عنقریب مُلکی سیاست میں ایک بھونچال آنے والاہے اور ہماری
سیاست احتجاجی تحاریک کے ایک نئے اور انجانے راستے کا رخ اختیار کرنے والی
ہے کیو ں کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف
فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز میں فیصلے محفوظ کرلئے ہیں ۔یہ فیصلے24دسمبر
کو سُنائے جانے کا قوی امکان ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر سابق صدر زرداری
کی میگا منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات پر مبنی جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ مکمل
کرکے سُپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے کہاجارہاہے کہ اِسی روز سماعت بھی شروع
ہوگی ۔
اِس صُورتِ حال میں کہاجاسکتاہے کہ نوازاور زرداری کے اچھے دن ختم ہونے کو
ہیں،اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ دونوں نے خود کو اپنے لحاظ سے کرپشن کا
شہنشاہ سمجھ رکھا تھا۔ آخر بکرے کی مَیں کب تک خیر مناتی اِسے ایک نہ ایک
دن توقصائی کی چھری کی نیچے آنا ہی ہوتاہے۔ اِیسی ہی صُورتِ حال سے اِن
دِنوں نواز اور زرداری بھی دوچار ہیں کیوں کہ اِن کی ظاہر او باطن کرپشن کب
تک احتسابی اور اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں کی گرفت سے چھپی رہتی آخر
کار وقت گزرنے کے ساتھ نواز و زرداری خود ہی قانون کی گرفت میں پھنستے
جارہے ہیں۔ آگے آگے دیکھتے ہیں کہ یہ اَب اپنی جانیں کس طرح چھڑاتے ہیں یا
جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔
تاہم ہمارایہ المیہ رہاہے کہ وطنِ عزیز میں پُل اور پَل کا کوئی بھروسہ
نہیں ہے، پُل کب گر جائے ؟ اور پَل میں کیا ہوجائے ؟الغرض یہ کہ دونوں کب
روٹھ جا ئیں کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے، اَب یہ کِسے معلوم تھا کہ پچھلے دِنوں
پَل بھر میں پاکستا نی روپے کی قدر اتنی گرجائے گی کہ ڈالر بے لگام ہوجائے
گا، غرض یہ کہ آج پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں اتنی بے قدری کیا
ہوئی؟ بھلاسارا نظام زندگی ہی تہہ بالا ہوگیاہے ۔ایسا آناََ فاناََ توہونا
ہی تھا،پچھلوں کے کارنامے ہی کچھ ایسے تھے، وہ ہوگیا جس کا خدشہ ظاہر
کیاجارہاتھا ،ڈالر نے روپے کو ایسی پٹخی دی کہ یہ چکراکر رہ گیاہے تب سے
اَب تک روپے کی قدراور کمر پر جتنے خم آئے ہیں۔ وہ تو نظر آرہاہے، بیچارہ
ہماراروپیہ ابھی تک کھڑا نہیں ہوپارہاہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ سمجھ آئی ہے کہ
ماضی کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے خوشامدیوں نے اپنی لوٹ مار میں
مگن رہنے کی وجہ سے اِس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ ڈالرکے مقابلے میں پاکستا
نی روپے کی قدر کس حد تک گرنے کو ہے ۔آج پاکستا نی روپے کا جو حال ہوا ہے۔
یقینا اِس کے ذمہ دار ماضی کے حکمران نوازشریف اور آصف زرداری اور اِن کی
حکومتی پالیسیاں اور حکومتی وزراء ہیں۔ جنہوں نے اپنے اللے تللے اور اپنی
رنگ ریلیوں میں گم رہ کرپاکستانی روپے کی بے قدری میں اپنا حصہ ثوابِ دارین
سمجھ کر ڈٖالا ہے۔ آج جس کا خمیازہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کواپنے
سودِنوں میں دوست ممالک سے اربوں ڈالر ز کی مددلے کراوراپنے مُلک کے غریب
عوام پر بے لگام مہنگائی کے پہاڑ ڈھا کر بھگتاناپڑرہاہے ۔
جبکہ آج ڈالر ہے کہ اِس نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایسی اُڑان بھری ہے
کہ کم بخت آسمان کی بلندیوں کو چھوئے چلاجارہاہے کہیں روکنے کا نام ہی نہیں
لے رہاہے اور ہمارا روپیہ ہے کہ جو زمین کی دھول چاٹ کر اپنا وجود برقرار
رکھنے کی کوشش کررہاہے۔
اِس پرافسوس یہ کہ ساری صُورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے نیپرا نے بھی
بجلی ٹیرف میں اضافے کا بم عوام پر گرانے کا عندیہ دے دیاہے۔ جس کا کہنا ہے
کہ ماہانہ تین سو یونٹس استعمال کرنے والے کے سِوایکساں پاور ٹیرف نظام کا
اطلاق کیا جائے گا۔اِس اقدام سے بجلی مزید مہنگی کردی گئی ہے، یعنی کہ
نیپرانے بجلی کی قیمت میں یکمشت ایک روپے 27پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ
کرلیاہے۔خیال کیا جارہاہے کہ نیپراکا یہ فیصلہ بجلی کی ترسیلانی کمپنیوں کے
مستحکم اکاؤنٹس کی بنیاد پر کیا گیاہے۔مزید یہ کہ مہنگا ئی کے بوجھ تلے
دبتے چلے جانے والے غریبوں کے لئے وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر کا قائمہ کمیٹی
کو بریفنگ کے دوران یہ کہنا بھی اپنے اندر سخت تشویش لئے ہوئے ہے کہ بجلی
مزید مہنگی اور 130ارب کا بوجھ بڑھے گا۔ اُنہوں نے وثوق سے ساتھ یہ بھی کہہ
دیاہے کہ نیپرا کا فیصلہ مالیاتی خسارہ پوراکرنے کے لئے آئندہ ماہ منی بجٹ
لانے اور ٹیکسوں میں اضافے پر غوکیا جارہاہے‘‘ یقینا یہ تلوار بھی تنخواہ
دار غریب سرکاری اور نجی ملازمین پر بھی چلائی جائے گی۔ کیوں کہ یہ تنخواہ
دار غریب طبقہ ایسے مواقع پرہمیشہ حکومتوں کی گرفت میں آسا نی آجاتاہے اِسی
لئے حکومتیں جتنے بھی ٹیکسوں میں اضافے کا پروگرام مرتب کرتی ہیں، یہ اپنے
ٹیکسوں کے اہداف اور بجٹ خسارہ اِس مظلوم طبقے پر ٹیکسوں کے اضافی بوجھ ڈال
کر پورا کرتی ہیں۔ پھر سینہ چوڑا کرکے اور گردن تان کر دعوے کرتی پھرتی ہیں
کہ ہم نے مالیاتی خسارہ اور ٹیکسوں کے اہداف اپنی حکمت سے پورا کرلیا ہے۔
جبکہ ہمارے یہاں ستر سال سے جتنی بھی (سِول یاآمر) حکومتیں آتی رہی ہیں۔ سب
نے ہی اکثر و بیشترتنخواہ دار طبقے کی آمدن میں سالانہ میزانئے بجٹ میں
قلیل (چند سو یا چند ہزارروپے کا) اضافہ کرکے اربوں، کھربوں کا ٹیکس وصول
کیااور اپنامالیاتی خسارہ ختم کیا ہے۔
آج وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں بھی سارے مالیاتی خسارہ تنخواہ دار
طبقے پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر پوراکیا جائے گا ، پھرہمارے وزیراعظم
عمران خان اوروفاقی وزیرخزانہ اسد عمر بھی لہک لہک کر گاتے پھریں گے کہ ہم
نے اپنی حکومت کا مالیاتی خسارہ یوں پورا کیا تویوں اور پوں پوراہے۔
بہر کیف ،یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے معاملات
کچھ سے کچھ بنا کر پیش کئے جاتے رہے ہیں اور کئے جارہے ہیں۔گرچہ، آج کل
بدلاتوکچھ زیادہ نہیں ہے۔ مگر تبدیلی اور بہت کچھ بدلنے کے دعوے بہت کئے
جارہے ہیں ۔
ہاں! اَب ایسا بھی نہیں ہے کہ اگلے وقتوں میں بدلا ہوا پاکستان نظرنہیں آئے
گا۔بس قوم حوصلہ رکھے کہ آئندہ وقتوں میں جو کچھ بھی ہوگا ،بہت اچھا
ہوگا۔آج مُلک اور قوم اپنے اور اغیار کی وجہ سے مشکل وقت سے ضرور گزررہاہے۔
مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم سُرخرو نہ ہوں ۔ہمارے بھی اچھے دن آنے والے ہیں
،اور ہم بھی دنیا کے نقشے پر نئی آب و تاب سے ٹمٹماتے اور جگمگاتے ستارے کی
طرح نمودار ہونے کو ہیں۔اگر آج ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ تو نواز اور زرداری اور
اِن جیسے اِدھر اُدھر کے دوسرے قومی لیٹروں سے چھٹکارہ ضرور پانا ہوگا۔ اِن
سے جان چھڑائے بغیر ہمیں ہماری منزل نہیں مل سکتی ہے ۔
اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ آج بھی بعض اداروں میں اپوزیشن کے پٹھو کلیدی
عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو رواں حکومت کی تبدیلی اور نئے پاکستان کی راہ
میں گاہے بگاہے رغنہ ڈالنے کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔نئی تبدیلیوں کے ساتھ نئے
پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والی حکومت قومی اداروں میں چھپے
بیٹھے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے عناصر کو راہ راست پر لائے۔ تو پھر نئی
تبدیلیوں والے پاکستان کی راہ ہموار کرنے میں بہتری لا ئی جاسکے گی ور نہ
سب محض سیراب اور خواب ہی رہ جائے گا۔
اِس سے اکثر محب وطن پاکستا نی ضرور متفق ہوں گے کہ آج بھی ذراسنبھل کر وہی
سب کچھ کیا جارہاہے۔ جیسا کہ پہلے ہواکرتا تھا ، ایسے میں سسٹم بدلنے والوں
کی سعی تو بہت ہے کہ کچھ نیااوربہت کچھ بہت اچھاہوجائے ۔ مگر یہ بیچارے بھی
کریں تو کیا کریں ؟ کو ئی کام کرنے کا اِنہیں موقعہ ہی نہیں دے رہاہے۔ اگر
میدانِ سیاست کے پرانے کھلاڑی سیاسی کھلواڑ سے باز آجائیں۔ تو نظام بدلنے
والوں کو بھی کچھ موقعہ ہاتھ لگ جائے گا، اور یہ اپنے پروگرام کے تحت مُلک
میں کچھ مثبت تبدیلیوں کے ساتھ نمایاں تبدیلیاں بھی لے آئیں گے ۔مگر ہائے
رے افسوس کہ سیاست کو عبادت کا درجہ دینے کے بجائے، مُلکِ پاکستان میں
کھوسٹ سیاسی پیترے بازوں نے سیاست کو کھیل بنالیا ہے۔
آج جس کا جو جی چاہتا ہے۔ سیاست کا اپنا مطلب لے کر خود ہی معنی نکال
رہاہے۔ اور سیاست جیسی صاف ستھری عوامی خدمت کی عبادت کواپنے سیاہ کرتوتوں
سے داغدار کررہاہے۔ہمارے مُلک میں سیاہ کار سیاسی چالبازوں کے کالے اور
گھناؤنے ، فعلِ شنیع سے سارا سیاسی نظام مکروہ چہرے کے ساتھ بدنماداغ بن
چکاہے۔
غرض یہ کہ ماضی کے کرپٹ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے
خوشامدی چیلے چانٹوں کے گناہِ عظیم کی وجہ سے سیاسی پُل سے پانی بہت اُونچا
ہوگیاہے ۔ احتساب اور اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں کا صبرکا پیمانہ بھی
لبریز ہوگیاہے۔
ایسے میں قبل اِس کے کہ جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرنے والے کرپٹ عناصر
اپنی بچاؤ کے لئے کوئی نیا اتحاد بنائیں۔ مُلک کا بنابنایا اچھا بھلا سیاسی
و جمہوری پُل کسی دھماکے سے گرجائے، اور سارا جمہوری شیرازہ چند قومی چوروں
کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بکھر جائے ۔
اَب اِس نازک گھڑی میں لازمی ہے کہ مُلک میں احتساب،آئین و قانون کا نفاذ
اور اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں کو متحرک ہو کر قومی لٹیروں کا( 24دسمبر
کو اعلیٰ عدالت سے حتمی فیصلہ آنے سے پہلے) کسی اتحاد بننے سے قبل ہی اِن
سب کا قلع قمع کرناہوگا ور نہ ؟ مُلک میں نوازاور زرداری کی گرفتاریوں پر
اِن کے چیلے انارگی اور اشتعال انگیزی کاکوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیں
گے ، تب حکومت کے دامن میں کچھ نہیں آئے گا۔ اِس لئے مُلک میں احتساب اور
آئین و قانون کا نفاذ کرانے اور اِنصاف فراہم کرنے والے قومی اداروں کے
سربراہان کو سنجیدگی سے کرپٹ قومی عناصر سے نمٹنا ہوگا ، یاد رہے کہ اگر
قومی لیٹروں کو متحد ہونے کا موقعہ دیاگیاتو پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ
ہمارے یہاں تو پہلے ہی پُل اور پَل کا بھروسہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اکثر دیکھا
گیاہے اور کھلی آنکھوں یہ مشادہ رہاہے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے
قائدین کے ایک اشارے پر پَل بھر میں سیاسی کارکن مشتعل ہوجاتے ہیں اور پُل
پر دھرنا دے کرپُل اور شاہرائیں بلاک کرکے سارا نظامِ زندگی مفلوج کردیتے
ہیں۔ |