شرف الزماں
وہ پاکستانی جو شہری تھے پاکستان کے اور آج بھی شہری ہیں ا ن کو مل نہیں
رہی شہریت آپ ان کے بچوں کو فراموش کر رہے ہو جنہوں نے پاکستان کی وجہ سے
اپنی زندگیاں تباہ کیں آپ ان کو کن وجوہات کی بناء پر پاکستانی نہیں مانتے
؟قومی اسمبلی میں گونجنے والے یہ الفاظ وفاقی وزیربرائے انسانی حقوق محترمہ
شیریں مزاری کے ہیں محترمہ کے ان الفاظ کی گونج بنگلہ دیش کے کیمپوں میں
گزشتہ47برسوں سے محصور پاکستانیوں کی رگ رگ میں اپنائیت گھول گئی ان میں
وطن کی محبت اور وطن لائے جانے کااحساس ایک نئے انداز سے جگاگئی*
16دسمبر1971کو چشم فلک نے ایک درد ناک سانحہـ ''سانحہ سقوط ڈھاکہــ''دیکھا
انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہونے والا واحد اسلامی نظریاتی ملک
پاکستان اپنے قیام کے صرف25 سال بعد ہی دولخت ہو گیا 16*دسمبرہمیں یاد
دلاتا ہے ہمیں اپنی ناکامیوں کو تاہیوں اور ان سے صرف نظر کرنے کی* 16دسمبر
ہمیں جھنجھوڑتا ہے 47برسوں سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور پاکستانیوں کو
نہ لانے پر16*دسمبر ہمیں سبق سکھا تاہے محصورین جیسی حب الوطنی کا 16*دسمبر
ہمیں رلاتا ہے کہ ہم محصورین کو بھول نہیں رہے بلکہ بھول چکے ہیں16*دسمبر
ہمیں بتاتا ہے کہ وطن سے محبت محصورین کی طرز پر کس طرح کی جاتی ہے اپنے ہی
مسلمان اور پاکستانی ڈھائی لاکھ ہم وطنوں کے معاملے میں ہم جس طرح کی بے
حسی اور چشم پوشی اور سرد مہری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے پوری دنیا واقف
ہو چکی ہے دنیا کے مہذب ممالک اس بارے میں ہمارے لئے کیا رائے رکھتے ہیں اس
پر ہمیں یقینا شرمندہ ہوناچاہئے لیکن ہم آج تک شرمندہ نہیں ہیں شرمندہ تو
ہم اس وقت بھی نہیں ہوئے جب2008میں کیمپوں میں محصور پاکستانیوں کی حالت
زار پر ترس کھاتے ہوئے بنگلہ دیشی ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں ان ڈھائی
لاکھ محصورین پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کی شہریت اورووٹ کے حقوق دے دئے
جو1971کی جنگ کے وقت یا تو بچے تھے یا بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد وہاں پیدا
ہوئے تھے بنگلہ دیش کا مندرجہ بالا فیصلہ ہمارے لئے ایک طمانچہ ہے لیکن ہم
نے اس سے بھی کوئی سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی دستاویز ات کے مطابق
بنگلہ دیش کے معاہدے سے شملہ معاہدہ تک یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی
کہ وہاں محصورہو جانیوالے تمام پاکستانیوں کو وطن واپس لاتی یاپھر جتنے
پاکستانیوں نے پاکستان جانے کے لئے بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس میں اپنے
نام درج کرائے تھے انہیں فوری طور پرپاکستانی شہریت کے کاغذات فراہم کئے
جاتے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا پاکستان کی اس وقت کی حکومت یا بعد میں آنے
والی حکومتوں نے اس سنگین قومی مسئلہ کو سنجید گی سے نہیں لیا 2010میں
محصورین کے کیمپوں کی بجلی کاٹنے ،کیمپوں سے محصورین کو جبری بے دخل کرنے
اور دیگر نا انصافیوں کے خلاف عدالت میں محصورین کی جانب سے رٹ داخل کی گئی
جس پر ایک مقامی بنگلالی نے اس رٹ کو چیلینج کر تے ہوئے موقف اختیار کیا کہ
تقریباََ40برس گزر نے کے با وجود یہ اردو بولنے والے پاکستان زندہ باد کا
نعرہ لگاتے ہیں اور بنگلہ دیش کے مخالف ہیں اور ان لوگوں نے1971میں بنگالی
عوام کے خلاف نہ صرف اسلحہ اٹھایا تھا بلکہ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر
بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت بھی کی تھی لہذا انہیں بنگلہ دیش میں رہنے اور
بسنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی انہیں یہاں کوئی بنیادی سہولت ملنی چاہئے
بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور محب وطن پاکستانیوں پر ظلم کی داستانیں تو
بہت طویل ہیں بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی میں تاخیر اور
ان کی موجود ہ کسما پرسی کے ہم سب ذمہ دار ہیں اور اپنے اس عمل کے لئے ہمیں
اﷲ کی عدالت میں جواب دینا ہوگا کیونکہ محصورین اور ان کے آباؤ اجداد قیام
پاکستان سے پہلے پاکستان کے لئے اور قیام پاکستان کے بعد بقاء اور استحکام
پاکستان کے لئے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد نصف صدی سے بنگلہ دیش
میں شناخت پاکستان کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں 47برسوں سے انہوں نے
ہتھیار نہیں ڈالے اور پاکستان کی جانب سے اخلاقی مدد تک نہ ہونے کے با وجود
آج تک پاکستانی پر چم کو سر بلند رکھ کر پاکستان سمیت دنیا بھر کو
باورکرانے میں مصروف ہیں کہ محصورین نے آج بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا
ہے یہ ہے محبت ان محصورین کی پاکستان کے لیے جنہیں ہم بھول چکے ہیں - |