سوال(1):کیاخواتین کے لئے عمر کے کسی مرحلےمیں پہنچ
کرپردہ کی پابندی ختم ہوجاتی ہے؟
جواب : پردہ کی پاپندی کسی بھی مرحلے میں ختم نہیں ہوتی ہے تاہم جب عورت
عمر رسیدہ ہوجائے تو اس کے لئے حجاب میں تخفیف ہے یعنی اپنے چہرہ اور
ہتھیلی کو مردوں پر ظاہر کرسکتی ہےمگر ستر کے وہی احکام ہوں گے یعنی چہرہ
اور ہتھیلی کے سوا سر سے لیکر پیر تک بالوں سمیت ہاتھ وپیروغیرہ مردوں سے
چھپائے گی ۔اللہ کا فرمان ہے :
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ
عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ
بِزِينَةٍ ۖوَأَنيَسْتَعْفِفْنَخَيْرٌلَّهُنَّۗوَاللَّهُسَمِيعٌعَلِيمٌ
(النور:60)
ترجمہ:بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اورخواہش ہی ) نہ رہی ہو وہ
اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ
سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے
لئے بہت افضل ہے اور اللہ تعالٰی سنتا جانتا ہے ۔
ایسی بوڑھی عورت جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو اور اس میں نکاح کی رغبت ختم
ہوگئی ہو اسے اپنے حجاب وبرقع اتارنے یعنی شلواروقمیص کے اوپر بطور حجاب
استعمال کئے جانے والی چادر کو اتار نے کی اجازت ہے ۔یہ اجازت ایک شرط کے
ساتھ مشروط ہے وہ ہے زیب وزینت اور بناؤ سنگار کا ظاہر نہ کرنا ۔ اگر بوڑھی
عورت بناؤسنگار ظاہر کرے مثلا زرق برق لباس،میک اپ، سرمہ، لیپ اسٹک ،
کھنکھناتی خوبصورت چوڑیاں، خوبصورت انگوٹھی اور مائل کرنے والی گھڑیاں
استعمال کریں تو پھرلباس کے ساتھ چہرے اور ہاتھوں کا بھی حجاب کرنا لازم
ہوگا۔بوڑھی عورت بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرے اور حجاب اتارنے سے فتنہ کا ڈر
ہو تب بھی حجاب لازم ہےحتی کہ فتنے کا ڈر نہ ہو اور بوڑھی عورت عفت کی خاطر
حجاب کرتی رہے تو ایسا کرنا اللہ تعالی نے بوڑھی عورت کے حق میں خیروفضل کا
باعث قرار دیا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ عورت کی عمر کے تمام مراحل میں حجاب
کرنا افضل ہے تاہم بوڑھی عورت کے لئے جب فتنے کا ڈر نہ ہو اور زینت کا بھی
اظہار نہ کریں تو اپنا چہرہ اور ہتھیلی کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(2): کیاسن رسیدہ (آئسہ)خواتین کےلئےبھی عدت گذارنا ضروری ہے؟
جواب : عمر رسیدہ عورتوں کے لئے بھی طلاق، خلع اوروفات کی عدت ہےتاہم عدت
کے احکام مختلف ہیں ۔
بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے
:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ
بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں
اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو
بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور
مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر وفات یا طلاق دونوں صورت
میں عدت وضع حمل ہوگی یعنی عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ
حَمْلَهُنَّ ۚ(الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
اگر چار ماہ دس دن سے پہلے ہی وضع حمل ہوجائے تو بعض اہل علم نے چار ماہ دس
دن کی عدت مکمل کرنے کو کہا مگر صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ جیسے
ہی بچہ جن دے تو نفاس سے پاک ہوکر شادی کرسکتی ہے خواہ یہ مدت کتنی بھی ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔
پھر ان لوگوں نے ( ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ
معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا:
قد وضعت سبيعةُ الأسلميَّةُ بعدَ وفاةِ زوجِها بيسيرٍ فاستفتت رسولَ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فأمرَها أن تتزوَّج.(صحيح الترمذي:1194)
ترجمہ:سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا
تو آپ نے اسے ( دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
طلاق کی عدت عمررسیدہ عورت کے لئے جس کو حیض آنا بند ہوگیا ہے تین ماہ ہے ،
یہی حکم مستحاضہ کا بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ
فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ(الطلاق:4)
ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر
تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع
نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی
سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر) کام میں آسانی کر دے گا ۔
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے خلع والی بوڑھی عورت کی عدت ایک ماہ ہوگی
کیونکہ حیض والیوں کی عدت خلع ایک حیض ہے ۔
سوال(3):کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جب بچہ بولنے لگے تو کلمہ سکھاؤ؟
جواب: بعض روایات اس تعلق سے آئی ہیں کہ جب بچہ بولنے لگے تو لاالہ الا
اللہ سکھا ؤ، مگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
ایک روایت یہ ہے: إذا أفصحَ أولادُكم فعلِّمُوهُم لا إلهَ إلَّا اللهُ(عمل
اليوم والليلة لابن السني)
ترجمہ: جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ کی تعلیم دو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔(ضعيف الجامع:388)
دوسری روایت ہے:افتحوا على صبيانِكم أولَ كلمةٍ ب لا إلهَ إلَّا اللهُ(شعب
الإيمان)
ترجمہ: اپنے بچوں کی پہلی تعلیم لاالہ الا اللہ سے شروع کرو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے باطل کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:6146)
تیسری روایت ہے:من ربى صغيرا حتى يقول لا إله إلا الله لم يحاسبه
الله(المعجم الأوسط، مجمع الزوائد)
ترجمہ: جسے بچپن میں لاالہ الا اللہ کی تعلیم دی گئی یہاں تک کہ وہ یہ کلمہ
بولنے لگے تو اللہ اس کا محاسبہ نہیں کرے گا۔
اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔(ضعيف الجامع:5595)
چوتھی روایت اس طرح سے ہے: كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم إذا
أفصَحَ الغلامُ مِن بني عبدِ المطَّلِبِ عَلَّمَهُ هذه الآيةَ { وَقُلِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } إلى آخِرِها۔
ترجمہ: بنی عبدالمطلب کا بچہ جب بولنے لگتا تو نبی ﷺ اسے یہ آیت { وَقُلِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } سکھلاتے۔
اس روایت کو زیلعی نے معضل قرار دیا ہے۔(تخريج الكشاف:2/296)
خلاصہ یہ ہوا کہ بچے کو سب سے پہلے کلمہ کی تعلیم دی جائے ایسی کوئی بات
صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن چونکہ اسلام کی پہلی بنیاد کلمہ ہی ہے اس وجہ
سے بچوں کو شروع سے کلمہ سکھایا جائے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین کی
جائے۔[تحفة المودود:231] انہوں نے یہ بات نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کی ہے
تاہم یہ اچھی بات ہے کہ اپنے بچوں کو آیت،حدیث، کلمہ، ذکر وغیرہ کی تعلیم
دیں۔ مسند احمد میں ایک یہودی لڑکا کا ذکر ہے جو نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا
تھا جب وہ بیمار پڑا تو نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور کلمہ پڑھنے کو کہا تو وہ
اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا۔ باپ نے کہا کہ ابوالقاسم کی اطاعت کروپھر بیٹے
نے کہا: أشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأنَّكَ رسولُ اللهِ۔ اس حدیث کو
شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے(تخريج المسند:12792)۔ اس طرح ہماری کوشش یہ ہو
کہ ابتداء بھی لاالہ الا اللہ سے کریں ، زندگی اسی کے مطابق گزاریں اور اسی
پر انتہا ہو ،اللہ سے اس کی توفیق طلب کریں اور خوب دعا ئیں کریں ۔
سوال(4):کیا ازواج مطہرات آل بیت میں داخل ہیں ؟
جواب: مسلم شریف میں ایک روایت ہے جس سے شیعہ ،عوام کو یہ دھوکہ دیتے ہیں
کہ ازواج مطہرات آل بیت میں سے نہیں ہیں ۔ وہ روایت اس طرح سے آئی ہے
۔فَقُلْنَا: مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا(مسلم:2408)
اس ٹکڑے کا ترجمہ کیا جاتا ہے "ہم نے کہا آل بیت کون لوگ ہیں، نبی ﷺ کی
بیویاں ؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔
اس کا اصل ترجمہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا:آپ کے اہل بیت
کون ہیں؟(صرف) آپ کی ازواج؟ توانھوں نے کہا کہ (صرف آپ کی ازواج)نہیں۔ یعنی
آپ ﷺ کی ازواج کے علاوہ اور دوسرے بھی آل بیت میں شامل ہیں چنانچہ صحیح
مسلم میں ہی اس سے پہلے والی حدیث کے کے الفاظ ہیں۔"فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ:
وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ
بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ " یعنی اور حصین نے کہا
کہ اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت
نہیں ہیں؟ سیدنا زید ؓ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن کی آیت اور دوسری احادیث سے بھی ازواج مطہرات کا آل بیت
میں سے ہونا ثابت ہے۔
سوال(5):ہمارے علاقہ میں مسلمان عورتوں کا جوتی پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے
تو کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓسےکہاگیا:
إنَّ امرأةً تلبسُ النعلَ ، فقالت : لعن رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ
وسلَّمَ الرَّجُلةَ من النساءِ(صحيح أبي داود:4099)
ترجمہ: (جو) عورت (مردوں کے لیے مخصوص) جوتا پہنتی ہے ،( اس کے متعلق آپ کی
کیا رائے ہے ؟) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کی طرح بننے والی
عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت جوتا پہن سکتی ہے ، دوسری بات یہ
معلوم ہوئی کہ جو جوتا مردوں کے لئے خاص ہو اسے عورت نہیں پہن سکتی ہے،
لہذا عورتوں کے لئے مخصوص طورپربنے جوتے پہننے میں عورتوں کے لئے کوئی عیب
نہیں ہے ۔ ہاں ایک بات کا یہ بھی خیال رہے کہ بعض جوتےبڑے بھڑکیلے ہوتے ہیں
اسے پہن کر اور کپڑوں سے باہرکرکے گھر سے نکلنا فتنے کا باعث ہے ۔ اس سے
پرہیز کیا جائے ، چھپاکر پہننے یا شوہر کے سامنے اور گھر میں استعمال کرنے
میں کوئی حر ج نہیں ہے۔
سوال(6):دوسری ذات وبرادری میں شادی کرنا کیسا ہے اور کفو سے کیا مراد ہے؟
جواب: اسلام نے شادی کا معیار دین ٹھہرایا ہےجیساکہ نبی ﷺ کافرمان ہے :
تُنكَحُ المرأةُ لأربَعٍ : لمالِها ولحَسَبِها وجَمالِها ولدينها، فاظفَرْ
بذاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَداكَ (صحيح البخاري:5090)
ترجمہ: عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے : مال، نسب،
خوبصورتی اور دینداری۔ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے
شادی کرکے کامیابی حاصل کرو۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ذات وبرادری کی بنیاد پرہونے والی شادی کی
تردید فرمائی ہے اور اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ملنے کے بعد شادی
میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے یعنی دیندار عورتوں سے ہی شادی کرنا چاہئے ۔
شادی میں ذات وبرادری اور حسب ونسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ ﷺنے امت کو اس
بات کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ اپنی بیٹی رقیہ
اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرےعثمان رضی اللہ عنہ سے
کیا جو اموی خاندان سے تھے جبکہ آپ ﷺ ہاشمی خاندان سے۔
دین ہی کفو اور برابری کا نام ہے کیونکہ شادی میں اسلام نے دین کو ہی معیار
بنایا ہے، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو"بَابُ الأَكْفَاءِ
فِي الدِّينِ " یعنی (باب: کفائت میں دینداری کا لحاظ ہونا) کے تحت ذکر کیا
ہے۔
قبائل کا وجود آپس میں محض ایک دوسرے کے تعارف کے لئے ہے ورنہ سارے بنی آدم
کی اولاد ہیں، اور سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ، کسی اونچی ذات کو
نیچی ذات پر کوئی فخر نہیں ہے ، اگر اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت والا ہے تو
تقوی کی بنیاد پر۔ آج شادی میں رنگ ونسل، ذات وبرادری اور دنیاوی غرض وغایت
کی وجہ سے امت مسلمہ پر تباہی آئی ہوئی ہے، اگر ہم نے شادی میں دین کومعیار
بنالیا تو زمین سے سارے فتنے ختم ہوجائیں گے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن
فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور
اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم
نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
سوال(7):ربیبہ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا احکام ہیں ؟
جواب:ربیبہ کہتے ہیں گود میں پلنے والی وہ بچی جو بیوی کے پہلے شوہر سے
پیدا ہوئی ہو۔ یہ ربیبہ خاوند کے محرمات میں شامل ہے جب خاوند بیوی سے جماع
کرلیا ہو۔ اللہ کا فرمان ہے: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم
مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا
دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ (النساء:23)
ترجمہ: (حرام کی گئی تم پر) تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں
ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے
جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
جماع کے بعد ربیبہ مرد(خاوند) پر حرام ہوجاتی ہے، اس لئے اس سے پردہ نہیں
ہے ۔ مرد کی حقیقی اولاد میں سے نہیں ہونے کے سبب نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے
تاہم احسان وسلوک کا تقاضہ ہے کہ اچھی طرح اس کی پرورش کی جائے، امید ہے کہ
بیٹیوں کی پرورش کا اجر ملے گا۔ خاوند کی ربیبہ سے اس کے اپنے بیٹے کا نکاح
جائز ہے اس وجہ سے بلوغت کے بعد بیٹے اور ربیبہ کے درمیان پردہ کا حکم دیا
جائے۔
سوال (8): اگر کوئی عورت پست قد ہو تو کیا اونچی ہیل والی چپل پہن سکتی ہے
بطور خاص شوہر کے سامنے تاکہ اسے خوش کیا جاسکے؟
جواب: صحیح مسلم میں نبی اسرائیل کی عورت کا ایک واقعہ ہے جسے نبی ﷺ نے
بیان فرمایا ہے :
كانت امرأةٌ ، من بني إسرائيلَ ، قصيرةً تمشي مع امرأتَين طويلتَين .
فاتَّخذت رِجلَين من خشبٍ(صحيح مسلم:2252)
ترجمہ: بنی اسرا ئیل میں ایک پستہ قامت عورت دولمبے قد کی عورتوں کے ساتھ
چلا کرتی تھی ۔اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں (ایسے جوتے یا موزے جن کے تلووں
والا حصہ بہت اونچا تھا) بنوائیں۔
مقصد خود کو لوگوں سے چھپانا تھا کہ اسے پہچان نہ سکیں اور کسی قسم کی
تکلیف نہ پہنچا سکیں، اس حدیث کی بنیاد پر صحیح مقصد کے لئے ہیل والی اونچی
جوتی یا چپل کا پہننا جائز ہے مگر آج کا زمانہ فتنے سے بھرا ہواہے اور ایسی
ایمان والی بھی کہاں جو عفت کے لئے ہیل والی چپل پہن کر حجاب میں چلے سوائے
اس کے جس پر اللہ کی رحمت ہو ۔ عموما فاحشہ عورتوں کی نقالی، شہرت ، تکبر
اور زینت کے اظہار کی خاطر ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں اور نبی ﷺ نے
شہرت کا لباس پہننے پہ سخت وعید سنائی ہے: مَن لبسَ ثوبَ شُهْرةٍ ألبسَهُ
اللَّهُ يومَ القيامةِ ثَوبَ مَذلَّةٍ(صحيح ابن ماجه:2921)
ترجمہ: جو شخص شہرت والا لباس پہنے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت
کا لباس پہنائے گا۔
جہاں فتنے کا خوف نہ ہو مثلا عورتوں کے درمیان یا شوہر کے پاس یا اپنے گھر
میں تو پھر وہاں ہیل والی جوتی یا چپل پہننے میں حرج نہیں ہے، یاد رہے اس
میں اطباء نے جسمانی نقصان بتلایا ہے اس وجہ سے اس سےسدا بچنا ہی اولی ہے۔
سوال(9): مرتے وقت جس کی زبان سے کلمہ نکلے کیا اسے ہم جنتی کہہ سکتے ہیں ؟
جواب: نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الا اللہ نکلے
بشرطیکہ دل کی سچائی کے ساتھ کہا ہووہ جنت میں جائے گا اور بھی دوسری
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس پہ خاتمہ ہوتا ہے اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔
ان احادیث کے ہوتے ہوئے بھی ہم کسی کو خاص کرکےجنتی نہیں کہہ سکتے ہیں،
جنتی ہونے کی امید جتائی جاسکتی ہے کیونکہ یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔ بہتر
ہے کہ ہم کہیں فلاں کو خاتمہ بالخیر نصیب ہوا۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس
حدیث" من كان آخر كلامه من الدنيا لا إله إلا الله دخل الجنة" (دنیا میں جس
کی زبان سے آخری کلمہ لا الہ الا اللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا) کے تحت
لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی آدمی کے متعلق معلوم ہو کہ دنیا میں اس کا آخری
کلام لا الہ الا اللہ تھا تو ہم کہیں گے کہ جنتی میں سے ہونے کی امید کی
جاسکتی ہے لیکن متعین طور پر یقین کے ساتھ اسے جنتی نہیں کہیں گے ۔ (فتاوى
نور على الدرب>الشريط رقم:352)
سوال(10): ایک شادی شدہ عورت نے پہلے شوہر سے طلاق لئے بغیر دوسری جگہ نکاح
کرلیا ہے اس نکاح پر شرعا کیا حکم لگے گا؟
جواب : جب کوئی عورت ایک مرد کے نکاح کے میں ہو اور اس کا شوہر زندہ بھی
ہوتو اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا حرام ہے ۔ لہذا مذکورہ صورت میں
عورت کا نکاح ثانی باطل ہےمردوعورت کا اس طرح اکٹھا ہونا حرام کاری شمار
ہوگی ۔ عورت فوری طور پر اس مرد سے الگ ہوجائے،اس میں طلاق یا خلع کی ضرورت
نہیں ہے کیونکہ طلاق یا خلع نکاح شرعی میں ہوتا ہے اور یہاں تو اصلا نکاح
ہوا ہی نہیں ہے ۔ حالیہ مرد سے الگ ہوکر اللہ سے توبہ بھی کرےاور شوہر اول
کے پاس رہنا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے طلاق لے لے یا خلع حاصل کرلے
پھر عدت گزار کر کہیں دوسرےمرد سے ولی کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے ۔
یاد رہے بغیر سبب کے طلاق کا مطالبہ یا خلع کا حصول گناہ کا باعث ہے۔ نبی ﷺ
کا فرمان ہے :
أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا في غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ
الجنةِ(صحيح أبي داود:2226)
ترجمہ:جوعورت بھی بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تواس پر جنت کی خوشبو
تک حرام ہے۔
ہاں اگر بیوی اپنے شوہر میں دینداری کی کمی پائے، حقوق کی ادائیگی میں
کوتاہی کرنے والا پائے اوربلاوجہ ظلم وزیادتی کرے تو پہلے اصلاح کی کوشش
کرے اور اصلاح کی صورت نظر آئے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے
تو طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
|