کابینہ کی تبدیلی اور پیپلز پارٹی کی مشکلات

پیپلز پارٹی کی جناب سے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو وفاقی کابینہ کی تحلیل اور کم حجم کابینہ کی دوبارہ تشکیل کے اختیار کے بعد مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں ایک عرصہ سے جاری سیاسی انارکی کے بعد تازہ ترین حکومتی فیصلے نے حالات کا رخ یکسر تبدیل کر دیا ہے ۔ جہاں کابینہ میں کمی کے فیصلے کو سراہا جارہا ہے وہیں اس فیصلے کے بعد صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اہم سیاسی قیادت سے رابطوں اور مشاورت کو بھی مثبت تبدیلی کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فیصلوں پر عمل درآمد سے جہاں پیپلزپارٹی عوام میں کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتی ہے وہیں ناانصافیوں کے خلاف عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکیں بھی پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جائیں گی۔ لیکن حالات اتنی آسانی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے قابو میں آتے دکھائی نہیں دے رہے جتنی توقع کی جارہی ہے اور نئی کابینہ کتنی ہوگی، اس میں کون کون شامل ہوں گے، سیاسی طور پر پیپلز پارٹی وزراء کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے اپنے وزراء کو باہر کردے گی یا پھر اتحادی قربانی کا بکرا بنیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بقول مبصرین حالات کے مثبت ہونے کے بعد بھی سر اٹھا رہے ہیں ۔ ان کے جواب اگرچہ ہر کوئی اپنے طور اپنے اپنے مطلب کے مطابق دینے کی کوشش میں ہے لیکن صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو دوبارہ متعدد وزارتوں کی پیش کش نے اتنا ضرور واضح کر دیا ہے کہ کہیں نہ کہیں پیپلز پارٹی تمام دعووؤں کے باجود مجبوریوں کا شکار ہے اور اس کی یہی مجبوریاں دعووؤں کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے والوں کو کھٹک رہی ہیں۔

فروری دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف کے ساتھ صوبوں اور وفاق میں مخلوط حکومت قائم کی اور 31 مارچ 2008 کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 24 رکنی وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔ لیکن12 مئی دو ہزار آٹھ کو مسلم لیگ ن وفاقی کابینہ سے الگ ہو گئی۔ 3 نومبر 2008 کو اس کابینہ میں توسیع کر دی گئی اور صدر زرداری نے چالیس نئے وزراء سے حلف لیا۔ یوں وفاقی کابینہ میں شامل وزراء کی تعداد 55 تک جا پہنچی جن میں 35 وفاقی وزرا، 18 وزرائے مملکت اور دو مشیر شامل تھے۔14 دسمبر دو ہزار دس کو جے یو آئی بھی وفاق سے الگ ہو گئی اور چار وزارتیں چھوڑ دیں۔ جے یو آئی کی علیحدگی کے تقریباً چودہ دن بعد متحدہ بھی وفاق سے الگ ہوگئی اور اس کے دو وزراء مستعفی ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران چار وزراء اے این پی کے محمد اعظم خان ہوتی، پیپلزپارٹی کے رضا ربانی، شیری رحمن اور عبدالقیوم جتوئی نے بھی اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دیا۔جے یو آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کے وفاق سے علیحدگی کے بعد سامنے آنے والے منظر نامے میں حکمران جماعت پی پی پی کے حوالے سے یہ کہا جانے لگا کہ وہ سادہ اکثریت کھو بیٹھی ہے اور ملک میں انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور متحدہ قومی موومنٹ نے صرف وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کی تاہم صوبوں میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد برقرار رہا اور یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت آج بھی قائم ہے۔ یہ قیام تو آنے والے دنوں میں بھی بدستور برقرار رہے گا لیکن مشکلات کے حوالے سے پیپلز پارٹی البتہ مستقبل قریب میں ماضی کے مقابلے میں بھی کئی گنا زیادہ کٹھن حالات میں گھری دکھائی دے رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا وزراء کی فوج کم کرنے کا مطالبہ ماننے کے بعد بھی سیاسی طور پر مشکلات ہی کا شکار رہے گی جبکہ اس سے پہلے نئی کابینہ کی تشکیل بھی اس کا بہت بڑا امتحان ثابت ہوگی۔

جمعہ کے روز پی پی پی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی کابینہ کو توڑنے کا اختیار وزیر اعظم کو دے دیا گیا اور اب جتنی کم ممکن ہو سکا نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد سے ملکی خزانے سے بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک وزیر پر ماہانہ ستر لاکھ سے ایک کروڑ روپے اخراجات آتے ہیں اور چھوٹی کابینہ سے خزانے کو رواں مالی سال کے دوران تین سے چار ارب روپے اور آئندہ مالی سال تقریباً دس ارب روپے کی بچت ہوگی لیکن اس فیصلے پر عمل اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے کیونکہ ابھی بھی بے شمار ابہام باقی ہیں اوراس تمام تر صورتحال میں وفاقی کابینہ سے الگ ہونے پر حکمران جماعت کو بعض حلقوں کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ کہنے کو تو نئی کابینہ کی تشکیل کے لئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی اور آئی این پی سے بھی رابطے شروع کر دیئے ہیں تاہم متحدہ اور اے این پی دوبارہ کابینہ میں شامل ہوتی ہے یا نہیں، آئندہ حکومت ایک قومی حکومت بنے گی یاپھر تنہا پیپلزپارٹی میدان میں آئے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے حوالے سے تجزیہ کار کچھ بھی کہنے سے گریزاں ہیں اور اس گریز کی بنیادی وجہ ان جماعتوں کی جانب سے فی الحال کوئی واضح جواب دینے کے بجائے ”دیکھو اور غور کرو“ کی پالیسی ہے کیونکہ ہر جماعت نئے سیٹ اپ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی خواہاں ہے اور یہی خواہش آنے والے دنوں میں نئے فساد کی جڑ بنے گی ۔

حکمران پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی کابینہ میں وزیر داخلہ رحمن ملک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر قانون بابر اعوان، وزیر پیٹرولیم نوید قمر، وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھے جانے کا امکان ہے۔اگر ذرائع کی اس بات کو بنیاد بنا کر تجزیہ کریں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس حد تک قربانی کے لئے تیار نہیں جس کا واضح اور یقینی مطلب یہی ہے کہ قربانی کا بکرا اتحادیوں ہی کو بنایا جائے گا جس میں سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کا نمبر آتا ہے جبکہ اے این پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے تحفظات بھی ان کے طرز عمل سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور قوی امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ باالفرض اگر پیپلز پارٹی اتحادیوں کے تحفظات کے پیش نظر اپنے فالتو وزراءکو گھر بھجوانے کی ٹھان لیتی ہے تو پھر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی کہ اس طرح خود پیپلز پارٹی کے اندر پہلے ہی سے موجود انتشار مزید کھل کر سامنے آجائے گا۔ ایسا ہونے پر اور کسی کو فائدہ ہو نہ ہو حکمران جماعت بہت بڑے نقصان سے دوچار ضرور ہوجائے گی جو کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں شایداس کے لئے قابل برداشت نہ ہو۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کابینہ میں تبدیلی وزراءکی کارکردگی دیکھ کرکی جائے گی، اس حوالے سے دیکھیں تو بھی پیپلز پارٹی کی کشتی منجھدار ہی میں دکھائی دیتی ہے کہ اس وقت وفاقی سطح پر سب سے زیادہ وزارتیں اور ڈویژن کام کررہے ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد 90 (44 وزارتیں‘ 46 ڈویڑن) ہے۔ لیکن ان میں تقریباً نصف میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ 20 سے زائد وفاقی وزارتیں اور ڈویژن اس قدر بے کار ہیں کہ ان میں خزانہ‘ اسٹیبلشمنٹ‘ کابینہ یا کامرس کی وزارت کے کسی ایک چھوٹے سے حصے سے بھی کم کام ہوتا ہے اور ان وزارتوں یا ڈویژنوں میں زیادہ ترپیپلز پارٹی ہی کے وزراء اور مشیر قابض ہیں ۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58416 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.