چینی فلسفی “کنفیوش” ریاست “شان
ٹونگ”کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کی ذہانت اور لیاقت کا یہ عالم
تھا کہ وہ محض 24سال کی عمر میں ریاست سونگ کا وزیر قانون اور پھر وزیراعلیٰ
مقرر ہوا۔ کنفیوش کی صاف گوئی اورانصاف پسندی سے ریاست کے راجہ اور اس کے
بیٹوں کو خوف لاحق ہوگیا تو انہوں نے ریاست سے باہر نکالنے میں اپنی عافیت
جانی۔ کنفیوش نے جلا وطنی کے بعد چین کی مختلف ریاستوں کی سیاحت کی اور
سرکاری ملازم بھی رہا۔ سرکاری ملازم ہونے کے ناتے اس کی تعلیم کا زیادہ تر
تعلق عملی زندگی سے ہے جس میں سچائی ،درمیانہ روی،پاکیزگی اور دیانت داری
کو زیادہ دخل ہے۔ کنفیوش حکومت اور ملازمت دونوں کا حصہ رہا اس لیے وہ
حکومت اور ملازمت دونوں کے آداب سے واقف تھا۔ حکومت میں اختیار حاصل ہوتا
ہے اور ملازمت میں اپنا اختیار دوسروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔دونوں کا
اپنا الگ الگ دائرہ ہے۔البتہ حکومت اور ملازمت میں ایک چیز مشترک ہے جسے
اعتماد کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت کی ساکھ عوام کی مرہون منت ہوتی ہے اور
ملازم کی ساکھ مالک کے اعتماد پرقائم ہوتی ہے۔ کنفیوش سے کسی نے پوچھا :“اچھی
حکومت کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں۔ حکمران اچھے کردار کا حامل ہو۔ دفاع
مضبوط ہو اور عوام کا حکومت پر اعتماد ہو۔ اس شخص نے اتنا کہا اگر تین
ضروری عوامل میں سے کوئی ایک نہ ہو تو کسے ترک کیا جائے؟کنفیوش نے کہا:پہلے
کو چھوڑ دو البتہ دفاع مضبوط اور حکومت پر عوام کا اعتماد قائم رہنا
چاہیے۔”اس شخص نے کہا۔“اگر ان دو میں سے ایک نہ ہو تو؟ کنفیوش نے جواب دیا۔
اگر عوام کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہوجائے تو مضبوط سے مضبوط دفاع کا بھی
کوئی فائدہ نہیں۔”
قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کے عوام ایسے حکمران کے لیے ترستے رہے جو
اچھے کردار کا مالک ہو مگر یہاں جادوگروں اور بازی گروں کے ساتھ ہی عوام کا
واسطہ رہا۔ طالع آزما آمر کی شکل میں سیاست دانوں کی صورت میں نمودار ہوتے
رہے۔ رفتہ رفتہ عوام نے اعلی صفات کے حامل حکمران کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے۔
آمر سے نجات کے لیے 18فروری 2008ءکو “عوامی اور جمہوری حکومت ” کے قیام کے
لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے
لگے۔عوامی حکومت نے ہروہ اقدام کیا جس سے عوام کا اعتماد مجروح ہو۔ گندم
اور آٹے کے بحران کا حل اس کی قیمت دوگنا کر کے نکالا گیا۔ پیٹرول کی عالمی
قیمتیں بڑھیں تو اس کا بوجھ بھی عوام پر منتقل کیا گیا۔لیکن جب عالمی
مارکیٹ میں قیمتیں 150ڈالر فی بیرل سے 30 ڈالر فی بیرل تک آئیں تو عوام کی
چیخ وپکار کے باوجود خاموشی میں عافیت جانی گئی۔ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری
ہے بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی زور پکڑ چکا ہے البتہ اتنا فرق ضرور پڑ گیا
ہے کہ اب قیمتوں میں اضافے کا بم گرانے سے قبل کم از کم ”ہوم ورک“ ضرور کر
لیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے ہی
مترادف آئندہ پندرہ روز کے لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو معتدل رکھنے
کا اعلان کردیا ہے۔اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کو
پٹرولیم پر سب سڈی دینے کی مد میں قومی خزانے کو پہنچنے والے تیس ارب روپے
کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وزیر پٹرولیم سید نوید
قمر تو جہاں تک کہہ چکے ہیں کہ جلد یا بدیر اس سب سڈی کو نہ صرف ختم کر دیا
جائے گا بلکہ اس کا سارا بوجھ براہ راست عوام ہی کو برداشت کرنا ہوگا اور
اس انتہائی اقدام کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والا
اضافہ بتایا جارہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی کا گراف بلندیوں پر پہنچنے کی بنیاد تیل کی
قیمتیں بڑھنا ہی ہے کہ اسی کی آڑ میں ہر شعبہ عوام کا خون تک نچوڑنے کے
درپے ہوجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف پاکستان ہی تیل درآمد کرتا ہے
یا دوسرے ممالک بھی تیل درآمد کرتے ہیں؟تیل درآمد کرنے والے ممالک صرف
پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے 60 ! ممالک اپنی اپنی ضرورت کے مطابق تیل عالمی
منڈی سے خریدتے ہیں۔ عالمی منڈی میں روزانہ 84.3 ملین بیرل سے زائد تیل کی
خریدوفروخت ہوتی ہے دنیا کے 6ممالک تیل میں خودکفیل ہیں جبکہ 13ممالک تیل
درآمد کرتے ہیں۔27ممالک اپنی ضروریات کا 30سے 50 فیصد،11ممالک 50 فیصد یااس
سے کچھ زائد۔اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے32ممالک 70سے 90 فیصد اور
91ممالک 100فیصد پیڑول درآمد کرتے ہیں۔جب تیل درآمد کرنے والا ملک صرف
پاکستان نہیں اور بھی ممالک ہیں تو پھر مہنگائی کا طوفان صرف پاکستان میں
کیوں ؟کیا پیڑول پر پاکستان کی حکومت جتنا ٹیکس وصول کرتی ہے کسی اور ملک
میں بھی ایسا ہے ؟تو اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔امقتدرین اور ان کے مشیر
21ویں صدی میں بھی “دروغ گوئی” سے باز نہیں آتے۔اور کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے عوام کو سبسڈی دینے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔گزشتہ 5برسوں میں عالمی
مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں خاصے اضافے کے باوجود حکومت اور تیل کمپنیوں
نے 500ارب سے ناجائز منافع کمایا۔ مقتدرین جسے سبسڈی قرار دیتے ہیں،دراصل
وہ سبسڈی نہیں ہوتی۔سبسڈی تو تب ہوتی جب حکومت اپنے خزانے سے کچھ دے۔ حکومت
کو تیل میں اپنا منافع کم کرنا ہوتا ہے۔منافع کی کمی کون ذی شعور سبسڈی کہے
گا ؟پیڑولیم مصنوعات پر ٹیکس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر
حکومت ان پر ٹیکس نہیں لگائے گی تو اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے
ٹیکس لگانے پڑیں گے ؟یقیناً کاروبار حکومت چلانے کے لیے حکومت کو ٹیکس
لگانے پڑیں تو ٹیکس لگانے سے کون روکتا ہے وہ ضرور لگائے مگر براہ راست
ٹیکس کے ذریعے وہ اپنی آمدنی بڑھائے۔
عالمی طور پر معاشی جائزہ لیاجائے تو تمام حکومتیں خصوصاً ترقی یافتہ
حکومتیں براہ راست ٹیکس سے چلتی ہیں جو امرا سے وصول کیا جاتا ہے مگر ہمارے
امرا حکومت کا حصہ ہوتے ہیں یا اپوزیشن کا۔ وہ اپنے مفادات کے لیے دو قالب
رکھنے کے باوجود یک جان ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت پیٹرول بجلی اور اشیائے ضرور
یہ کے نرخ بڑھانے کے بجائے بالائی طبقے سے آمدنی کے مطابق ٹیکس لے تو
مہنگائی کا مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے مگر پاکستان میں ایسا سوچنا
دیوانگی ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقہ اپنی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے کی کیسے
اجازت دے سکتا ہے ؟پاکستان کی ہر حکومت میں براہ راست ٹیکس کم اور بالواسطہ
ٹیکس زیادہ نافذ کیا جاتا رہا ہے لیکن براہ راست ٹیکس کی شرح حکومتی اعداد
وشمار کے مطابق 32فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ کہ 68 فیصد بالواسطہ ٹیکس ہیں۔انکم
ٹیکس کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ہے جن کی آمدنی
سے حکومت ہر ماہ براہ راست ٹیکس وصول کرتی ہے۔اور اس کا بیشتر حصہ پیٹرولیم
مصنوعات ہی پر وصول کیا جاتا ہے جس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ حقائق وہ
نہیں جو بیان کئے جاتے ہیں اور سبڈی کی باتیں محض دھوکے کے سوا کچھ بھی
نہیں کہ انہی ٹیکسوں اور اپنے منافع میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف
کمی کو سبڈی بہر حال قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سبڈی کا شور اپنی جگہ،اپنے ہاں کی پیٹرولیم قیمتوں کو عالمی توازن میں
دکھانا بھی سراسر دھوکہ ہی ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے متابق 40سے
55 فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے کنبے کی
کفالت کرنے والوں کی یومیہ آمدنی صرف دو ڈالر ہے۔ یورپ میں پست ترین آمدنی
ہزار یورو ماہانہ ہے۔ وہاں ہزاروں اگر ایک یورو یا اس سے کچھ زیادہ قیمت پر
ملتا ہے تو ہزار یو ر و والے کے لیے ایک یورو فی لیٹر خریدنا کیا مشکل ہے
؟پاکستان میں 3سے 4 ہزار کمانے والے کے لیے 73روپے فی لیٹر پیٹرول خریدنا
استطاعت سے باہر ہے۔ حقیقت در اصل یہ ہے کہ وزیر پیٹرولیم سمیت ہمارے تمام
پالیسی ساز قیمتوں میں اضافے کا تعین عوام کی نہیں بلکہ اپنی آمدنی کو
سامنے رکھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اپنی جیب دیکھ کر عام آدمی کی قوت
خرید کا اندازہ کرنا ہی فساد کی سب سے بڑی جڑ ہے۔ارسطو سے ایک دفعہ اسکندر
اعظم نے پوچھا تھاکہ ریاستیں کب تباہ ہوتی ہیں؟ ارسطو نے جواب دیا تھا کہ
جب حکمران عوام کی انتٹریوں کو اپنے دسترخوان پر سجانے لگیں تو ریاستوں کا
وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے، صورتحال تو ہمارے ہاں بھی کچھ مختلف نہیں جبکہ
ہمارے حکمران کنفیوش کے فارمولے کے مطابق ایک یا دو نکات کے بجائے سبھی کچھ
بھی ترک کر چکے ہیں اورمحض دھوکے بازی کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر اقتدار
کو دوام بخشنے کی کوششوں جتے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں لیکن انہیں معلوم
ہونا چاہیئے کہ جھوٹ کے کوئی پاﺅں نہیں ہوتے اور اگر ان کی غلط بیانیاں
عوام کی سمجھ میں آگئیں تو”سب ٹھاٹھ دھرا رہ جائے گا“والی صورت حال یقینی
ہوجائے گی۔ |