انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا اور ایگزامینیشن ہال میں
تو بالکل بھی خوش نہیں رہتا۔ دنیا چوں کہ امتحان گاہ ہے اس لئے انسان اس
حال میں خوش کیسے رہ سکتا ہے۔بارش میں بہت سے لوگ خوش بھی ہوتے ہیں اور بہت
سے پریشان بھی۔ کیوں کہ کوئی بھی چیز سب انسانوں کو خوش نہیں کر سکتی :نہ
دھوپ نہ چھاؤں اور نہ ہی بارش۔دن کی روشنی میں کوئی اور روشنی اچھی نہیں
لگتی کیوں کہ دن کو سورج کا راج ہوتاہے اور حکمران کو اپنی چیزیں ہی اچھی
لگتی ہیں ۔بلکہ بادشاہ کی چیزوں کو شاہی چیزیں اور اس کی اولاد، چاہے
نالائق ہو،شاہی اولاد کہلاتی ہے۔ انسان نے ہمیشہ اپنے لئے امتیاز اور
دوسروں کے لئے مساوات کا پرچار کرنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب بھی کیا ہے۔
انسانوں کو دوسروں میں مساوات اور اپنے میں امتیاز چاہیئے۔بادلوں کے اندر
بننے والی شکلیں بھی عجیب اور عارضی ہوتی ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے ہوا کے
ہاتھ میں برش ہے، بادل اس کا کینوس ہے اور وہ آسمان کو بطورِ پسِ منظر
استعمال کرتے ہوئے وہ تصاویر بناتی اور بگاڑتی چلی جا رہی ہے۔اگر دیکھا
جائے تو یہی حال زندگی اور انسان کا بھی ہے۔ انسان ، زندگی کی ہوا کے آگے
بے بس ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کس وقت ہوا کس سمت میں چل پڑے،اور کیا
شکل اختیار کر لے۔
بادشاہوں کی اکثریت کا اختتام اچھا نہیں ہو تا اور وہ مشکلات میں گِھرے
گِھرے گھر چلے جاتے ہیں یا انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ بادشاہ ، اکثر اگلے
گھر ہی بھیجے جاتے ہیں تا کہ ان کی واپسی کا امکان کم ہو ۔ لیکن اکثر ہوتا
یہ کہ نئے بادشاہوں کو ہٹانے کے لئے پرانے بادشاہ کم ہی آتے ہیں بلکہ نئے
طالع آزماؤں کا خطرہ زیادہ ہو تا ہے۔
چہچہاتے پرندے بھی یقینی طور پر کوئی نہ کوئی بولی بولتے ہیں ورنہ وہ اتنا
جو ش وخروش سے نہ چہچہائیں۔ آپس میں لڑتے کتے اور باقی جانور بھی بالکل یوں
لگتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو گالیاں نکال رہے ہوں اور ایک دوسرے کو طعنے دے
رہے ہوں اور برا بھلا کہہ رہے ہوں۔گرجتے بادل بھی، یوں لگتاہے، جیسے
انسانوں پر اپنا غصہ نکال رہے ہوں اور ان کو متنبہ کر رہے ہوں کہ بندے بن
جاؤ ورنہ، ورنہ تمھیں بارش کے پانی سے بگھودیں گے۔ پھر نہ کہنا بتایا نہیں
تھا۔ جس طرح نیا جوتا بالکل پاک صاف ہوتا ہے اور سڑک پر چلتے چلتے میلا
کچیلا بلکہ ناپاک سا ہو جاتا ہے اور اس کا مسجد میں داخلہ منع ہو جاتا ہے،
ایسے ہی انسان دنیا میں پاک صاف آتا ہے لیکن دنیا کی سڑک پر چلتے چلتے میلا
کچیلا ہو جاتا ہے اور اس کے دل سے خدا دور ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم سے کپڑے مس کر لیں تو وہ بھی میلے اور بد بو دار ہو جاتے ہیں،
وہ پاؤں میں جرابیں پہن لے تو وہ بھی بو دینے لگتی ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی
ہیٹ یا ٹوپی استعمال کرے تو وہ بھی دھونے والی ہو جاتی ہے۔ انسان کا جسم
پاک صاف ہی تو ہوتا ہے لیکن اس کی بو اچھی نہیں ہوتی، اور انسان کو بہتر
خوش بو لگانی پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح سے انسان کی ذاتی سوچیں اتنی اچھی نہیں
ہوتیں اور اسے دوسروں کی اچھی خوش بو دار سوچیں اختیار کر کے اچھا انسان
بننا پڑتا ہے۔
اخبار کا زمانہ پرانا پرانا سا ہو چکا ہے لیکن مزے کی بات ہے کہ اخبارا ت
کی تعداد میں کافی اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے، ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ
اخبارات نکل رہے ہیں اور چل بھی رہے ہیں۔ اور لوگ پڑھ بھی رہے ہیں۔ مغرب
میں بھی یہی انداز ہے اخبارا ت کی اشاعت اور سٹڈی ختم نہیں ہوئی۔ شاید
اخبارات ہمیشہ نکلتے ہی رہیں۔ ہو سکتا ہے اخبارات کاغذ پر نکلنے آہستہ
آہستہ کم ہو جائیں اور ایک دن سارے اخبارات سکرین پر ہی رہ جائیں۔ کیوں کہ
آج تقریباً ہر اچھا اخبار سکرین پر بھی دستیاب ہے۔
’ جَنج‘ (برات) اور جنگ میں صوتی قربت کے ساتھ ساتھ معنوی شراکت کا احساس
بھی موجود ہے۔’ واجے‘( باجے) نہ صرف جنج کے ساتھ بلکہ جنگ کے ساتھ بھی ہوتے
ہیں۔ پرانے زمانے میں ’دیساں دے راجے ‘ (بادشاہ ) ہاتھیوں یا گھوڑوں پر
بیٹھ کر جنگ لڑا کرتے تھے۔ جنج دراصل عملی زندگی کی جنگ کا آغاز ہے جو تا
’دمِ ہار ‘ یا تا دمِ واپسی جاری رہنی ہوتی ہے ۔
چائے پیتے ہوئے انسان کا دماغ بہت اونچی سطح پر چلا جاتا ہے اور سگرٹ چوستے
ہوئے اس سے بھی اوپر ہو جاتا ہے اور اگر سگرٹ اور چائے اکٹھی میسر آ جائیں
تو انسان کا سر ساتویں آسمان کی نیچے والی سطح کے ساتھ رگڑ کھانے لگتا ہے۔
اور پھر لامکان سے ایسے ایسے خیالات وارد ہوتے ہیں کہ فرشتے بھی کیا جانیں۔
وہ چائے اور سگرٹ سے استفادہ نہیں کرتے۔
فطرت کا مکمل ادراک مشکل ہے ، ہر شخص اپنی بساط ، اوقات اور اوقاتِ کار کے
مطابق ہی فطرت کی شناسائی حاصل کر پاتا ہے۔ اس میں بھی کچھ کمی بیشی کا
امکان ہوتا ہے۔ فطرت کا کوئی ایک رنگ یا روپ بالکل نہیں۔ اس کے ہزاروں رنگ
اور بے شمار ڈھنگ ہیں۔ اس کے ساتھ چلنا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ اس کی
انتہائیں شدید اور انسان کی برداشت سے آگے ہیں۔ اس سے بچنا دانائی اور اس
سے لڑنا نادانی ہے۔ رات کو آرام اور دن کو کام سے مزین کرنا ہی زیادہ مناسب
ہے۔ فطرت ،زندگی کا بہاؤ ہے اس کے خلاف چلنے میں نقصان اور گراوٹ ہے۔ یہ
قدرت کا ضابطہ ہے اس کے حکم پر لبیک کہنا ہی پڑتا ہے ۔ چاہے نقصان اٹھانے
کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
ذروں میں چکمتا سورج بھی شاید کوئی پیغام دیتا ہے۔ ذرے بھی تو دل رکھتے ہیں
اور دل تو سب کے ایک جیسے جذبات سے ہی لبریز ہوتے ہیں۔ کس کا چمکنے کو دل
نہیں کرتا، ذرہ بھی چمک کر اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔انسان بھی ذرہ ہے اور
ذروں کی طرح کبھی کبھی سورج اپنے سینے میں سما لیتاہے۔ اور سمجھتا ہے کہ وہ
بھی سورج ہے جب کہ وہ تو بے حیثیت ذرہ ہوتا ہے، یہ تو سورج کی کِرپا ہے کہ
اس کے اوپر چمکتا ہے اور اسے بھی چمکا دیتا ہے۔ |