اوٹ پٹانگ کو لکھے کافی دن ہو گئے تھے، سوچا کوئی
نئی اوٹ پٹانگ لکھی جائے۔ سردی بڑھ رہی ہے اور دھند کا قلمرو وسیع سے وسیع
تر ہوتا جا رہا ہے۔ آلو کی فصل بونے اور کاشت کرنے والے موجودہ حکومت کے
خلاف بیان بازی پر اتر آئے ہیں۔ خزاں کا موسم اپنی بہار دکھا کر سردی کی
لپیٹ میں جانے کی تیاری کر چکاہے اور لنڈا بازار کی رونق عروج پر ہے۔ غریب
لوگ مقامی لنڈا بازار سے چیزیں خرید لیتے ہیں اور امیر لوگ لاہور کے لنڈا
بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ڈالر ایک سو تیس روپے کی حد کراس کر چکا ہے۔ ویسے
بھی ہم ولایتی چیزوں کو بہت قدرومنزلت دیتے ہیں لیکن ڈالر کو کچھ زیادہ ہی
اونچا مقام مل چکا ہے۔ زندگی کی سمجھ حاصل کرنے کے لئے اب داناؤں کے پاس
جانے کی ضرورت کم اور موبائل اور کمپیوٹر کے ماہرین کے پاس جانے کی ضرورت
زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس زمانے کو کمپیوٹر سے بھی آگے کا زمانہ کہا جائے تو
شاید درست ہو لیکن کمپیوٹر سے آگے کی کوئی مشینری ابھی واضح نہیں ہوئی اور
نہ ہی یہ واضح ہوا ہے کہ آگے ہے بھی کیا۔ انسان کو کتابوں میں جتنے سبق
پڑھائے جاتے ہیں ان کی اکثریت دنیا کے بازار میں غلط ثابت ہوتی ہے ۔
حکومت نے غریبوں کی مکانات، دکانیں اور سہارے ڈھا کر تیر مار لیا ہے
جوسیدھا غریبوں کے سینے کے آر پار لگا ہے۔ دکھاوے کے بہادروں کا وطیرہ ایسا
ہی ہوتا ہے۔ سڑک کے کنارے اڑتا غبار انسان کو اس کی اصلیت دکھاتا ہے کہ وقت
کی سڑک پر اس کی حیثیت اس غبار جیسی ہے جس کا کوئی نام و نشان اور شکل نہیں
ہوتی۔ دنیا کے عظیم لیڈروں کی تصویریں نوٹوں پر چَھپ جاتی ہیں، ان کو ہر دن
دیوتاؤں کی طرح پوجاجاتا ہے اور ان کے خلاف بات کرنا قابلِ تعزیر جرم یعنی
ریاستی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں دیومالائی مذاہب تھے لیکن اب
دیومالائی سیاستیں اور ریاستیں ہیں۔ خشک پتے بڑے کام کے ہوتے ہیں ان پر
زندگی کے بہت سے سبق لکھے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس پڑھنے والی عینک نہیں
ہوتی اور ہم اندھوں کی طرح ان مقدس پتوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں اور ان
کی چیخ و پکار بھی نہیں سنتے مطلب کی ہم اندھے ہی نہیں بہرے بھی ہوتے ہیں۔
ہمیں ہوس پرستوں کی طرح صرف اور صرف پھول ہی پسند ہیں اور وہ بھی کھِلے
ہوئے، نوجوانوں کی طرح اور بوڑھوں کی طرح مرجھائے پھولوں کو بھی کوڑے کے
ڈھیر کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔
بچوں کے بیگ اتنے بھاری کر دیئے گئے ہیں کہ ان سے اٹھانے مشکل ہی نہیں نا
ممکن بھی ہو گئے ہیں۔ ان کے کندھے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن
دانشورانِ دوراں بضد ہیں کہ بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا جائے اور ان کے
کھلونے گم کر دئے جائیں اور ان کو پڑھائی کے قید خانوں میں پابندِ سلاسل کر
دیا جائے۔ بچوں میں تعلیم کا شعور پیدا کرنے کے لئے ان کو ان کے وزن سے
زیادہ بھاری بیگ اٹھوانا بہت ضروری ہے ورنہ ان کو سمجھ نہیں آئے گی کیوں کہ
حرام مغز پر دباؤ ڈال کر ہی اس کا حرامی پن دور کیا جا سکتا ہے۔ قدیم کو
برا کہے بغیر اس سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے اس لئے ماضی کی تعریف نہ کی
جائے، بلکہ ماضی کو پس ماندہ اوردرماندہ سمجھ کر ہی نئی دنیا اور اس کی
ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھنا مزا دیتا ہے۔ ماضی ہوتا ہی بھول جانے کے لئے
ہے۔ مستقبل میں تو انسان کے سر پر بال نظر نہیں آتے، وہ اس پر ماضی کی اتنی
بھاری گٹھڑی کیسے اٹھائے گا۔
زندگی دوسروں کو دعا دیتے گزرے تو بہت اچھا ہے اور اگر دوا دیتے گزرے تو
برا پھر بھی نہیں۔دینااچھی عادت ہے اگر گالی یا بد دعا یا برا مشورہ نہ ہو
تو۔ جنوری میں جون اور جون میں جنوری ضرور یاد آتی ہے، دن ہو یا رات۔سردی
کی لمبی رات جاگ کر گزاریں تو گزرتی نہیں اور اگر سوکر گزاریں تو ٹھہرتی
نہیں۔ایک کروٹ بدلو تو کانوں میں اذانوں کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں اور
اگر ایک اور کروٹ بدل لو تو دن ہی نکل آتا ہے۔ اور اگر کروٹ نہ بدلو تو
تھکاوٹ بڑھ جاتی ہے۔ مسمار کئے جانے والے مکانوں کی مکینوں سے ہمدردی کا
گراف سردی کے تناظر میں اور بھی اوپر اٹھ جاتا ہے۔ اور یہ کارِ چنگیزی وہ
لوگ سرانجام دے رہے ہیں جن کو غربت کا احساس نہیں کہ غربت کیا ہے۔ انہوں نے
ہمیشہ اپنے ارد گرد محلات اور قلعے ہی دیکھے ہیں۔
بسنت کی اجازت دینے والے اس کے حادثات کی تصاویر دیکھ لیں اور پھر اس’
تہذیبی‘ تہوار کو منائیں۔ اگر یہی’ تہذیب‘ ہی اپنانی تھی تو لاکھوں بے
گناہوں کا خون کس شوق میں بہوا دیا ۔نظریہ کدھر گیا ، ایک طرف ریاستِ مدینہ
کی الاپ اور دوسری طرف ناچ گانے کی تھاپ۔سیاست انسان کو سکون کم اور
پریشانی زیادہ دینے والی چیز ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو سیاست بھی ذہنی نشہ
ثابت ہو سکتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ تو بچہ جمورا ہے بلکہ زیادہ بہتر ہو
گا کہ اگر اسے’ بچہ جمہورا‘ کہا جائے۔
|