تحریر:عظمیٰ ظفر
آب زم زم کی تھوڑی سی مقدار میں نے گلاس میں نکال کر اپنے چھوٹے بیٹے کو دی
اور اسے آب زم زم پینے کے آداب بتاتے ہوئے کہا کہ اسے پیتے وقت اچھی سی
مانگ کر پی لو تو وہ دعا قبول ہوتی ہے ان شاء اﷲ تعالیٰ۔اس نے خوشی سے گلاس
لیا اور آب زم زم پی کر مجھے واپس کردیا۔ میں نے یونہی اس سے پوچھ لیا کہ
بیٹے آپ نے کیا دعا مانگی؟ معصوم بچے نے انتہائی سادگی سے کہا کہ میں نے
دعا مانگی ہے کہ قیامت جلدی آ جائے ۔مجھے اس کی بات سن کر پہلے تو ہنسی
آگئی جس کا اس نے باقاعدہ برا منایا۔’’امی آپ تو میری دعا پر بھی ہنس رہی
ہیں‘‘، اس نے ناراضی سے کہا کیونکہ اس کی اکثر باتیں اتنی پیاری اور
معصومانہ ہوتی ہیں کہ ہم گھر والے ہنس پڑتے ہیں اور وہ کہتا ہے کسی کی بات
سن کر ہنسنا بری بات ہے۔لیکن یہ بات سچ ہے کہ اسے قیامت کی جلدی ہے، انتظار
ہے۔ اسے حشر کا میدان بھی پتہ ہے جہاں سب جمع ہوں گے دراصل کچھ باتیں تو وہ
اپنے مدرسے میں سنتا ہے اور کچھ باتیں وہ اپنے بڑے بھائی سے سنتا اور
سیکھتا ہے۔
جسے میں قصے کہانیوں کی شکل میں سناتی ہوں جنت کا مزے دار تصور ان کے معصوم
ذہنوں میں اشتیاق کا ایک جہان لیے ہوئے ہے ۔اﷲ سے محبت اور اﷲ کو دیکھنے کا
شوق وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح رکھنا چاہتے ہیں ۔کچھ دن پہلے ہی کسی
چیز کے نہ ملنے پر بڑے بیٹے نے یہ کہہ کر صبر کرلیا کہ آج اگر مجھے یہ چیز
نہیں ملی تو مجھے جنت میں مل جائے گی۔اس طرح کی بہت سی باتیں تھیں جو چھوٹے
بیٹے کو بڑے نے سمجھائی ہوئی ہیں جبکہ وہ خود ابھی سات سال کا بھی
نہیں۔قیامت کا انتظار بھی اسی سلسلے کی کوئی کڑی ہوگی کہ جلدی سے قیامت آئے
اور حشر کا میدان ہو۔حساب کتاب ختم ہو اور وہ جنت میں جاکر اپنی پسند کے
کام کر سکے اور چیزیں لے سکے۔ ان بچوں کو جو قصے انبیاء کے سناتی یوں وہ
یاد رکھتے ہیں۔
اس کی بات سن کر میری سوچوں کا رخ دوسری طرف مڑ گیا کہ میں تو کبھی یہ سوچ
بھی نہیں سکتی کہ قیامت آئے گی اور مجھے مرنا بھی ہے۔ کجا حساب بھی دینا
ہوگا۔اسی بے فکری میں تو ہم زندگی جیے جارہے ہیں۔ زمانے کی فکروں میں گھلتے
جارہے ہیں ہم نے اﷲ سے ملنے کا شوق ہی نہیں رکھا۔ صرف خوف اور ڈر کا تعلق
باندھ کر اﷲ سے اور دور ہوتے جارہے ہیں۔کبھی اپنے بچپن میں ایسی محبت قائم
کرنے والی کہانیاں نہیں پڑھیں،جو انبیاء کی ہیں، صحابہ کی ہیں پڑھتے ہیں تو
بس وہی جنوں بھوتوں والی، سر کٹے شیطان اور برے انسانوں والی طلسماتی اور
دیو مالائی کہانیاں یا پھر خواب و خیال کی تصوراتی ہیرو ہیروئن والی
کہانیاں سینوں پر رکھے سو جاتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے رہتے
ہیں۔
ایک کتاب جسے سال میں ایک مرتبہ زورو شور سے جزدانوں سے نکلتے دیکھا، ہل ہل
کر پڑھا اور پھر اونچے طاقوں میں رکھ دیا اس کتاب کو جسے زندہ کلام القرآن
کہا جاتا ہے، خود اس میں کتنے پر جوش اور پر شوق دلچسپ حقائق ہیں، اسے پڑھا
ہی نہیں، سمجھا ہی نہیں۔اﷲ نے اپنے انعام واکرام کا، اپنے سلام کا وعدہ کیا
ہے جنت کے بالا خانوں کا ذکر ہے، خوان اور پکوان کا ذکر ہے، نہروں اور
میووں کا ذکر یے، الغرض اﷲ کی محبت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ میرا اشتیاق تو
جب بڑھا جب میں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا میں اسی دلچسپی سے بچوں
کو بتاتی ہوں۔ آج بچے جنت میں درخت لگانے کے شوق میں سبحان اﷲ پڑھتے ہیں،
جمعے کو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر تحفے بھیجنے کے لیے خاص طور پر
درود بھیجتے ہیں۔میں سوچتی ہوں فرق صرف بتانے کا ہے شوق اور رغبت دلانے کا
ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے ہم کیا سکھائیں اور کیسے سکھائیں۔ |