*حضرت علی کر اللہ وجہہ کا قول ہے کہ
"رشتے خون کے نہیں بلکہ احساس کے ہوتے ہیں اگر احساس ہے تو اجنبی بھی اپنے
بن جاتے ہیں اور احساس نہ ہو تو اپنے پرائے ہوجائے ہیں"
زندگی کو خوشگوار اور سہل بنانے کیلیے رشتوں کو اسپیس دینا پڑتی ہے رشتے
خون کے ہوں یا احساس کے جتنے دل کے قریب ہوں گے اتنے ہی پائیدار ہوں گے ۔
اسی طرح لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنانے کیلیے تھوڑا صبر برداشت اور انتظار
بھی ضروری ہے بالکل ایسے ہی جیسے آپ جب کسی بس میں سوار ہوں تو کچھ دیر تو
کھڑے ہوکر سیٹ کا انتظار کرتے ہیں۔پھر کوئی آپ کا ہینڈ بیگ لے لیتا ہے ۔
کھڑے کھڑے کچھ ہی دیر گزرتی ہے کہ بیک سیٹ پر پہلے سے بیٹھے چار آدمیوں میں
سے کوئی ایک ذرا سا کھسک کر آپ کو سیٹ پر بیٹھا لیتا ہے ۔ شروع میں آپ تنگی
محسوس کرتے ہیں پھر تھوڑی دیر میں غیر محسوس طور پر آرام دہ محسوس کرنے
لگتے ہیں یا اپنی جسامت کے مطابق جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ہیں پھر
بقایہ سفر راحت و اطمینان سے گرتا ہے۔
رشتوں کو اپنایا جاتا ہے۔کسی کو اپنا بنانے کے لئے اپنا آپ اس کو دینا پڑتا
ہے۔پھر وہ ہمیشہ کیلئے آپ کا بن جاتا ہے۔تکلف حد سے بڑھ جاے تو تکلیف بن
جاتا ہے۔ہماری پنجاب میں ایک چچی ہوتی ہیں ۔ہمیشہ بڑی محبت اور اپنایت سے
ملتی ہیں۔جب ملتی ہیں تو یوں پوچھتی ہیں کہ میری بہو کیسی ہے ۔میرے پوتا
پوتی کیسے ہیں۔ان کو میرا پیار دینا۔اپنے پچوں کا حال کچھ اس طرح دیتی ہیں
کہ آپکی بہن اپنےگھر میں بہت خوش ہے آپ کے بھانجے بھانجی نے امتحان میں
بہترین کامیابی حاصل کی ہے ۔اس میں غور طلب یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے رشتوں
کو اپنا بنا لیا اور اپنے رشتے ہمیں سونپ دیے۔اس سادہ سی خاتون نے زندگی کا
بڑا فلسفہ ہمیں سکھلادیا۔
آپ جب ان کے پاس سے مل کر اٹھیں گے تو محسوس کریں گے کہ آپ کے دل میں انکی
محبت اور لگاو (گر اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہو اور اگر یہ مائع کی شکل
میں ہو تو ایک لیٹر سے بڑھ کر سوا لیٹر) بڑھی ہے۔
اس کے برعکس آپ کسی کے گھر جائیں اور وہ آپ سے یوں پوچھیں کہ
آپ کی بیگم کیسی ہیں ؟
آپ کے بچے کیسے ہیں ؟
رسما آپ بھی انکی خیرخیریت پوچھ لیں گے ۔حالات حاظرہ پر گفتگو کرلیں گے یا
سیاست پر ، تفنن برطرف سیاست پر بات کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی لاتعلق
شخص کے کاروبار کے بارے مں فکرمند ہونا ، یہاں اجنبیت کی دیواریں ہنوز باقی
رہیں گیں کیونکہ یہاں رشتوں کو اون نہیں کیا جارہا ۔دلوں کے تار چھیڑے ہی
نہیں گئے تو کسی لافانی نغمے کی توقع رکھنا عبث ہے بعد از ملاقات محبت
پیمانے کی صورت میں ناپیں تو محبت اگر مائع ہےتو ایک لیٹر سے کم ہوکر آدھا
لیٹر رہ گئی ہے۔ ایسی ملاقاتوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔نشستن گفتن برخاستن۔
بچپن میں ہماری امی جان،اللہ ان کو کروٹ کروٹ چین نصیب فرماے،گھر آئے
مہمانوں کا ماموں خالہ نانا کہہ کر تعارف کرایا کرتی تھیں اور وہ بھی ہم سے
اسی محبت اور اپنایت سے ملتے تھے۔بڑے ہونے پر عقدہ کھلا کہ ہماری تو کوئی
حقیقی خالہ وغیرہ تھی ہی نہیں یہ تو ہماری امی کا ایک انداز حکیمانہ تھا کہ
پرائے بھی اپنے ہوجاتے تھے۔اللہ کو انکی یہ ہی ادائیں اتنی پسند آئیں کے
لیلتہ القدر کی شب صبح صادق سے چند لمحات قبل ملاقات کے لئے بلالیا۔
کہتے ہیں زیادہ سوچنا خوشیوں کو گہنا دیتا ہے۔مستقبل کے اندیشوں میں اپنے
حال کو غمناک نہ کریں۔ نئی تحقیق کے مطابق افسردگی اور منفی خیالات متوقع
زندگی میں ساڑھے سات سال کم کردیتے ہیں
۔آگے بڑھیئے اور رشتوں کو اپنا بنا لیجئے ۔زندگی آپ کی بن جاے گی۔
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے
(منور سعید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ نیا پاکستان )
|