعدحکمران کشکول اٹھا
کر دیس بدیس پھرتے اور عطیہ یا قرضہ حاصل کرتے ۔تاہم تحریک انصاف حکومت نے
آغاز میں ہی دوست ممالک سے امداد لیکر اپنی بوکھلاہٹ ، جھنجلاہٹ اور
مخالفین کی جانب سے ہونے والی طعنہ زنی پر قابو پا لیا ہے اور محسوس ہو رہا
ہے کہ گھر بنانے کانعرہ ، اب نعرہ نہیں رہا بلکہ وزیراعظم نے بے گھر اور بے
سہارا لوگوں کے خوابوں کو تعبیر دینے کا آغاز کر دیا ہے اور وزیراعظم نے
لاہور میں شیلٹر ہوم منصوبے کاسنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ
اب دیگر شہروں میں بھی جلد از جلد ایسے شیلٹر ہومز بنائیں جائیں گے اور
اپنے خطاب میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم وسائل نہیں احساس کمتری
کا شکار ہیں ۔گھر پچاس لاکھ بنیں یا پچاس کروڑ بس بے سہارا اور بے گھروں کو
تن ڈھانپنے کو کپڑا ، سر چھپانے کو چھت اور پیٹ بھرنے کو روٹی ملنی چاہیے
اور اگر حاکم واقعی غریب پرور ہو تو جانتا ہے کہ غریب کو ان باتوں سے غرض
نہیں کہ حکمران کیسے زندگی گزار رہا ہے یا اس کی کابینہ کہاں سے علاج کروا
رہی ہے محکوم کو اپنی بنیادی سہولیات زندگی کی فوری دستیابی سے غرض ہے مگر
ہمارے ہاں تو روزانہ نت نئے تماشے سامنے آجاتے ہیں اور مدت اقتدار نان
ایشوز کی نظر ہو جاتی ہے
ق لیگی قیادت کی جہانگیر ترین سے ملاقات کی ویڈیو نے نام نہاد ہنگامہ برپا
کر رکھا ہے ۔ محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری برادران اختیارات میں بھر پور حصہ نہ
ملنے پر ناراض ہیں بریں وجہ جان بوجھ کر ویڈیو لیک کروائی گئی ہے ۔ ڈرائنگ
روم ویڈیو لیک ہونا اچھنبے کی بات ہے کیونکہ پرانے سیاستدان ایسی سازشیں
کرتے ہی رہتے ہیں جو کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتیں کیونکہ وہی سیاستدان
کامیاب ہوتا ہے جو سیاسی میدان کا بہترین فنکار ہو تو ایسی کارکردگیوں سے
واضح ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں دراڑ پڑ رہی ہے ۔ویسے بھی وزیراعلیٰ
پنجاب اور ترقیاتی فنڈز بارے تو تمام عہدے داران کو پہلے دن سے بلاوجہ
تحفظات ہیں مگروزیراعظم عمران خان کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں ہیں یہی وجہ
ہے کہ چودھری پرویز الہی اور چودھری سرور کے درمیان عدم اطمینان ظاہر کر کے
وزیر اعلیٰ کوـ’’ ہائی لائیٹ‘‘ کیا گیا ہے ۔ اب وزیراعلیٰ ٹھہرے اﷲ میاں کی
گائے اور اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر جہاندیدہ سیاستدانوں نے پتہ پھینک دیا
ہے ۔ خاور گھمن نے تو سیاسی ٹاک شو میں وزیراعلیٰ پر تنقید کے جواب میں
انتہا کر دی کہ’’ صحافیوں اور سیاستدانوں میں سے کونسا ایسا ہے جس پر الزام
نہیں ہے تو اس بات کو ایک طرف رکھ دیں ۔۔وزیراعلیٰ نے ماسٹرز کیا ہوا ہے
،قانون کی ڈگری پاس ہے تو کیا اب الٹ بازیاں لگانی شروع کر دیں ،وہ ایک
سادہ سنجیدہ شخص ہیں مگر با اختیار ہیں اب چیف منسٹر ہاؤس میں جو فیصلے
ہونگے ان پر انھی کے دستخط ہونگے‘‘ ۔۔یہ وہ بیانات ہیں جو وزیراعلیٰ کی
حمایت میں حکومتی ترجمان روازنہ سیاسی ٹاک شوز میں دیتے ہیں۔ یقینا
وزیراعلیٰ کی سادگی کاعالم یہ ہے کہ علامہ اقبال کے مزار پر حاضری پر انھوں
نے صرف دستخط کئے اور بعد ازاں مشیر کے کہنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے
ہوئے تاثراتی کتاب میں لکھ دیا کہ ’’مجھے علامہ اقبال کے مزار پر آکر خوشی
ہوئی ہے ‘‘۔خاموش نہ رہنے والے صحافی اور سیاستدان مزید تلملا اٹھے ہیں
لہذااس معاملے پر سنجیدگی سے غورو فکر کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے اکثر
لکھاری وزیراعظم کے اس فیصلے پر متفکر ہیں ۔ایسے معاملات پر اور موجودہ
حالات پر چوہدری فواد حسین کی میڈیا ٹاک سن کر تو ہمیشہ وہ اندھا یاد آجاتا
ہے جو تھانے گیا اور انسپکٹر سے التجا کرنے لگا کہ مجھے نوکری پر رکھ لیں
۔۔انسپکٹر کو غصہ آگیا اور بولا ’’ہم تمھیں کس لیے رکھ لیں کہ یہاں تو
آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں اور تم اندھے ہو ‘‘ اس پر اندھا بولا :’’ جناب
! مجھے اندھا دھند فائرنگ کے لیے رکھ لیں جو پولیس مقابلوں میں ہوتی ہے ‘‘۔
بہرحال سو دن میں تبدیلی کا جو نعرہ لگایا گیا تھا اس پر عملدرآمد کے لیے
تمام سیاسی جماعتوں ، اداروں ،محکموں اور عہدے داران کومنظم کرنے اور ذمہ
داریاں کرسونپنے کی ضرورت ہے اور شیلٹرہومز جیسے منصوبوں کو ایسے افراد کے
سپرد کرنے کی ضرورت ہے جوکہ دیانتداری سے اس کام کو پایہ ء تکمیل تک
پہچائیں ورنہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور دانش سکول جیسے عوامی منصوبے پہلے ہی
ہمارے سامنے ہیں جوکہ تشہیر اور تدبیر کی نذر ہوگئے ۔۔بلاشبہ شیلٹر ہومز
ایک مثبت قدم اور تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے مگر اولین اور بنیادی مسئلہ
روزگارکا ہے لہذا اس کے لیے فوری حکمت عملیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ
عوام الناس میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدم برداشت پر قابو پایا جا سکے
کیونکہ ’’توں کی جانیں یار امیرا ، روٹی بندا کھا جاندی اے ‘‘۔۔ |