سال ۲۰۱۸ کے اختتام پر اگر میڈیا خوصی طور پرکسی اداکار
کی یاد دلا سکتا ہے، اگر میڈیا ڈالر کے اتار چڑہاؤ کے بارے میں بتا سکتا ہے
، اگر میڈیا لوگوں کو اگاہ کرسکتا ہے کہ ٹرمپ کا یہ سال کیسا گزرا ، اگر
میڈیا ہالی ووڈ، لالی ووڈ، بالی ووڈ کی ترقی و پستی کے افسانے سنا سکتا ہے،
اگر میڈیا پر کھیل کے میدانوں میں پورے سال میں کیا ہواا س کے متعلق خبریں
آسکتی ہیں تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم علم و ہنر کے ان مناروں کو بھول
جائیں جس کے بارے میں ایک حرف کہنے سے بھی دجالی میڈیا خاموش نظر آتا ہے،
کہ جنہوں نے اپنے علم کے نور سے لوگوں کی راہنمائی کی، ان کو جہالت کے
اندھیروں سے نکالا، جن عظیم ہستیوں کو یہ سال لے گزرا آج کی یہ تحریر ان
میں سے چند کے تذکرے پر مشتمل ہے، قطع نظر اس بات سے کہ ان کا تعلق کس
تنظیم و مکتب فکر سے ہے۔
شیخ ڈاکٹر احمد بن سعید اللدن الراشانیؒ
شیخ ڈاکٹر احمد اللدن بن سعید الراشانی ؒ ملک لبنان کے ایک عظیم مفکر اسلام
جنہوں نے جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی اور ۲۰۱۱ میں مفتی شیخ محمد قابانی
کے بعد لبنانی جمہوریہ نے افتاء کا عہدہ ان کے سپر د کیا ، اور آپ اس عہدے
پر یکم جنوری ۲۰۱۸ء بروز پیر تک فائز رہے، اور بالآخر یکم جنوری کا سورج
جاتے جاتے اس عظیم شخصیت سے اس دنیا کو محروم کر گیا۔
علامہ مفتی محمد نعیمؒ
پرفیسر محمد سعید کے والد محترم علامہ مفتی محمدنعیمؒ ان کا تعلق فیصل آباد
سے تھا ۔ ۴ ،جنوری ۲۰۱۸ ء بروز جمعرات اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ وہ ایک
مایہ ناز عالم دین اور روحانی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مصنف بھی
تھے، ان کی بہت سی تصانیف میں سے آب کوثر ایک ایسی تصنیف ہے جس سے آپ جانے
جاتے ہیں اور اس تصنیف میں آپؐ کی محبت جھلکتی ہے۔ ان کا ایک مدرسہ جس
کانام جامعہ امینیہ رضویہ ہے، جس میں دور دور سے علم کے پیاسے اپنی پیاس
بجھانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ اور ان کے شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ دین کا
کام سر انجام دے رہے ہیں۔
علامہ سید حمزہ علی قادریؒ
علامہ حمزہ علی قادری ؒ ایک نامور عالم دین اور جماعت اہلسنت سندھ کے نائب
امیر تھے۔ طویل علالت کے بعد بالآخر ۲۴ جنوری ۲۰۱۸ بروز بدھ اس جہان فانی
سے رخصت ہوئے اور ۲۵ جنوری بروز جمعرات ان کی نماز جنازہ بعد از ظہر جامعہ
دارالعوم امجدیہ میں ادا کی گئی ،اور ان کی آخری آرام گاہ ایک مشہور صوفی
بزرگ حضرت منگھو پیر بابا کے مزار کے احاطے میں ہے۔
علامہ شہاب الدین سلفی فردوسی
سید شہاب الدینؒ فردوسی ایک مشہور عالم دین اور مصنف تھے، اور اس کے علاوہ
خدمت خلق میں بھی بڑھ چڑھ کر جصہ لینے والے انسان تھے۔ اور اسی بات کے پیش
نظر انہوں نے اطہر بلڈ بینک کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح ۲ جون ۲۰۱۲ میں
ہوا۔ ، اور ۱۹۷۱ میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ (بھارت) سے فراغت حاصل کی۔ اور
۲اپریل ۲۰۱۸ بروز سوموار ۶۲ سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث اس
جہان فانی سے سے رخصت ہوئے۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ
۱۴؍ اپریل ۲۰۱۸ء بروز شنبہ دوپہر دارالعلوم وقف کے صدر مہتمم حضرت مولانا
محمد سالم قاسمی کا دیوبند میں سانحۂ انتقال پیش آیا۔ حضرت مرحوم عالمی
شہرت کے حامل جید عالمِ دین اور خطیب ومتکلم تھے۔وہ دارالعلوم دیوبند کے
معروف فاضل اور متعدد اہم اداروں کے سربراہ تھے۔ آپ خاندان قاسمی کے چشم
وچراغ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی سابق مہتمم
دارالعلوم دیوبند کے جانشین تھے ۔
حضرت مولانا محمد سالم صاحب ۲۲؍ جمادی الثانیہ ۱۳۴۴ھ /۸؍ جنوری ۱۹۲۶ء میں
دیوبند میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۵۱ھ/ ۱۹۳۳ء میں دارالعلوم میں داخل ہوئے اور پوری
تعلیم یہیں حاصل کی۔ انھوں نے ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا
حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اساتذۂ کرام سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ آپ نے
۱۳۷۰ھ/ ۱۹۵۱ء سے دارالعلوم میں تدریس کا آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے
درجۂ علیا تک پہنچے۔ دارالعلوم دیوبند میں تین دہائیوں تک تدریسی و
انتظامی خدمات انجام دیں اور ابتدائی درجات سے دورۂ حدیث کی کتابیں
کامیابی کے ساتھ پڑھائیں ۔
۱۴۰۳ھ /۱۹۸۳ء میں دارالعلوم وقف کے مہتمم بنائے گئے اور پھر صدر مہتمم کے
عہدے پر فائز ہوئے ۔ علاوہ ازیں ، آپ مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، آل
انڈیا مجلس ِ مشاورت کے صدر ، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سرپرست اور فقہ کونسل
ازہر مصر کے مستقل رکن بھی رہے ہیں ۔ آپ نے متعدد کتابیں بھی لکھیں اور
’’قاسم المعارف‘‘ نام کی ایک اکیڈمی قائم کی اور اس سے متعدد اہم اور
تحقیقی کتابیں شائع کیں ۔
حضرت مولانا کی نماز جنازہ شب دس بجے دارالعلوم دیوبند کے احاطۂ مولسری
میں ادا کی گئی اور قبرستانِ قاسمی میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم
نانوتویؒ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ کے پہلو میں
انھیں دفن کیا گیا۔ ( ماہنامہ مئی دارالعلوم دیوبند)
حضرت مفتی اختر رضا خانؒ
حضرت مفتی اختر رضا خانؒ ایک بہت ہی عظیم مفکر اسلام ، حضرت احمد رضا خانؒ
کے پڑپوتے اور جانشین تھے۔جنہوں نے جامعہ الازہر سے فراغت حاصل کی اور
بھارت میں مفتی اعظم ہند کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اردن کی رائل اسلامی
سوسائٹی کی جانب سے دنیا کے ۵۰۰ بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں انکا نام
بائیسویں نمبر پر موجود ہے۔ اور حضرت نے پانچ ہزار فتاوٰی تحریر فرمائے جن
میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ان کا "نس بندی "کے خلاف دیا گیا فتوی ہے جو
انہوں نے اس وقت دیا جب ۱۹۷۵ کی حکومت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس
طبعی عمل کو لازمی قرار دیا تھا، لیکن مفتی اختر رضاخانؒ نے اس عمل کو
شریعت کے مخالف قرار دیا تھا، ان کے ان فتاوٰی کو کتابی شکل میں اظہار
الفتاوٰی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
بریلوی مکتب فکر کے اس مرد مجاہد نے ۵۰ سے زائد اسلامی کتابیں تصنیف کیں
ہیں، اور ان کی ایک اور کتاب سفینہ بخشش جس میں نعتیہ کلام ہے اس کا ترجمہ
بھی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ سنہ میں ۲۰۰۰ ء اتر پردیش کے شہر بریلی میں
جماعت الرضا کے نام سے ایک اسلامک سنٹر بھی قائم کیا۔ بالآخر طویل علالت کے
بعد ۶ ذوالقعدہ ۱۴۳۹ بمطابق ۲۰ جون ۲۰۱۸ کو اس جہان فانی سے دامن حیات کو
چھڑا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مولانا سمیع الحق صاحبؒ
حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ ایک عظیم انسان ، مصنف اور لیڈر جامعہ اکوڑہ
خٹک کے مہتمم اور جمیعت علماء اسلام (س) کے سربراہ تھے۔ اور اگر سیاسی
زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس لحاظ سے وہ سینٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے اور
دفاع پاکستان کونسل کے چیئر میں بھی رہے ۔ عالم کفر کے ہتکنڈوں کے آگے ایک
بہت بڑی رکاوٹ تھے جن کو بالآخر۲ نومبر ۲۰۱۸ء کی شام ۸۱ سال کی عمر میں
راولپنڈی میں ظالموں نے چاکو کے کئی وار کر کے شہید کر دیا تھا۔
حاجی عبدالوہاب صاحبؒ
ایک عظیم ہستی حاجی عبد الوہاب صاحب ؒ ( تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر ) یکم
جنوری ۱۹۲۳ء میں نئی دہلی میں پیدا ہوئے،اور اسلامیہ کالج لاہور (بھارت) سے
گریجویشن کیا ۔ہندوستان کی تقسیم سے پہلے وہ ایک تحصیل دار تھے،اور پھر
اللہ نے ان کو دین کی خدمت کے لئے چن لیا اور وہ اپنی ان مصروفیات کو ترک
کر کے تبلیغ دین کی مصروفیت کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ ان کے ذریعے اللہ نے
کتنے ہی ظلمتوں کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو ہدایت کے چراغ تھمائے۔ حاجی
صاحبؒ اس پر فتن دور میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ۲۰۱۳ میں
حکومت نے طالبان سے مذاکرات سے قبل تجاویز اور شرائط کے لئے اسلام آباد میں
لویہ جرگہ کا انعقاد کیا تھا جس کی صدارت کے لئے حاجی صاحبؒ کانام تجویز
کیا گیا تھا۔ یہ عظیم شخصیت طویل علالت کے بعد ۱۸ نومبر ۲۰۱۸ء کو ۹۵ سال کی
عمر میں اس دنیا فانی کو چھوڑ کر اپنی حقیقی زندگی کی طرف رخصت ہو گئے۔
مولانا محمد جمیل صاحبؒ
عالمی تبلیغی مرکز رائیونڈ کے امام و خطیب زہد و تقوی کے پیکر حضرت مولانا
محمد جمیل صاحبؒ ۲۶ نومبر ۲۰۱۸ کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
مفتی محمد یوسف سلطانیؒ
مفتی محمد یوسف سلطانی ختم نبوت کے مسئلے پر بولنے والی شخصیت کو مجرم بنا
کر حافظ آباد جیل میں قید کیا گیا ، جو ۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو اسی جیل میں جام
شہادت نوش فرما تے ہوئےاس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
مولانا اسرار الحق قاسمیؒ
مشہور عالم دین، ممتازقومی وملی رہنما،دارالعلوم دیوبندکے رکن شوری اورکشن
گنج کے ممبرپارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی صاحبؒ ۷ دسمبر ۲۰۱۸ء صبح تین
بجے تہجد کی نماز کے لئے اٹھے تو سینے میں درد محسوس ہونے پر محافظ کو
اطلاع دی کہ مجھے ہسپتال لے جاؤ لیکن رستے میں فرمایا کہ میں اپنے اللہ کی
طرف جارہا ہوں اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کرنا۔ ۷۶ سال کی عمر میں اس
فانی جہاں کو خیر اباد کہہ گئے۔
مولانا قاسمی کشن گنج سے دوبار رکن پارلیمنٹ رہے۔ کشن گنج میں اے ایم یو
سنٹر کے قیام میں بہت اہم رول رہا اور پوری تحریک کی قیادت کی تھی۔ یہ سنٹر
جو کٹیہار میں قائم ہونے والا کشن گنج لیکر آئے اور آخری عمر اس سنٹر کے
لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مولانا جمعیت علمائے ہند (متحدہ) کے جنرل
سکریٹری بھی بھی رہے تھے۔ مولانا نے مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمتہ اللہ
کے ساتھ ملکر ملی جمعیت قائم کی تھی۔ اس کے بعد وہ ملی کونسل کے اسسٹنٹ
سکریٹری جنرل بنائے گئے تھے۔ ان کی قیادت اور تنظیمی تجربہ کی بنیاد پر ملی
کونسل ایک وقت ملک کی بڑی جماعت بن گئی تھی۔مولانا قاسمی جو دارالعلوم
دیوبند کے فیض یافتہ تھے ،انہوں نے ملی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے آل
انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن قائم کیا تھا۔ جس کے تحت فلاحی کام کئے جاتے
تھے۔ ملک میں متعدد مدارس و مکاتب چل رہے تھے۔ مولانا نے عصری تعلیم کے
میدان میں بھی کام کیا تھا ۔ انہوں نے کشن گنج کے اپنے آبائی گاؤں میں
لڑکیوں کا بارہویں کلاس کا ایک معیاری اسکول قائم کیا تھا ۔ جس کا معیار
دینی تعلیم کے ساتھ کسی بھی معیاری اسکول سے کم نہیں ہے۔اسی کے ساتھ مولانا
ہندوستان میں پھیلے سیکڑوں مدارس کے سرپرست تھے اور مدارس کے پروگراموں میں
شرکت کو ترجیح دیتے تھے۔( news 18 انڈیا)
نہ بھلا سکیں گے ہم تمہیں
گو کوئی تم کو بھلا بھی دے
یہ وہ عالم اسلام کے چمکتے دھمکتے چند ستارے تھے جن کو سال ۲۰۱۸ ہم سے چھین
کر لے گیا ، اور ان کے علاوہ ایسی ہستیاں جن کا تذکرہ اس تحریر میں نہ ہو
سکا اللہ سے دعا ہیکہ رب کائنات ان کی کوتاہیوں کو معاف فرما کر ، نیکیوں
کو قبول فرما تے ہوئے جنت الفردوس میں اعلی درجے میں جگہ عطا کریں ۔ اور ہم
سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔۔!
|