امام حسن بصریؒ نے فضائل مکہ کے ضمن میں بیان کیا ہے "
روئے زمین پر مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی ایسا شہر نہیں ہے جس کی طرف تمام
انبیاء اکرام ؑ ، تمام ملائکہ اور جن وانس میں سے زمین و آسمان کے تمام نیک
بندوں نے سفر کیا ہو۔ اور فرمایا: انبیا کرامؑ میں سے ہر پیغمبر ؑ کو جب
انکی قوم جھٹلاتی تھی تو ہ قوم کو چھوڑ کر مکہ معظمہ چلے آتے تھے۔ سو جو
نبی ؑبھی اپنی قوم سے نکلا وہ مکہ ہی کی طرف عازمِ سفر ہوا۔ چنانچہ جملہ
انبیاء اکرام ؑ کعبتہ اﷲ کے قرب میں ہی اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے
تھے۔ یہاں تک کہ وہ یقین یعنی موت سے ہمکنار ہوجاتے۔ کعبتہ اﷲ کے گرد تین
سو انبیاء اکرام کی قبریں ہیں۔ جبکہ حضرت اسماعیل ؑ اور اُن کی والدہ
ہاجرہؑ کی قبریں حطیم میں پرنالے کے نیچے ہیں، حضرت نوح ، ھود، شعب اور
صالح ؑ کی قبریں، زمزم اور مقامِ ابراہیم کی درمیانی جگہ پر ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جلیل القدر انبیاء و رسول ؑ اپنے قریب موجود اﷲ تعالی
کا گھر مسجد اقصیٰ چھوڑ کر طویل سفر طے کرتک مکہ معظمہ میں اﷲ تعالی کے
دوسرئے گھر کعبہ کی زیارت کے لیے کیوں آتے رہیں ہیں؟ آخر کعبہ اور مکہ
معظمہ کو کون سی خصوصیت یا انفردیت حاصل تھی جو مسجد اقصیٰ کو میسر نہ تھی؟
اگر اﷲ تعالی کے گھر کا ہی طواف کرنا تھا یا اﷲ اﷲ تعالیٰ کے گھر میں جاکر
اِس کی عبادت کرتی تھی تو القدس میں رہ کر مسجد اقصیٰ میں وہ اعمال بجا لا
سکتے تھے۔ وہ کیوں مکہ مکرمہ جاتے رہے اور وہاں قیام اختیار کرتے رہے ہیں۔؟
وہ مکہ میں وفات پانے کی آرزو کیوں کر تے رہے ہیں اور مکہ میں ہی اِن کی
قبریں کیوں بنیں؟۔
اِن سوالات کا جواب یہ ہے کہ وہ بیت المقدس کی بجائے یہاں مکہ مکرمہ میں
کعبتہ اﷲ کا محض طواف کرنے اور عبادت کرنے نہیں آتے تھے۔ بلکہ اِن کی تشریف
آوری کی وجہ فقط ایک تھی۔ وہ یہ کہ ہر نبی ؑ کا معلوم تھا کہ ہمارئے بعد
آخری زمانے میں نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺکی بعثت اِسی شہر مکہ میں ہو گی،
شاید کہ وہ اِس نبی ﷺ کا زمانہ پالے۔ اِن کی زیارت کر لے اور حکم الہی کی
تکمیل میں اِن پر ایمان لائے، اِنکی تصدیق کرئے اور اُن کی مدد و نصرت
کرے۔جیسا کہ اِس حکم کو قران کریم نے اﷲ تعالیٰ کے اِس فرمان میں بیان کیا
ہے۔اور ائے محبوب وہ وقت یاد کریں جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب
میں تمھیں کتاب اور حکمت عطا کردوں تو پھر تمھارئے پاس وہ سب پر عظمتوں
والا رسول ﷺ تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمھارے
ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور اِن پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور اِن کی
مدد کرو گے ، فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اِس شرط پر میرا بھاری عہد
مضبوطی تھام لیا؟سب نے عرض کیا: ہم نے اقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو
جاؤ اور میں بھی تمھارئے گواہوں میں سے ہوں۔
تخلیق تدبیر اور کسی کو چنیدہ بنانے کا صرف اﷲ تعالی کو اختیار ہے، اﷲ
تعالی کا کسی کو چننا اور خاص بنانا اﷲ تعالی کی ربوبیت اور وحدانیت سمیت
کامل حکمت و قدرت اور علم کی دلیل ہے، اﷲ تعالی نے مختلف جگہوں، شخصیات،
اعمال، مہینوں اور ایام کو ایک دوسرے پر فضیلت سے نوازا ہے، چنانچہ سیدنا
محمد ﷺ خیر الخلق ہیں، اﷲ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کر کے صرف اسی کی
عبادت کرنا افضل ترین عمل ہے، مہینوں میں سے اعلی ترین ماہِ رمضان ہے، افضل
ترین رات لیلۃ القدر ہے، دنوں میں سے افضل ترین دن قربانی کا دن ہے، اﷲ
تعالی کے ہاں سب سے اچھی اور محبوب ترین جگہ مکہ مکرمہ ہے، آپ ﷺ نے ]مکہ کو
مخاطب کر کے فرمایا تھا:(اﷲ کی قسم! تو اﷲ تعالی کی سب سے بہترین جگہ ہے،
نیز اﷲ تعالی کے ہاں سب سے محبوب بھی ہے، اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا
تو میں کبھی یہاں سے نہ نکلتا) احمد
مکہ مکرمہ کا ایک نام ام القری ہے، دیگر تمام علاقے اسی کے ماتحت ہیں، اﷲ
تعالی نے اس شہر کی عظمت اجاگر کرتے ہوئے اس کی قسم بھی اٹھائی،:میں اس شہر
کی قسم اٹھاتا ہوں ]البلد: 1۔ایک اور جگہ قسم کے ساتھ اس کا نام بھی امن
والا شہر رکھا اور فرمایا:اور اس پر امن شہر کی قسم]التي ن: 3۔اس شہر کی
مسجد سب سے معزز مسجد ہے، اﷲ تعالی نے اسی مسجد کو روئے زمین پر سب سے پہلا
بابرکت اور لوگوں کیلیے ہدایت والا گھر قرار دیا، فرمانِ باری تعالی
ہے:پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے
برکت و ہدایت والا ہے۔ ]آل عمران: 96۔ابو ذر رضی اﷲ عنہ نے استفسار کیا:
''اﷲ کے رسول! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟'' آپ ﷺ نے
فرمایا: (مسجد الحرام) پھر انہوں نے کہا: ''اس کے بعد؟'' تو آپ ﷺ نے
فرمایا: (مسجد اقصی) متفق علیہ۔اﷲ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی اس گھر
کی تعمیر اور پھر صفائی کیلیے رہنمائی فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:اور جب
ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اﷲ کی جگہ متعین کر دی۔ ]الحج: 26۔تو ابراہیم
علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر بیت اﷲ کی
دوبارہ تعمیر فرمائی۔سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام نے لوگوں کے دلوں میں
بیت اﷲ کی محبت اور اس کی جانب خوشی سے کھنچتے چلے آنے کی دعا فرمائی:بعض
لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔]ابراہیم: 37۔اﷲ تعالی نے اس شہر کو
اپنے معزز ترین پیغمبر کیلیے پسند فرمایا، چنانچہ یہاں پر آپ ﷺ کی پیدائش
ہوئی، یہی پر آپﷺ پروان چڑھے، اسی شہر میں آپ کی بعثت ہوئی اور قرآن کی
صورت میں وحی کا نزول شروع ہوا، آپ ﷺ نے یہاں پر پچاس سال سے زیادہ عرصہ
گزارا، اسی شہر سے اسلام کی دعوت پھیلی، نیز یہاں پر انبیائے کرام کے بعد
معزز ترین صحابہ کرام نے بھی نشو و نما پائی، اسی شہر سے آپ ﷺ کو مسجد اقصی
لے جایا گیا، نبی ﷺ کو اس شہر سے بہت ہی زیادہ محبت تھی، لیکن آپ کو یہاں
سے زبردستی نکالا گیا، چنانچہ مدینہ آنے کے بعد بھی آپ ﷺ دعا فرمایا کرتے
تھے:
(یا اﷲ! مدینہ کو بھی ہمارے دلوں میں ایسا ہی محبوب بنا دے جیسے تو نے مکہ
کی محبت ڈالی یا اس سے بھی زیادہ)متفق علیہ۔مکہ پر امن شہر ہے، اس کے امن
کیلیے ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:پروردگار! اس شہر کو پر
امن بنا دے۔]البقر?: 126۔تو اﷲ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی اور احسان
جتلاتے ہوئے فرمایا:کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا
حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے؟!]العن?بوت: 67۔قرطبی
رحمہ اﷲ کہتے ہیں:'' مکہ مکرمہ ہمیشہ سے جابر حکمرانوں اور زلزلوں سمیت
دیگر شہروں پر آنے والی ہر قسم کی آفات سے امن میں رہا ہے'' اس شہر کی مسجد
میں داخل ہونے والا سکون محسوس کرتا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: جو
بھی اس میں داخل ہو گا اسے امان حاصل ہے۔ ]آل عمران: 97۔اﷲ تعالی نے مکہ
مکرمہ کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت سے ہی حرمت والا بنایا، آپ ﷺ کا
فرمان ہے:(اﷲ تعالی نے مکہ کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن ہی حرمت
والا قرار دے دیا تھا، چنانچہ یہ شہر قیامت تک کیلیے اﷲ تعالی کی جانب سے
حرمت والا ہے) بخاری۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کیلیے اس شہر کی
حرمت کو اجاگر کیا، جیسے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:(ابراہیم علیہ السلام نے مکہ
کو حرمت والا قرار دیا) متفق علیہ۔نبی ﷺ خود بھی اس شہر کی تعظیم کیا کرتے
تھے، آپ ﷺ نے حدیبیہ کے دن فرمایا تھا:(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری
جان ہے! وہ مجھ سے کوئی بھی ایسا مطالبہ کریں جس میں اﷲ تعالی کی حرمتوں کی
تعظیم ہو گی میں اسے مان لوں گا) بخاری۔اس شہر کی حرمت میں یہ بھی شامل ہے
کہ یہاں نا حق خون بہانا دیگر کسی بھی علاقے میں خون بہانے سے کہیں ابتر
ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:(اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی بھی شخص
کیلیے یہاں خون بہانا جائز نہیں ہے) متفق علیہ۔مکہ کے لوگوں کو اسلحہ اٹھا
کر خوفزدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(تم میں سے کسی کے لیے مکہ میں اسلحہ اٹھانا جائز نہیں ہے) مسلم۔اﷲ تعالی
کی طرف سے حیوانات کو مکہ کے صحرا جبکہ پرندوں کو یہاں کی فضا میں بھی امن
حاصل ہے، مکہ کے درخت بھی امن و امان کے ساتھ لہلہاتے ہیں؛ کیونکہ انہیں
کاٹا نہیں جاتا، دیگر علاقوں کی طرح گری پڑی چیز کو یہاں اٹھانا جائز نہیں
ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:(مکہ میں سبزہ نہیں کاٹا جائے گا، یہاں کے درخت نہیں
کاٹے جائیں گے، یہاں پر شکار کو بھگایا نہیں جائے گا، اور گری پڑی چیز صرف
اعلان کرنے والے کیلیے اٹھانا جائز ہے۔) متفق علیہ۔نبی ﷺ نے مال، جان اور
عزت آبرو کی حرمت کو مکہ شہر کی حرمت سے تشبیہ دی؛ کیونکہ اس شہر کی عظمت
اﷲ تعالی کے ہاں بہت زیادہ ہے، چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:(تمہاری جان، مال
اور عزت آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے آج کے دن کی حرمت
اس شہر اور اس مہینے میں ہے) متفق علیہ۔اﷲ تعالی اس شہر کے متعلق بری سوچ
رکھنے پر بھی عذاب دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:جو بھی یہاں ظلم کرتے
ہوئے الحاد کا ارادہ کرے گا، ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔]الحج: 25۔ابن
مسعود رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں:'' اگر کوئی شخص مکہ شہر میں الحاد پیدا کرنے کی
منصوبہ بندی عدن ابین ]یمن کا علاقہ[ میں بیٹھ کر بھی کرتا ہے تو اﷲ تعالی
اسے بھی درد ناک عذاب سے دوچار کرے گا ''
اس شہر میں ظلم کرنے والا اﷲ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ترین شخص ہے، آپ ﷺ کا
فرمان ہے:(حرم میں رہنے والا ملحد اﷲ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ترین شخص ہے)
بخاری۔اس شہر کی عظمت کے پیش نظر یہاں کی دھرتی پر مشرک قدم بھی نہیں رکھ
سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:بیشک مشرکین نجس ہیں، لہذا وہ مسجد الحرام کے
قریب بھی نہ آئیں۔]التوبۃ: 28۔دجال کافر ہے اور وہ لوگوں کو دینی اعتبار سے
فتنے میں ڈال دے گا، لیکن اﷲ تعالی نے اسے مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے سے
روک دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(مکہ اور مدینہ کے علاوہ کوئی ایسا شہر نہیں ہے جہاں دجال نہ پہنچے) متفق
علیہ۔
مکہ مکرمہ اﷲ تعالی کی حفاظت میں ہے اور یہ آئندہ بھی اﷲ کی حفاظت میں رہے
گا، اس شہر کے بارے میں غلط خیالات رکھنے والے کو اﷲ تعالی تباہ فرما دے
گا، چنانچہ اﷲ تعالی نے ہاتھیوں والوں کو بیت اﷲ کے قریب جانے سے روک دیا
اور انہیں قیامت تک کیلیے نشانِ عبرت بنا دیا۔(ایک لشکر کعبہ پر حملہ آور
ہو گا جب وہ بیداء یعنی صحرا میں ہوں گے تو اﷲ تعالی شروع سے لیکر آخر تک
سب کو زمین دوز کر دے گا) بخاری
اﷲ تعالی نے اس شہر کو امن و امان والا بنایا اور یہاں پر وافر مقدار میں
رزق اور پھل بھی پہنچایا، حالانکہ مکہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک بے ثمر و
شجر وادی میں ہے اور چاروں جانب سے پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے، جس کے باعث
یہاں بھوک افلاس کا خدشہ بہت زیادہ ہے، اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے اہل
مکہ کے لیے پھلوں کی صورت میں رزق ملنے کی ایسے ہی دعا فرمائی جیسے کہ آب و
گیاہ والے علاقوں میں رزق عطا ہوتا، آپ نے فرمایا:
اس شہر کے باشندوں کو پھلوں کی صورت میں رزق عطا فرما۔]البقرہ: 126۔تو اﷲ
تعالی نے اس کا جواب یوں دیا:
کیا ہم نے پرامن حرم کو ان کی جائے قیام نہیں بنایا؟ جہاں ہماری طرف سے رزق
کے طور پر ہر طرح کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں؟ ]القصص: 57۔نیز ابراہیم علیہ
السلام نے مکہ کے صاع اور مد یعنی کھانے پینے میں برکت کی دعا فرمائی اور
نبی ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے:(''یا اﷲ! مدینہ میں اس سے بھی دگنی برکت فرما
جتنی تو نے مکہ میں فرمائی ہے'') متفق علیہ۔اﷲ تعالی نے اہل مکہ کو ایسا
پانی مہیا فرمایا کہ پوری سر زمین پر ایسا پانی نہیں ہے، لوگ اس پانی کے
قطروں کو بھی ترستے ہیں، یہ آب زمزم ہے جو کہ بابرکت بھی ہے اور بھوکے شخص
کیلیے کھانے کا متبادل بھی، آپ ﷺ کا فرمان ہے:(یہ با برکت پانی ہے اور
کھانے والے کیلیے کھانا بھی ہے) مسلم، نیز آبِ زمزم تمام بیماریوں سے شفا
کا باعث بھی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (زمزم کھانے والے کیلیے کھانا اور بیمار
کیلیے شفا کا باعث ہے) مسلم، نیز نبی ﷺ کے سینے کو فرشتے نے شق کر کے زمزم
سے ہی دھویا تھا۔ بخاری۔اس شہر میں رزق اور امن کی فراوانی صرف ایک اﷲ
تعالی کی عبادت کا موجب ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:وہ اس گھر کے رب کی
عبادت کریں ]3[ جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں امن عطا کیا۔]قري
ش: 3، 4۔بیت اﷲ کی تعظیم اور عقیدہ توحید کے عوض یہاں کے باشندوں کا اﷲ
تعالی دفاع فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
اﷲ تعالی نے کعبہ کو حرمت والا گھر اور لوگوں کیلیے قیام کی جگہ
بنایا۔]المائد?: 97۔ابن کثیر رحمہ اﷲ کہتے ہیں:'' یعنی اﷲ تعالی بیت اﷲ کی
تعظیم کے باعث ان کی مشکل کشائی فرماتا ہے''مکہ مکرمہ بابرکت شہر ہے اور اس
سے حاصل ہونے والی برکتیں بھی بحرِ بے کنار ہیں، اس شہر کی برکت یہ بھی ہے
کہ یہاں ایک نماز کی ثواب بہت بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، چنانچہ(مسجد
الحرام میں ایک نماز دیگر مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے) احمد۔بیت
اﷲ کا طواف عبادت اور نماز کے قائم مقام ہے، دن اور رات کے کسی بھی حصے میں
کسی کو بھی طواف کرنے سے نہیں روکا جا سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:اور
انہیں چاہیے کہ وہ اس قدیم گھر کا طواف کریں۔]الحج: 29۔مکہ کے مشاعر مقدسہ
مسلمانوں کیلیے جائے عبادت ہیں، اﷲ تعالی نے یہاں پر آنا فرض قرار دیا اور
اسے اسلام کے ارکان میں شامل فرمایا، نیز مسجد الحرام کی جانب سفر کرنے پر
مسافر کو ثواب بھی ملتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:(تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد
کی جانب رخت سفر نہیں باندھا جا سکتا: مسجد الحرام، رسول اﷲ ﷺ کی مسجد اور
مسجد اقصی) متفق علیہ۔
|