عالم اسلام کے دو ممالک تیونس
اور اردن کے بعد اب مصر میں لوگ سڑکوں پر ہیں، قاہرہ کے تحریر چوک میں
لاکھوں لوگوں نے اکٹھے ہوکر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرہ کیا اور مصر کے
لوگوں کی اکثریت حسنی مبارک کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں،
اطلاعات کے مطابق مصری فوج حسنی مبارک کی باعزت رخصتی کے لئے سر توڑ کوششیں
کررہی ہے، میڈیا میں خبریں آنے کے بعد مصر کی اپوزیشن لیڈروں کے امریکہ سے
رابطے اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مصر میں تبدیلی آرہی ہے یا انقلاب،
یہ ہماری بحث نہیں ہے البتہ یہ سوال ضرور اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان
میں بھی مصر کی طرح عنقریب لوگ سڑکوں پر نکلیں گے؟ اگر نکلیں گے تو کس لئے؟
محض چہرے تبدیل کرنے کے لئے یا کسی انقلاب یا کم از کم انقلاب کی راہ ہموار
کرنے کے لئے؟
جہاں تک بات ہے تبدیلی کی تو ہم پچھلے تریسٹھ برس سے بار بار تبدیلی دیکھ
رہے ہیں لیکن اس تبدیلی نے آج تک عوام الناس یا اس دھرتی کو کیا فائدہ
پہنچایا؟ مشرف سے پہلے والی تاریخ کو چھوڑتے ہوئے اگر ہم مشرف کی زرداری سے
تبدیلی کو ہی دیکھیں تو کیا کوئی ذی عقل اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کسی بہتری
کی جانب اشارہ کرسکتا ہے؟ کیا اس تبدیلی سے ہماری قوم کے دکھ درد ختم ہوئے،
کیا وکلا، ججز، میڈیا اور عوام نے جو قربانیاں مشرف کو رخصت کرنے اور اس
ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے دی تھیں اس کا کوئی اجر انہیں ابھی تک مل
سکا ہے؟ اگر نہیں ملا تو کیا ہماری سمت ہی درست ہوسکی؟ مشرف نے جو وعدے
امریکہ سے کئے پاکستان کی بربادی کے لئے کئے تھے ان پر نظر ثانی کی گئی؟
کیا ڈرون حملوں، امریکی ڈکٹیشن اور ہماری پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی
کا دروازہ کھل سکا؟ کیا ہماری موجودہ حکومت مشرف سے بڑھ کر اپنے آپ کو
امریکہ کی تابعدار اور وفادار ثابت نہیں کررہی؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج کا ہر
پاکستانی اپنے دماغ میں ایک ناسور کی طرح لئے پھرتا ہے لیکن اسے کہیں سے
کوئی جواب نہیں ملتا، امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، کسی جانب سے ٹھنڈی
ہوا کا جھونکا نہیں آتا، وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتا چلا جارہا ہے، وہ دن
رات اپنے بچوں کی فکر میں، اپنے گھر کی پریشانیوں میں اور ارد گرد پھیلی
ہوئی کرپشن، لوٹ مار، افرا تفری اور دہشت گردی کے گرداب میں دھنسا چلا جاتا
ہے، اگر کسی سطح پر کوئی تبدیلی یا بہتری آبھی رہی ہے تو وہ انتہائی سست
رفتار ہے ایسے وقت میں کیا محض تبدیلی کافی ہے یا کسی انقلاب کی ضرورت ہے؟
اگر تبدیلی سے گزارا نہیں ہورہا تو کیا ہم کسی انقلاب کے لئے خود کو تیار
کرپائے ہیں؟ کیا ہماری موجودہ سیاسی ، فوجی و مذہبی قیادت میں اتنا دم خم
ہے کہ وہ کسی انقلاب کی راہ ہموار کرسکے؟
جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، تقریباً سب کی سب سیاسی جماعتیں اور ان
کے قائدین کسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں رکھتے اور نہ
ہی ان میں انقلابیوں والی کوئی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ اگر آپ کسی معاشرہ
یا قوم میں انقلاب لانے کی کوشش کرنا چاہتے ہوں تو سب سے پہلے انفرادی سطح
پر کچھ فیصلوں اور ان پر عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے
بڑا مسئلہ معاشیات سے متعلقہ ہے، ایک وقت تھا کہ ہمارا ملک زراعت میں خود
کفیل تھا اور ہمیں زندہ رہنے کے لئے کسی بھی جنس کو باہر سے درآمد کرنے کی
چنداں ضرورت نہ ہوا کرتی تھی بلکہ ہم برآمد کیا کرتے تھے، اب حالات یہ ہیں
کہ آبادی کے تناسب سے ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہے جس کا
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے شمار زرمبادلہ ہم کھانے پینے کی اشیاء درآمد کرنے
پر صرف کردیتے ہیں۔ ہمارے حصے کے دریاﺅں کے پانی ہم تک نہیں پہنچ پاتے ، جو
معدنیات ہمارے ملک میں موجود ہیں وہ ہم خود نہ تو نکالتے ہیں نہ ان سے کوئی
خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں، کس کس بات کو رویا جائے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہر
شہری بس کھانے پینے اور دوا دارو کے چکر میں گھن چکر بن چکا ہے، حکومت ہر
روز نئے قرضے لے کر اپنی عیاشیاں کررہی ہے اور مالی حالات اس نہج پر پہنچ
چکے ہیں کہ اگر ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور امریکہ ”مدد“ کی بھیک نئے قرضوں
کی صورت مہیا نہ کریںتو حکومت کا پہیہ کسی وقت بھی جام ہوسکتا ہے۔ آج کے
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مالی ہے، یقینا اس کی وجوہات کو دور کرکے ہم
اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن اپنے آقاﺅں سے بغاوت کی جرات کس میں ہے؟
پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو حاضر سٹاک میں باقی
بچا کون؟ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر کسی ”رہنما“کی جائیداد
ملک سے باہر ہو، اس کی اولاد یا وہ خود بیرون ملک مقیم ہو، اس کا کاروبار
اور بنک بیلنس ملک سے باہر پڑا ہو تو وہ کس منہ سے انقلاب کی بات کرسکتا ہے
اور اس بات میں کتنا مخلص ہوسکتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے کسی ”راکٹ سائنس“
کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
فوجی انقلاب تو ہم پہلے بھی ”بھگت“ چکے ہیں، اس کو اگر ایک منٹ کے لئے بھول
جائیں تو باقی بچتی ہیں مذہبی جماعتیں اور ان کے راہنما، تو ان کے بارے میں
یار لوگ کہتے ہیں کہ جہاں ایک ایک مذہبی طبقے کی بیسیوں جماعتیں موجود ہوں،
جو لوگ ایک امام کے پیچھے نماز نہ پڑھ سکتے ہوں، جو زکوٰة کے پیسے کھا جاتے
ہوں اور جن کے دلوں میں اللہ کے علاوہ سب کا خوف موجود ہو ، جو جہاد بھی
کریں تو امریکہ اور فوج سے پوچھ کر، وہ بھلا کون سا انقلاب لاسکتے ہیں اور
کیسے؟ اگر بات کریں عدالتی انقلاب کی تو موجودہ عدلیہ جس کو وکلاء اور عوام
نے اپنی قربانیوں سے آزادی دلوائی، اس میں کونسا جج ہے جو انقلاب کا داعی
بن سکتا ہے؟ اگر کسی کے ذہن میں ایسی کوئی بات ہے بھی تو یہ عمل اتنا سست
رفتار ہے کہ شائد کوئی تبدیلی تو آجائے لیکن اگر صدیوں میں آئے تو اس کے
کیا فوائد نکل سکتے ہیں؟ اگر عوام کی بات کریں تو ہمارے ملک میں وہ کونسا
شخص ہے جو اپنے آپ یا اہل خانہ سے آگے کی سوچ رکھتا ہو، یہاں کون موجود ہے
جو ایک صحیح انقلاب کا حامی ہو اور اس کے لئے قربانی بھی دینے کا جذبہ
رکھتا ہو، اپنی جان اور مال کو قربان کرسکتا ہو؟ ایک بہت بڑی تقسیم ہے جس
کا ہم شکار ہوچکے ہیں، اس میں یقیناً ہمارے سیاسی، مذہبی، فوجی اور عدالتی
رہنماﺅں کا بھی ہاتھ ہے لیکن ایک انتہائی اہم اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے
کہ عوام کی ترجیحات میں ملک یا ریاست شامل ہی نہیں ہے، ایسے میں اس قوم کو
ضرورت ہے تو کسی ایسے شخص کی، کسی ایسی جماعت کی، کسی ایسے گروہ کی جو
ایمان رکھتا ہو تو صرف اللہ پر، جس کا یقین ہو تو اس وحدہ لا شریک کی ذات
پر، جو نہ تو امریکہ سے ڈرنے والا ہو نہ موت سے خوف زدہ ہو، اس کو صرف اپنی
اور اپنے خاندان کی فکر نہ ہو، اس کا جینا مرنا اللہ کے لئے ہو، جو رسول
عربی ﷺ کی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہو، جو محبت رکھتا ہو تو اللہ کی مخلوق
سے، جو عوام کے جذبات کے سامنے ڈھیر نہ ہو بلکہ اپنی بات کو دلائل سے منوا
سکتا ہو، ضروری نہیں کہ وہ ہستی موجود ہی نہ ہو، بس ذرا ڈھونڈنے کی ضرورت
ہے، اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے، قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت
ہے، نا امید نہیں ہونا چاہئے، اگر ہم عوام اپنے آپ کو تیار کرلیں تو وہ
انقلابی شخصیت مل سکتی ہے کیونکہ اب ہمیں تبدیلی کی نہیں انقلاب کی ضرورت
ہے....! |