ممتا اور کالا قانون

محترم ساتھیوں ۔۔۔۔۔ میرا یہ کالم کسی صاحب کے ایک موضوع پر دئیے گئے کمنٹس کا حصہ ہے۔ جو کچھ اہل محبت کے اصرار پر کالم کی صورت پیش کئے جارہے ہیں۔

ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے جذبات کو بہتر انداز میں پیش کرے لہٰٰذا کسی کی طرف سے سلمان تاثیر کی حمایت بھی اسی حق کے استعمال کا ایک انداز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیا حق یہی ہے کہ جو ہمارا ناقص ذہن سمجھے اور جو ہماری گز بھر کی زبان بولے ۔۔۔ بس وہی سب کے ذہنوں میں اُنڈیل دیا جائے۔

دیکھئے بات سمجھانے کے انداز ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی بات کو اچھے اور پرسکون انداز میں بھی پیش کرسکتے ہیں اور خوب خوب گرج برس کر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پرسکون مگر بے دلیل انداز میں کیا گیا احتجاج ہماری غیر ذمہ داری ،حالات سے ناواقفیت اور صحیح و غلط کی پہچان میں دشواری کو ظاہر کرتا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ پرزور احتجاج علمی دلائل کیساتھ ہماری نیک نیتی ، انصاف پسندی اور حق و باطل میں تمیز کے وجدان کے اظہار کا سبب شمار ہوتا ہوگا۔

ممتاز قادری نے اتنا سخت ردعمل کیوں اختیار کیا ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ اس کے پیچھے عوامل میں مولانا صاحبان کا ہاتھ ہے یا ممتاز قادری کا یہ ذاتی ردعمل ہے یا پھر امت مسلمہ کا اجتماعی نظریہ ہے۔ اور کیا ممتاز قادری اور ان کے حامی شدت پسند ، تعصب برتنے والے ، جاہل اور دنیا میں رہنے کے طور طریقوں سے بے خبر لوگ ہیں ۔۔۔۔۔

دیکھئے ۔۔۔۔۔۔ اگر ہماری اولاد کو معمولی سا زکام ہوجائے یا حرارت محسوس ہو تو ہم سب سے قابل اور اپنے شعبہ میں ماہر ڈاکٹر کا انتخاب کر کے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہر ایرے غیرے کے ہاتھوں اپنی اولاد یا اپنے عزیزوں کو تختہ مشق بننے کے لئے نہیں لے جاتے۔ اگر بازار جائیں تو سب سے بہترین سوٹ اور دیگر ضروریات زندگی کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ غرض تمام مثالیں اس ریفرنس میں ہم جمع کرلیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم کسی صورت ہلکی ، معمولی یا غیر پرکشش چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ ہم ہر ہر گاہ بہتر سے بہترین کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اسی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ان تمام مواقعوں پر ہم کسی بھی صورت کمپرومائز والی حالت میں جانے کا خیال تک دل میں نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔

بہنوں اور بھائیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری والدہ نے ہمیں بھر پور چاہتوں سے پالا ، ہماری تمام ضروریات کو پورا کرنا اپنی زندگی کا مقصد جانا ۔۔۔۔۔۔ ہر مشکل کو ہم سے دور رکھنا چاہا۔۔۔۔۔۔ ہماری محبت میں دن و رات ایک کردئیے ۔۔۔۔۔۔ بچپن میں ذرا ہم سوتے میں ڈر جاتے تو وہ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے ہونے اور ایک قسم کے تحفظ کا بھی احساس دلایا کرتیں تھیں ۔۔۔۔۔ ہماری خاطر والد صاحب سے بھی جھگڑا کرجاتی ہوں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اسکول سے کب آئیں یا کب ہم کو کھانا کھانے کی ضرورت ہے وہ بغیر پوچھے ہماری پسند کی چیزیں تیار رکھتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ہمیں ڈانٹ کر دیکھے تو سہی ہماری مائیں سائے کی طرح ہماری حفاظت کرتی رہتی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ان تمام تر محبتوں کے صلہ میں ایسی عظیم ماں کو کیا چاہئیے ۔۔۔۔۔۔ صرف ہماری توجہ اور اتنا ہی پیار جتنا کہ اس کا حق ہے ۔ وہ محبتوں بھرے کلمات ، جذبات و احساسات اور محبت بھری وہ تمام تر نزاکتیں کہ جو یقیناً اس کی شفقتوں کا جواب تو نہیں مگر ایک ادنیٰ سا ہدیہ ہے ، ایک شکریہ ہے ، ایک پرخلوص ذریعہ ہے اس کی مہربانیوں کی قدر کرنے کا ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اتنے نازک تقاضوں کی ادائیگی میں گر کسی کی بدزبانی اتنا ہی گُل کھلائے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘ ماں نے محبتوں کے جو اصول مرتب کئے وہ سب کالا قانون ہیں ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہئے کیا کہیں گے ایسی بدبخت اولاد کے لئے جو تمام مشکلات سہنے والی ماں، عافیت کا سایہ بکھیرنے والی ماں اور اولاد کے عیوب پر پردہ رکھنے والی ماں کی محبت کو اُس وقت کی ضرورت خیال کرے ۔۔۔۔۔۔۔ خود کو آزاد اور زیادہ سمجھدار تصور کرے ۔۔۔۔۔۔ اور برملا یہ کہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘میری ماں کے لئے میرا باپ موجود ہے وہ اس کی ناموس کی نگہبانی کرے ، مجھے کیا میں تو اظہار رائے کا احترام کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ’

بھائیوں اور بہنوں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی یہ اظہار رائے ہے ، کیا واقعی اب ماں کی ممتا کی کوئی اہمیت نہیں ، کیا واقعی وہ اولاد زیادہ سمجھدار ہے جو ماں پر انگلی اٹھانے والے کے لئے اظہار رائے کا لفظ ادا کر کے مطمئین ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

میرا رب ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔ ایک عام انسان سے ایسی محبت ہے تو اُس سے محبت کا کیا عالم ہوگا کہ جس کے لئے یہ تمام کائنات سجائی سنواری گئی ۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان کو ادب مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دینے والا رب ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اونچی آوازوں کو روکنے والا رب ، محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی بات آجائے تو ‘محبوب تیرے رب کی قسم‘ فرماکر محبت کی معراج کا نقشہ کھینچ دینے والا رب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت ایسی کرے کہ ذات و صفات میں بے مثال کردے ۔۔۔۔۔ عالم کو مداح حبیب علیہ السلام کردے ۔۔۔۔۔ تو کیا ایسے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پیش کردئیے گئے مروجہ اصول و ضوابط کو ہم اپنے ناقص دلائل اور بے تکے تجزیوں کی نظر کردیں ۔۔۔۔۔ اور پھر بھی کہیں ہمارے دلوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہے ۔۔۔۔۔۔ تو یہ کیسی محبت ہے کہ ایسے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر مر مٹنے والے تو واجب سزا ٹھریں اور بد زبانی کرنے والے نام نہاد دانشور و دنیا پرست اہل حق قرار پائیں ۔۔۔۔۔۔

یاد رکھئے امت مسلہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے اور بدزبانوں کی زبان کو لگام دینے کی ہمت رکھتی ہے اور یقیناً آپ تمام عشاق و محبین بھی ایسا ہی عظیم جذبہ رکھتے ہوں گے ۔۔۔۔۔ مگر محبت کا اصول یہ ہے کہ محبت ہمارے انگ انگ سے پھوٹنے لگے۔ گفتار محبت کا راگ سنائیں تو کردار محبت کی عملی تصویر پیش کریں۔۔۔۔۔۔ پھر دھرتی پر کوئی سلمان تاثیر نہ ہوگا بلکہ سوز بلالی و کلمات حسان کی گونج سنائی دے گی ۔ واللہ و رسولہ اعلم
Kamran Azeemi
About the Author: Kamran Azeemi Read More Articles by Kamran Azeemi: 19 Articles with 55604 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.