وطن عزیز پاکستان کی اٹھترویں سالگرہ اور ہماری ذمہ داریاں


وطن عزیز پاکستان کی اٹھترویں سالگرہ اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: سیدہ ایف گیلانی ۔ آسٹریلیا
14 اگست 1947ء کا دن برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیغام لے کر آیا۔ یہ آزادی محض ایک جغرافیائی انقلاب نہیں تھی، بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک کی کامیابی تھی جس کا خواب شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا تھا۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ ان کی اصل طاقت ان کی خودی، ایمان اور تہذیبی ورثہ ہے، اور یہ کہ وہ اپنے لیے ایک الگ ریاست قائم کریں جہاں دین و سیاست ایک دوسرے کے معاون ہوں۔
1930ء کے خطبۂ الہٰ آباد میں اقبالؒ نے ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا، جس میں مسلمان اپنی زندگی قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق بسر کریں اور علمی و صنعتی ترقی میں دنیا کی صفِ اول میں کھڑے ہوں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسی وژن کو سیاسی جدوجہد میں ڈھال کر حقیقت کا روپ دیا۔
78 برس بعد ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہم اقبالؒ کے خواب کی تعبیر بن سکے؟
اقبالؒ ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جہاں عدل و انصاف سب کے لیے یکساں ہو، مگر آج انصاف مہنگا اور سست ہے۔
وہ تعلیم کو شخصیت سازی کا ذریعہ سمجھتے تھے، مگر ہم تعلیم کو محض ڈگری تک محدود کر بیٹھے ہیں۔
وہ خودی اور خودداری کے قائل تھے، مگر ہم اکثر معاشی اور فکری غلامی کا شکار ہیں۔
دریں حالات فکراقبال کی روشنی میں ہم پر کچھ اجتماعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مثلاً:
1. خودی اور خودداری کی بازیافت
اقبالؒ کا فلسفہ خودی ہمیں اپنی اصل پہچان اور عزتِ نفس کا درس دیتا ہے۔لہذا ہمیں انفرادی اور قومی فیصلوں میں خودمختاری اور وقار کو مقدم رکھنا ہوگا۔
2. علم و تحقیق کا فروغ
اقبالؒ نے فرمایا:
’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘
یہ ہمیں سائنسی تحقیق، جدت اور تعلیمی انقلاب کی دعوت ہے۔اس لیے ہمیں سائنس کی تعلیم کی طرف بھرپور توجہن کرنی چاہیے۔ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم فرسودہ ہو چکا ۔ اس میں تنوع لانے کے لیے ماہرین تعلیم کو دنیا کے جدید نظام ہائے تعلیم لا تقابلی مطالعہ کرکے پاکستان کے نظام تعلیم کو از سرنو مرتب کرنا ہو گا وگرنہ ہماری نئی نسل اکیسویں صدی کے تقاضوں کا مقابلہ نہ کر پائے گی۔

3. اخلاقی اور روحانی تربیت
اقبالؒ کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض معاشی فائدہ نہیں بلکہ کردار سازی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات، خدمتِ خلق اور قیادت کی تربیت کو لازمی بنانا چاہیے۔اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کسی حد تک تعلیمی اداروں میں حکیم الامت کے کلام سے استفادہ کیا جاتا ہے؛ لیکن اکثر انہیں ایک شاعر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ان کی فکر اور فلسفے کو کسی صورت بیان نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے خود تعلیم جیسے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ بھی درست طور پر اس بات سے آگاہ نہیں کہ اقبال تعلیمی میدان میں کو نسی اور کیا کیا استعداد اپنے طالبعلموں میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔
4. قومی یکجہتی
اقبالؒ نے “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے” کا پیغام دیا۔ ہمیں فرقہ واریت، لسانیت اور تعصبات کو ختم کر کے ایک ملت کی طرح سوچنا ہوگا۔
5. قیادت کا انتخاب
اقبالؒ کے فکر وفلسفہ کی بنیاد خودی کی بے داری ہے کیونکہ جب یہ صفت انسان میں پیدا ہو جاتی ہے یا بےدار کر دی جاتی ہے تو وہ ذاتیات سے بالا تر ہو کر اپنی قوم کا سوچتا ہے۔ اقبال نے اسی خودی والے انسان کو شاہین کہا — بلند نظر، خوددار اور جرات مند۔ ہمیں اپنی قیادت کا انتخاب اسی معیار پر کرنا ہوگا۔
بین الاقوامی تناظر میں اقبالؒ کا پیغام
اقبالؒ کے نزدیک ایک مضبوط پاکستان نہ صرف اپنے شہریوں کے لیے بلکہ عالمِ اسلام کے لیے امید کی کرن ہے۔ ان کا خواب ایک ایسے پاکستان کا تھا جو علمی، فکری اور سیاسی رہنمائی فراہم کرے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی، تجارت، ثقافت اور سفارت کاری کو خودداری اور عزت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔
اقبالؒ کے خواب کی تکمیل کی طرف
78 سالہ سفر میں ہم نے کئی کامیابیاں حاصل کیں، مگر ابھی منزل باقی ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا:
“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر”
لہٰذا ہر فرد کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے لیے کیا کر رہا ہے۔ ہماری اصل سالگرہ وہ دن ہوگا جب یہ ملک اقبالؒ کے خواب کے مطابق ایک باوقار، خوشحال اور خوددار اسلامی فلاحی ریاست بن جائے۔

 
Syeda F Gilani
About the Author: Syeda F Gilani Read More Articles by Syeda F Gilani: 50 Articles with 80125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.