یہ بات کسی بھی محب وطن پاکستانی کی علم سے باہر اور عقل
و سمجھ سے بالاتر نہیں کہ کسطرح سے جمہوریت کے اس اعلیشان عزم وقانون کو
اہل غیر کے پاوں تلے روند کر عذاب ماضی کی طرح آمریت میں بدلا جا
رہاہے..غیروں کو کیا پڑا ہے کہ رسوا کرے ہمیں...ان سازشوں میں ہاتھ کسی
آشنا کا ہے.. آپ کو تو پتہ ہوگا کہ تبدیلی بجلی میٹر کی طرح اپنے آقاوں کے
ذہن نشین کردہ نقشے کے عین مطابق اپنے منزل کی طرف بڑے زوروشور سے لڑکڑاتی
اداوں کیساتھ خامزن ہے...ایک ہندوستانی فلم میں سلمان خان کی ڈایلاگ 'جو
جیجا جی بولیں گے وہی میں کرونگا' وطن عزیز کے عوام پر مسلط کردہ حکومت میں
ایوان زیریں کے ارکان خاص سے سواے عملی ترقی کے من وعن 'قبول ہےقبول ہے' کی
طر ح مادری زبان میں سمجھا کر بلوایی جارہی ہے..حدتکمیل کو پہنچی تیری
رعنای حسن..جو کسر تھی وہ مٹادی تری انگڑای نے..جو کسر رہ چکی تھی وہ تو
عوام کو جھانسہ دےکر سپیڈ کی لایٹ اور مرغی انڈا سے پورا کرکے مہنگای کا
پتا پھینک چکے۔۔مجھے خان صاحب کی تقریر کے وہ تاریخی الفاظ یاد ہیں کے جب
خان صاحب نے کہا تھا "مہنگائی جب بڑھ جائے تو سمجھ لینا کے حکمران کرپٹ ہے
" بل گیٹس کی پر بحث کرنا بیکار ہے پر ہمارے ہاں تو جنھیں تجارتی گزرگاہوں
شاہراہوں اور ہوائی اڈوں کی اہمیت سمجھ نہیں ائی وہ انڈوں کی مد دسے ملکی
معیشت چلانے کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ ہے زہنی پسماندگی اور کنٹینر پر چڑھ کر
دعوے تو محظ کسی سے سلیکشن کا فارم بھروانے کی خاطر تھےیہ الگ بات ہے کہ
موصوف نے یہی تقریریں چین کی کمیونسٹ پارٹی سکول سے خطاب کرتے ہوے پاکستانی
فارغ لوگوں کا جلسہ سمجھ کر دہراتے ہوے ہماری بچی کچی عزت پاوں تلے کچل دی
..”نفسییات دان کہتے ہیں”ایسے لوگ بدتمیز ی اور لوگوں کی توہین اسلئے کرتے
ہیں کہ یہ ان کا نشہ ہےک کہ وہ احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں جو احساس
کمتری کی بد ترین شکل ہے
جب آپ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر اپنی مرضی کا وزیر اعظم لائیں گے تو چین
جیسا دوست ملک بھی آپ سے منہ موڑ لے گا
عمران خان کے چین دورے میں جو معاہدے ہوئے ان پر چین کی جانب سے لمبی
خاموشی ہے
چین کو جعلی حکومت پر یقین نہیں
.آنکھ مچولی کھیلتے
ہوے دس لاکھ مزدوروں اور ریڑھی بانوں کا روزگار اور چھت چھین کر تین شہروں
میں چارسوں نشیوں کو تمبوں اور کمبل دے کر عقل سے عاری اندھے تقلید کے
مریدوں سے خوب داد وصول کی گی..یاد دلانا ہے کہ جو قوم ستر سال سے ایک سادہ
سی درخواست میں آٹھ بار منت ترلے کرتی ہو جیسا کہ (بخدمت جناب،جناب عالی،
گزارش،فدوی، التجا،عین نوازش،العارض،تابع فرمان) اسے سال بعد ایک دن کےلیے
خوشخبری سنای جاتی ہے کہ آپ آزاد ہے.
نظر دوڑای جاے یا تاریخ کی روگردانی کی جاے تو یقین مانے بعض آزاد ملکوں
گارڈفادر اور سلیسین مافیا جیسے معزز لوگ ہی اپنی مرضی کے حکمرانوں کے
پیچھے سینہ تان کر بدنصیب عوام کو مسخ شدہ لاشیں، اغواہ براے تاوان،بتھہ
خوری اور دہشتگردی جیسے یادگار واقعات میں الجھا کر اقتدار کی سرور بھری
سیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں..
مثبت رپورٹنگ کرتے کسی نے بڑی معنی خیز انداز سے یہ بات کہ کر مجھے انگشت
بدنداں کردیا کہ برصغیر میں رادھا کے بعد جو سب سے زیادہ ناچی وہ پی ٹی آئی
ہے..تشریح کیا کریں حسن کار کردگی روز روشن کی طرح ننگی ہے..وزیروں کو
چھوڑے سیاسی چمچے سوچنے سمجهنے سے بالکل پیدل ہوتے ہیں اور انکی بنیادی
نشانی یہ ہے کہ اپنے فاشسٹ لیڈروں کے علاوہ باقی ساری دنیا کو غلط سمجهتے
ہیں
ایک بادشاہ بازار سے گزرا وہاں ایک چودھری 2 روپے میں گدھا بیچ رہا تھا۔
اگلے دن بادشاہ پھر وہاں سے گزرا وہ پھر وہیں بیٹھا گدھا بیچ رہا تھا۔
بادشاہ رک گیا اور اس سے پوچھا کہ گدھا کتنے کا ہے اسنے دیکھا کہ بادشاہ ہے
اسنے قیمت 50 روپے بتا دی۔ بادشاہ بولا کل تو تم 2 روپے کا بیچ رہے تھے
اب وہ گبھرا گیا اور گبھراہٹ میں اس نے کہہ دیا کہ اس پر بیٹھ کر آنکھیں
بند کرو تو مدینہ کی زیارت ہوتی ہے اسلیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ بادشاہ نے
وزیر کو کہا کہ بیٹھ کر دیکھو کچھ نظر آتا ہے کہ نہیں۔
وزیر بیٹھنے لگا تو چودھری نے فورا کہہ دیا کہ زیارت صرف نیک ایماندار اور
پارساء کو ہوتی ہے۔ اب وزیر بیٹھ گیا اسنے آنکھیں بند کیں کچھ بھی نظر نہ
آیا مگر اسنے سوچا میں اگر کہوں گا کہ نظر نہیں آیا تو سب کہیں گے کہ نیک
ایماندار اور پرہیزگار نہیں ہے اسنے کہا کہ ماشااللہ مدینہ صاف نظر آرہا
ہے۔
بادشاہ کو تجسس ہوا اسنے کہا کہ میں خود بیٹھ کے دیکھوں گا۔ اب بادشاہ کو
کچھ بھی نظر نہ آیا اسنے سوچا وزیر تو بچ گیا اب میں کہوں گا کہ نہیں نظر
آتا سب سمجھیں گے بادشاہ نیک اور پرہیزگار نہیں ہے۔
اسنے کہا ماشااللہ سبحان اللہ مجھے مکہ اور مدینہ دونوں نظر آرہے ہیں ۔اور
اسکو گدھا بھی 50 روپے میں خریدنا پڑا۔
۔
بالکل کچھ یہی صورتحال یہاں کی بھی ہے
وفاقی وزارت ترجمان کا اعتراف تھا کہ آی ایم ایف کی شرایط نہ مان کر بیرونی
زرمبادلہ کا بحران اختطام پزیر ہواجبکہ انٹر بنک مارکیٹ میں معدوم و مخدوش
کاروبار شروع ہوتے ہی ڈالر کی بلندی نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا اچھی
تبدیلی صرف ان کو ہی نظر آرہی۔ اور اپنا ہی لیڈر بھی مہنگا پڑ رہا ہے
وہ ذہنی طور پر اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے لیڈر میں وہ خوبی ہی نہیں جو
وہ ہمیں کھڑے ہو کر بیان فرمایا کرتے تھے۔
مگر اب صورت حال اس کے بلکل برعکس ہے اور اب وہ یہ تبدیلی کی ہڈی نا نگل
سکتے ہیں نا اگل اور اب وہ لوگ یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا لیڈر ہمیں
مدینہ کی ریاست دکھاۓ گا۔ |