پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جوڈیشل ایکٹیو
ازم اُس وقت ہوتا ہے جب مقتدر حلقے چاہتے ہیں۔ یعنی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ
ہی سب کچھ کرتی ہے۔عوام تو بے چاری چند فی صد اشرافیہ کے ہاتھوں کئی
دہائیوں سے یرغمال ہے۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ ہو یا نام نہاد جموریت۔ عوام
کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ عوام نے مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے اور یہی کچھ
ہو رہا ہے۔ عوام کے لیے انصاف نام کی کوئی شے نہیں۔موجودہ دور میں سابق
وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف احتساب کے شکنجے میں
ہیں اور اِس وقت دونوں بھائی کوٹ لکھپت جیل کی بیرک نمبر ایک اور بیرک نمبر
تین کے مکین بنے ہوئے ہیں۔نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملک کیس میں سات سال
قید ہوئی ہے۔ شہباز شریف کے خلاف ابھی تک کو ئی کیس ثابت نہیں ہوا اوروہ
جوڈیشلر یمانڈ پر جیل میں ہیں۔ زرداری کے خلاف بھی گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ جلد
وہ بھی جیل میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق،سلمان رفیق افضل
کھوکھر بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بہت سے جرائم پیشہ
افراد پر بھی ہاتھ ڈالا ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ حکومتی پارٹی میں شامل
افراد سابق فوی جرنیلوں اور سابق ججوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات
قائد میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید با مشقت کی سزا اور
ڈھائی کروڑ ڈالر اور ڈیڑھ ارب روپے کے 2جرمانے عائد کردئیے ہیں۔ جرمانہ کی
کل مالیت تقریباً 5 ارب روپے بنتی ہے۔ عدالت نے العزیزیہ اور ہل میٹل
جائیدادیں ضبط کرنے کا بھی حکم دیا جبکہ نواز شریف 10سال تک عوامی عہدے
کیلئے بھی نااہل ہوں گے۔ جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا ہے
جبکہ نواز شریف کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کو بھی مفرور مجرم
قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ جاری کردئیے ہیں۔ نواز شریف کو کمرہ عدالت سے
گرفتار کر کے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ عدالت نے ان کی کوٹ لکھپت
جیل منتقل کرنے کی استدعا منظورکر لی بعد ازاں اڈیالہ جیل سے کوٹ لکھپت جیل
منتقل کر دیا گیا۔ العزیزیہ سٹیل ملز میں نواز شریف پر نیب آرڈیننس کے
سیکشن 9اے فائیو کے تحت جرم ثابت ہوا ہے جس کے تحت نواز شریف کو سات سال
قید بامشقت، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل اور ڈیڑھ ارب
روپے اور 25ملین ڈالر جرمانہ کی بھی سزا سنا دی گئی ہے۔ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ
کے تمام اثاثہ جات، جائیداد اور منافع بھی بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم جس کے
لیے سعودی حکومت سے رابطہ کرنے کی بھی ہدایت کر دی ہے ۔فیصلہ میں کہا گیا
ہے کہ استغاثہ نواز شریف کے خلاف کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا الزام ثابت
کرنے میں کامیاب رہا، نواز شریف العزیزیہ اور ہل میٹل کے حقیقی اور بینفیشل
مالک ہیں۔ نواز شریف جائز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے جبکہ نواز شریف
نے اپنے دفاع میں ایک بھی گواہ پیش نہیں کیا۔ العزیزیہ اور ہل میٹل بنانے
کے لئے سرمایہ نواز شریف کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا، العزیزیہ کے لئے
6ملین اور ہل میٹل کے لئے 16ملین ڈالر کی خطیر رقم ہے، نواز شریف اور ان کے
بچوں سب کے پیسے جمع کریں تو بھی آمدن نہیں تھی۔ بار ثبوت نیب نے نواز شریف
پر منتقل کر دیا،جس کے بعد نواز شریف کو بتانا تھا کہ اثاثے کیسے بنائے
لیکن نواز شریف العزیزیہ اور ہل میٹل کے لئے اثاثے نہیں بتا سکے، صفائی کے
لئے نواز شریف کی طرف سے جھوٹا اور بے بنیاد موقف اپنایا گیا جس کی قانون
میں کوئی اہمیت نہیں۔ العزیزیہ میں کافی ٹھوس ثبوت ہیں۔ حسن اور حسین نواز
موقف کی بجائے مفرور رہے اور ملزمان کے پاس رقوم کی ترسیل کے لئے اصل
دستاویزات ہوتیں تو پیش کرتے۔ تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز نے
نواز شریف کو رقوم بھیجنے کا اعتراف کیا لیکن صفائی دینے کے لئے عدالت نہیں
آئے، حسن اور حسین نواز اپنے زیر قبضہ اثاثوں اور جائیدادوں کے لئے ذرائع
آمدن بتانے کیلئے کوئی ثبوت نہ دے سکے۔ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ملزم تفتیشی
افسر کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے۔ حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ
گرفتاری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ العزیزیہ ریفرنس کے تمام شواہد اور
دستاویزات محفوظ رکھے جائیں، تاکہ حسن اور حسین نواز کی واپسی پر انہیں
گرفتار کر کے کارروائی کی جائے۔ عدالت کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ
فلیگ شپ ریفرنس میں ان کے خلاف ثبوت نہیں نہ ہی کیس بنتا ہے۔ لہٰذا انہیں
بری کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس کا تحریری
فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔ العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ131 صفحات پر مشتمل ہے۔
فیصلے پر اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشد کے دستخط ہیں۔
نوازشریف فیصلے کیخلاف 10روز میں اپیل دائرکرسکتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے انہیں اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور جیل
منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نواز شریف دل کے عارضے
میں مبتلا ہیں اور ان کے ڈاکٹرز لاہور میں ہیں جس پر جج ارشد ملک نے
ریمارکس دئیے کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر
ہوگا۔ عدالت نے نواز شریف کی اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے
کی درخواست منظور کرلی۔ نواز شریف نے گزشتہ رات اڈیالہ جیل گزاری جس کے
بعدعدالت میں جیل منتقلی کے احکامات لینے کے لیے پیش کیا گیا جس کے بعد کوٹ
لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا۔
نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرصدارت نیب ہیڈ کوارٹرز میں
اجلاس میں جس میں سینئر قانونی ماہرین، متعلقہ ڈی جیز اور سینئر افسروں نے
شرکت کی۔ اجلاس میں نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کی بریت کے احتساب
عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں
اب شنید ہے کہ زرداری کو گرفتار کیا جائیگا۔ شہباز شریف پی اے سی کے
چیئرمین منتخب ہوچکے ہیں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں۔ میرئے خیال میں زرداری کی
گرفتاری کے بعد شہباز شریف کو رہا کردیا جائے گا یوں پھر شہباز شریف
اپوزیشن کریں گے اور عمران خان حکومت کریں گے۔ لیکن اگر احتساب کا شکنجہ
سخت کرنا ہے تو پھر تمام بااثر افراد کو پکڑا جائے۔ خواہ وہ کسی بھی جماعت
کے سیاستدان ہوں ، سابق جرنیل ہوں یا جج ہوں، لینڈ مافیاز ہوں۔ تحریک انصاف
کی حکومت کی طرف سے اب انصاف کی توقع ہے کہ وہ سب سے یکساں سلوک کرئے۔ |