رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جِس سے اختلاف، اُسے مار دیجیے!!
یہ خون کا کھیل کب تک ؟
یہ ظلم کی فضا کب تک ؟
یہ پاکستان کے امن کا شکار کب تک ؟
یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی تباہی کب تک ؟
یہ نفرت کی ہوا کب تک ؟
کیا قتل کرنے والوں کا خاندان,والدین, بہن, بھائی, بیوی بچے نہیں ھوتے ؟
کیا قتل کرنے والے انسان نہیں ؟
کیا یہ خود مرنا بھول چکے ہیں ؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد سے مسلمان نفرت, ذلت, پستی, اور قتل غارت کا شکار
ھونا شروع ھوۓ اور 1947میں نظریہ اسلام کی بنیاد پر ایک الگ وطن تو حاصل
کرنے میں کامیاب ھو گۓ مگر امن و آمان کی صورت حال سے جیسے دور بہت دور نکل
گۓ.
آزادی کے بعد ہی پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ ھو جاتا ھے اور ابھی تک ھے لیکن
ہم بے بس نظر آتے ہیں لیکن کیوں ؟
کبھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گاڑی ہسپتال نہیں پہنچ پاتی
؟
کبھی وزیراعظم لیاقت علی خاں صاحب لیاقت باغ میں امن دشمن طاقت کا نشانہ
اور ہم بے بس آخر کیوں ؟
کبھی 1965 اور 1971 کی جنگ کے حالات ؟
کبھی 1971 میں ہم سے مشرقی پاکستان کا الگ ھونا کیوں ؟
اپریل 1978 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی پھانسی لیکن کیوں ؟
کبھی حکومت بنانا تو کبھی گرانا, مارشل لا کی مختلف انداز کیوں ,کبھی کارگل
کی جنگ ,کبھی مساجد پر حملہ, کبھی سکولوں پر معصوم پھولوں کی زندگی سے
کھیلنا, بم دھماکوں میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل, اسلام کے نام پر قتل ؤ
غارت اور عالم دین کا قتل , آخر کیوں اور کب تک ؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ
خاندان سب کے ہوتے ہیں!!
مگر افسوس جس دن اس قوم کو قرآن پاک, تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ والہ
وسلم سمجھ میں آ گی اس دن نہ انکا کوئی مسلک ہو گا اور نہ فرقہ بلکہ یہ
انسانیت کی قدر ؤ معراج کو سمجھ جایں گۓ ....
اللہ پاک عادل ھے اور عدل کا حکم دیتا ھے۔
لیکن عدل بکتا نہیں کبھی.
عدل جھکتا نہیں کبھی,
عدل کرنے والا کسی پہ ظلم نہیں کرتا۔
عدل سنت الہیہ ھے۔۔۔۔۔اور زمین پر عدل کرنے یا نہ کرنے کی سزا و جزا میرا
اللہ دے گا۔۔۔۔۔نہ کہ کوئی انسان۔۔۔۔
اسلام آباد میں حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے شہید ہونے کی خبر جہاں سن
کر بہت دکھ ہوا وہی کراچی میں ایک اہل علم سیاست دان کے قتل کا سن کر بھی
بہت دکھ ھوا. اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے۔ اس ظالمانہ فعل کی سخت مزمت کی
جاتی ہے۔دشمنان پاکستان نے ایک بار پھر پاکستان کے امن پہ حملہ کیا ہے۔
جہاں مولانا صاحب ایک عظیم علمی شخصیت اوربہت بڑے استاد تھے۔ وہی علی رضا
عابدی بھی ایک پڑھا لکھا سیاست دان تھا جو امن دشمن طاقتوں کی نظر ھو گیا.
کیونکہ ملک پاکستان کے قانون ھونے کے باوجود یہ قانون شکن واقعات پاکستان
کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان شاءاللہ دشمن قوتیں ناکام ھوں گئ ۔
جس دہشت گردی کو تقریباً سال 2000 سے آج تک پاک فوج نے اپنے بے پناه
نوجوانوں کی قربانیاں دےکر قابو پایا .وہ لاکھوں نوجوان پھول جو لاکھوں
ماؤں کا مان, باپ کے سر کا تاج, بہن کا محافظ, بھائی کا بازو, بیوی کے سر
کی چادر تھے جنہوں نے امن پاکستان کے لیے اپنا خون ؤ جان تک دیا .یہ مٹھی
بھر دہشت گرد ان شاءاللہ کبھی بھی میرے پاکستان کے دل کراچی میں یا ملک
پاکستان کے کسی بھی شہر ؤ گاؤں میں
بدامنی پھیلانے میں ناکام ہوں گے .اس لیے کہ میرے ملک پاکستان کی تمام فورس
ملک کا امن قائم کرنا جانتی ہیں کیونکہ امن ہی ملک دشمنوں کی ناکامی ہے ۔
ان شاءاللہ
|