تحریر:عروب فاطمہ
اردو ایک اجتماعی، تہذیبی، رابطہ جاتی زبان ہے۔ اردو کسی قوم کی مادری زبان
نہیں نہ کسی خاص قبیلے کی پہچان رہی ہے۔ اردو ترکی زبان میں لشکر اور
فرودگاہ کو کہا جاتاہے. ترکی میں یہ ’’اورد‘‘، ’’اوردہ‘‘، ’’اوردو‘‘ اور ’’اردو‘‘
کی اشکال میں موجود ہے۔ جس کے معنی لشکر اور قلعہ کے ہیں۔ ارو زبان ایک
یتیم بچے کی مانند تھی جس کی پیدائش خلجی دور میں ہوئی۔ وقت کی آندھیوں میں
اپنا آپ گنوا رہی تھی اور کسی کو اس مفلوک الحال پر ترس نہ آیا۔ دور بدلتے
رہے لیکن حالات نہ بدلے۔ وقت کی سِتم ظریفی کہ ادنی آدمی بھی اسے منہ نہ
لگاتا۔ اردو دم توڑنے کو تھی تب اسے شعرا ء نے سینے سے لگایا اور محبت سے
اس کی پرورش کی۔ اردو 1836ء کے بعد لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی۔
اردو جو کہ برعظیم پاک و ہند میں مسلم فاتحین کی آمد کے ساتھ آئی اور معاشی
لین دین اور باہمی میل جول سے دیگر زبانوں کے اشتراک سے منظرِعام پر آئی۔
اردو گزرتے وقت کے ساتھ اپنے نام بدلتی چلی گئی۔ جس دیس میں گئی ویسا بھیس
اپنا لیا۔ اردومعلی، ہندی، ہندوی، دکنی، زبانِ اردو اور ریختہ کے ناموں سے
جانی گئی۔زبان کے طور پر اردو کا لفظ سب سے پہلے مائل دہلوی (استاد شاہ
نصیر دہلوی) نے استعمال کیا۔ اردو زبان کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی
قطب تھے۔1616ء میں ان کا دیوان مرتب کیا گیا۔ اردو آج دنیا میں بولی جانے
والی تیسری بڑی زبان ہے ماضی میں اردو زبان کو نہ اپنایا گیا۔
بادشاہوں اور امراء نے اردو کی ترویج پر توجہ نہ دی۔ صوفیاء کرام اور فقراء
نے اردو زبان کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ شعراء نے
اس زبان کو اپنے جذبات کی حدت سے پروان چڑھایا۔ ان کے خیالات اس زبان کے
پیرہن میں خوب صورت دوشیزہ سے کم نہ تھے۔ لوگ اس زبان اور اس کی راعنائی سے
متاثر ہوئے بِنا نہ رہ سکے اور اردو کے گن گانے لگے۔
خدا رکھے زبان ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
یوں اس زبان نے ارفع مقام پایا اور ہر جگہ اردو کا ڈنکا بجنے لگا۔ اردو
زبان یونانی، پر تگالی، ہسپانوی، ولندیزی، اطالوی، فرانسیسی اور انگریزی
زبانوں کا مجموعہ ہے۔ اردو زبان کی ساخت ایسی ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ کو
اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ اردو زبان میں تقریباً ہر زبان کے الفاظ شامل
ہیں۔ اسی لیے اِسے ’’لِسان الارض‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ قیامِ پاکستان کے محرکات میں اردو زبان اہم
محرک رہا ہے۔ اردو زبان جس طرح قیامِ پاکستان کا محرک بنی اسی طرح تقسیمِ
پاکستان کا باعث بھی بنی۔ اردو پاکستان کی سرکاری زبان رہے یہی مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔ اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ
ملا اور تدریسی عمل میں اردو کا کردار نا قابلِ فراموش ہے۔ اردو کی ترویج
میں تدریسی نکتہ نگاہ اپنی افادیت رکھتا ہے۔ اردو تعلیم و تدریس میں لازمی
مضمون کے طور پہ پڑھائی جاتی ہے۔ اردو زبان میں نثر، نظم، افسانے، ڈرامے،
ناول، مزاح، مرثیے لامحدود تعداد میں موجود ہیں۔
اردو زبان طالب علموں کو وطنیت کے جذبے سے روشناس کرانے میں کارہائے نمایاں
سرانجام دے رہی ہے۔ طالب علم اپنی روایات کو زندہ و جاوید رکھنے میں اردو
کی معاونت حاصل کر رہے ہیں لیکن دورِ جدید کے تقا ضے طالب علموں کو اپنی
اقدار سے دور کر رہے ہیں۔ انٹر نیٹ کا بڑھتا ہوا رجحان اور انگریزی زبان کو
اسٹیٹس کا معیار سمجھنے سے اردو زبان ایک بار پھر سے اپنا مقام کھو رہی ہے۔
نئی نسل نصاب میں شامل چند نثر پاروں اور شاعری سے واقف ہے۔ حیف کہ قومی
زبان ہو نے کے باوجود اردو بولنے والوں کی شرح میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔
اردو زبان میں دیگر زبانوں کی اس قدر ملاوٹ سے اردو زبان کا حسن مانند
پڑرہا ہے۔ اردو زبان کے تحفظ اور تشہیر کے لیے اداروں کو اپنے کردار کو
موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اخبارات اور رسائل اس ضمن میں احسن کردار ادا
کر رہے ہیں۔
یہاں اردو ایک بار پھر سے اپنا مقام پانے کی جدوجہد میں ہے۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے |