عمران خان کی اپریل 1996 میں پاکستانی سیاست میں آمد کو
ملک کے بدعنوان،جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور موروثی سیاست میں ہوا کے
تازہ جھونکے سے تعبیر کیا گیا اور عوام الناس کو گلے سڑے سیاسی نظام میں
انکی شکل میں نجات دہندہ نظر آیا اور موصوف نے بھی عوام کی نبض کا ادراک
رکھتے ہوئے اپنی جماعت کا نام "تحریک انصاف" رکھا جسکا واضح مطلب عوام کو
اس جبر اور ظلم پر مبنی نظام میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا خان
صاحب کی تحریک میں شامل ابتدائی رفقاء کارمعراج محمد خان، فاروق ایس
اکبر،حسن نثار،نسیم زہرہ،اویس غنی اور انکے ابتدائی سالوں کی سیاست کافی حد
تک انکے اس انصاف اور تبدیلی کے نعرے سے مطابقت رکھتی تھی 1999 میں جنرل
مشرف کے فوجی مارشل لاء کی حمایت عمران خان کے سیاست کی پہلی بڑ ی غلطی تھی
جسکے بعد سے موصوف کی سیاست میں یوٹرنز کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو آج تک
تھما نہیں 2002 میں جنرل مشرف کے غیر آئینی ریفرنڈم کی صرف اس امید پر
حمایت کرنا کہ جنرل صاحب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سیاسی میدان سے نکال
باہر کر دیں گے جس سے انکے جماعت کے لئے سیاسی میدان ہموار ہو جائے گی اور
وہ ملک کے نئے وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئنیگے لیکن الیکشن کے قریب آتے
ہی جنرل مشرف نے اپنے پیشرو جرنیلوں کی طرح دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر
توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ق لیگ کی شکل میں نئ جماعت سامنے لئے آئے بس وہی سے پھر
عمران خان کے موخر الذکر سے راستے جدا ہو گئے اور جس جرنیل کو یہ تین سال
تک قوم کے لیے مسیحا ثابت کر رہے تھے اسی کو سیکیورٹی رسک قرار دینے لگے
مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کے بعد جنم لینے والی تحریک
انصاف کی نئ انگڑائ نے اسے اکتوبر 2011 کے لاہور کے جلسے کے ساتھ مقبولیت
کے بام عروج پر پہنچا دیا بس پھر کیا تھا عمران خان پچھلے پندرہ سال کی
سیاست میں جن کو برا بھلا کہتے رہے اور ملک کے تمام مسائل کے لئیے
موردالزام ٹھراتے رہے انھیں کے لئے پارٹی کے دروازے کھول دئیے گئے اور کچھ
ہی عرصے میں تمام لغاری،مزاری،نیازی، ترین،اعوان پارٹی کا حصہ بن چکے تھے
اور پارٹی فوری طرح سے یرغمال بن گئ تھی اور فیصلہ سازی میں ان لوگوں کو
غالب حیثیت حاصل ہو گئ تھی دھیرے دھیرے کپتان کے اولین ساتھی ان سے دور
ہوتے گئے حسن نثار،نسیم زہرہ، معراج محمد خان، جسٹس وجیہ الدین احمد،تسنیم
نورانی،ایڈمرل جاوید اقبال،جاوید ہاشمی جیسے لوگ یا تو خود پارٹی سے کنارہ
کش ہو گئے یا انکو مجبور کر کے نکال باہر کیا گیا اور اب پارٹی میں شاہ
محمود قریشی، جہانگیر ترین،علیم خان،طاہر صادق،لیاقت جتوئ،ممتاز بھٹو،جمال
لغاری،عمران اسماعیل،فواد چودھری،پرویز خٹک،شفقت محمود،نعیم الحق،سردار یار
محمد رند جیسے روایتی سیاستدان رہ گئے ھیں جو عمران خان کی تبدیلی کے نعرے
کا منہ چھڑا رہے ہیں اس دوران عمران کی سیاست بھی بھرپور تضادات
اور(Uturns) کا مجموعہ رہی جس مشرف کو ایک غیر آئینی take over پہ مسیحا
قرار دیا گیا اور اسکو آئین میں pco کے ذریعے من مانی 29 ترمیمات بشمول
ریفرنڈم کا جواز فراہم کیا گیا اسی مشرف کو 2002 کے الیکشن میں ڈھیل نہ
ہونے پہ تمام برائیوں کی جڑ اور security threat قرار دیا جانے لگا مارچ
2007 میں جس چیف جسٹس افتخار چودھری اور اسکے ساتھیوں کی بحالی کو پاکستان
کے تمام مسائل کا حل قرار دیا گیا 2013 کے الیکشن میں من پسند نتائج نہ آنے
پر اسکو الیکشن کمیشن،نگران وزیر اعلی پنجاب،آرمی چیف اور جیو ٹی وی کے
ساتھ اپنے خلاف گٹھ جوڑ میں برابر کا مورد الزام ٹھرایا گیا اور بد ترین
طعن و تعن تشنیع کا نشانہ اکتوبر 2011 کے لاہور کے کامیاب شو کے بعد سے تو
خان صاحب نے اپنے تمام اصولوں،دعووں اور ترجیحات کو ایسے پاوں تلے روندا
اور اپنے ہر یوٹرن کے لئے ایسی توجیھات پیش کرتا رہا کہ انکی یہ ڈھٹائ بذات
خود باعث شرم ہوتی تھی لیکن اسکو اقتدار کی ہوس میں اس چیز کا ذرا بھی
ادراک نہیں ہوتا تھا 2014 کے دھرنے نےتو گویا عمران خان کی سیاست کے سارے
زیر و بم آشکار کر دئیے چار ماہ تک اسلام آباد کو جس طرح یرغمال بنایا گیا
جسطرح ہر سرکاری عمارت کو تخت و تاراج کیا گیا،جسطرح استعفی دئیے گئے(اور
پھر واپس لئے گئے)جسطرح عوام کو یوٹیلیٹی بلز نہ دینے سمیت ہر قانون شکنی
پہ ابھارا گیا اور امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے کرتے آخر کار
مایوس ہو کر سانحہ اے،پی،ایس کو بہانہ بنا کےجسطرح اس دھرنے کو لپیٹا گیا
اس سب نے عمران کی تبدیلی کی سیاست کو اچھی طرح عوام پہ اشکار کیا یہی نہیں
بلکہ اس دوران خیبر پختون خوا میں اپنی پانچ سالہ دور حکومت کے دوران جس
طرح میرٹ،انصاف،اور احتساب کے تمام دعووں کی خود ہی بیخ کنی کی گئ وہ بھی
کسی روداد سے کم نہیں اور پھر رہی سہی کسر حالیہ انتخابات میں نکالی گئ جب
اقتدار کے حصول کے لئےالیکٹیبلز کو بنیاد بنا کے ہر گندے اور روایتی
سیاستدان کو پارٹی میں شامل کیاگیا جعفر لغاری،سردار یار محمد رند،سکندر
حیات بوسن،نذر محمد گوندل،ڈاکٹر عامر لیاقت،سردار ذوالفقار کھوسہ،عمر
ایوب،چوہدری غلام سرور،ریاض فتیانہ،میجر طاہر صادق،سردار طالب نکئ،رشید
گوڈیل،ان بے شمار کرپٹ اور روایتی سیاستدانوں میں سے چند ایک نام ہیں جنکو
نہ صرف پارٹی میں شامل کیا گیا بلکہ انہیں نظریاتی کارکنوں پہ فوقیت دے کے
ٹکٹ بھی الاٹ کئے گئے اور پھر ان میں سے اکثر کو کابینہ میں بھی شامل کیا
گیا اس سب کا نتیجہ موصوف کی ڈھائی ماہ کی حکومت کی کارکرگی سے خوب اخذ کیا
جا سکتا ہے اور تبدیلی کے غبارے سے اتنی جلدی ہوا نکلے گی اور عوام اتنی
جلدی بیزار ہو جائیں گے کہ دو ماہ بعد ہی منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات
میں انہیں بدترین اور ذلت آمیز شکست سے ہمکنار کریں گے اتنا مجھے بھی یقین
نہیں تھا لیکن عمران خان وژن مناسب پیپر ورک اور باصلاحیت اور نظریاتی ٹیم
نہ ہونے کی وجہ جس بری طرح ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں اور جس طرح اپنے ہر
دعوے کو پاوں تلے روندتے جا رہے ہیں اسکے بعد انکے بہتر مستقبل کے لئے
دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے- |