مکھڈ کے بارے تاریخ میں لکھا ہے کے یہ بستی 920 قبل مسیح
آباد تھی 333 قبل مسیح میں شہنشاہ دارا نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنی
سلطنت میں شامل کیا 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے جب راجہ پورس سے جنگ کی
تو اس کے لشکر کے کچھ لوگ بھاگ کر مکھڈ آگئے 317 میں نوشیروان عادل کے دور
میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا اور ہندومت کا مرکز تھا 1027 میں جب
محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پہ حملہ کیا تو وہ مکھڈ سے گزر کر گیا 1192
میں شہاب الدین غوری کے بعد مکھڈ حاکم لاہور قطب دیں ایبک کے زیر انتظام آ
گیا 1520 میں جب ابراھیم لودھی حمکران بنا تو مکھڈ حاکم ملتان کے زیر نگین
آگیا 1580 میں جب اکبر نے دیں الہی ایجاد کیا تو اس کے خلاف مہم میں مکھڈ
کے حاجی احمد پراچہ پیش پیش تھے 1650 میں عراق کے دارلحکومت بغداد سے ایک
صوفی بزرگ ایران بلوچستان بنوں سے ہوتے ہوئے مکھد آئے اس وقت مکھڈ ہندومت
کا مرکز تھا انہوں نے یہاں اسلام کی روشنی پھیلائی اور یہ صوفی بزرگ نوری
بادشاہ کے نام سے پکارے جانے لگے1857 جب مغل سلطنت کا سورج غروب ہوا تو
مکھڈ انگریز سرکار کے زیر تسلط آ گیا مکھڈ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے
انگریز دور میں میانوالی حیدر آباد کراچی سکھر سے تجارتی سامان مکھڈ آتا
اور یہاں سے تلاگنگ راولپنڈی چکوال لے جایا جاتا 6 مارچ 1894 کو انجرا
ریلوے اسٹیشن کا افتتاح ہوا اور انجرا سے مکھڈ کچی سڑک بنائی گئی 1922 میں
جنگ عظیم اول کے بعد انگریزوں نے اپنا ریکروٹنگ رجسٹر دیکھا تو جنگ عظیم کے
دوران انگریز فوج میں سب سے زیادہ بھرتی پیر آف مکھڈ نے کرائی انکے اس کام
کے بدلے انہیں ضلع لاہور و وہاڑی میں 25000 کنال زمین بطور انعام دی گئی
قصبہ مکھڈ ایک ٹیلے پہ آباد ہے قدیم شہر ایک قلعہ نما تھا جسکے مختلف
دروازے تھے آج بی اسکے آثار موجود ہیں مکھڈ کی گلیاں و مکان قدیم دور سے
پتھروں سے بنائے گئے دریا کے کنارے ہونے سے لکڑی کا فراوانی سے استعمال کیا
گیا 1990 میں مکھڈ سے جھمٹ سڑک پختہ کی گئی 1994 میں یہاں بجلی آئی خان آف
مکھڈ پیر آف مکھڈ اور پراچہ یہاں کے مشہور قبائل ہیں.
لارڈ ویول وائسرائے ہند ، باچا خان، میاں ممتاز دولتانہ وزیر اعلی پنجاب،
فیروز خان نون وزیر اعظم پاکستان، غلام مصطفی کھر گورنر پنجاب، محترمہ
بینظیر بھٹو، میاں منظور وٹو وزیر اعلی پنجاب اپنے اپنے ادوار میں مکھڈ کا
دورہ کر چکے ہیں.
ضرورت اس امر کی ہے کے مکھڈ کے تاریخی اثرات جو کے شکستہ حالت میں ہیں
انہیں محفوظ کیا جائے اور نئی نسل کو اس سے آگاہ کیا جائے.
تحریر: احسان علی ظفر
|