30 روپے کا تنازعہ 4 زندگیاں نگل گیا
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
دونوں مقتول بھائیوں کے والدین اور عزیز سکتے کی حالت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ " اتنی معمولی بات پر ہماری دنیا اجڑ جانا ناقابلِ یقین ہے۔" خاندان کے افراد انصاف کی دہائی دے رہے ہیں تاکہ ان کے لختِ جگروں کے خون کی قدر ہو سکے ۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) یہ دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب دو سگے بھائی محض تیس روپے کے تنازعے پر قتل کر دیے گئے۔ جھگڑا معمولی تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے سنگین صورت اختیار کر گیا۔ ملزمان نے غصے اور انتقام میں اندھا ہو کر ان نوجوانوں کی جان لے لی اور لمحوں میں ایک خوش باش گھرانہ ماتم کدہ میں بدل گیا۔ واقعہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ راشد اور واجد نامی دو سگے بھائیوں کے قتل کا یہ واقعہ 21 اگست کو پیش آیا تھا،مقتولین کے والد سعید اقبال نے پولیس کو بتایا کہ 21 اگست کو ان کے دودھ کے کاروبار سے منسلک بیٹے راشد اور واجد گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں بھمبہ کے علاقے پر پھل خریدنے کے لیے رُک گئے، جہاں ان کا پھل کی ریڑھی کے مالک اویس اور ان کے بھائی تیمور سے جھگڑا ہوا اور پھر اویس، تیمور اور ان کے نامعلوم ساتھیوں نے ڈنڈوں اور کرکٹ بیٹ سے اس کے بیٹوں پر وار کیے جس کے نتیجے میں دونوں جاں بحق ہوگئے۔ واقعہ کے بعد پولیس نے مقتول لڑکوں کے والد سعید اقبال کی مدعیت میں اویس، تیمور اور پانچ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔پولیس نے اویس اور تیمور کو حراست میں لے لیا جنھیں بعد ازاں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی ) کے حوالے کردیا گیا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کے والدین اور عزیز آج بھی سکتے کی حالت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہمیں اپنے بیٹے تو واپس نہیں مل سکتے لیکن اتنی معمولی بات پر ہماری دنیا اجڑ جانا ناقابلِ یقین ہے۔" خاندان کے افراد انصاف کی دہائی دے رہے ہیں تاکہ ان کے لختِ جگروں کے خون کی قدر ہو سکے اور معاشرے کو ایک مثال ملے۔ ہمارا معاشرہ دن بہ دن عدم برداشت اور شدت پسندی کی طرف جا رہا ہے۔ وہی معاشرہ جس میں کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ہنس کر معاملہ ختم کر دیتے تھے، آج معمولی تنازعے پر انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ لاہور میں پیش آنے والا یہ واقعہ اسی تلخ حقیقت کا عکاس ہے۔ واقعے کے بعد عوامی غم و غصے کے دباؤ پر پولیس حرکت میں آئی۔ ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور تحقیقات شروع ہوئیں۔ ابتدا میں مقتول خاندان اور عوام کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ مقدمہ بھی دیگر مقدمات کی طرح وقت کے گرداب میں پھنس کر انصاف کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ تاہم حالات نے ایک نیا موڑ لیا۔ اب خبر آئی ہے کہ گرفتار ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ انصاف ہے اور ایسے قاتلوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔ لیکن کچھ نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا واقعی یہ پولیس مقابلہ تھا یا ملزمان کو جان بوجھ کر ختم کر دیا گیا تاکہ عدالت میں کارروائی نہ ہو سکے؟ عوامی رائے دو حصوں میں بٹی رہی۔ ایک طبقہ خوش تھا کہ ظالم اپنے انجام کو پہنچے اور مقتولین کے خاندان کو سکون ملا۔ دوسرا طبقہ تشویش میں مبتلا تھا کہ اگر انصاف عدالتوں میں نہیں ہوگا تو یہ رجحان مستقبل میں مزید خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔ ایک چھوٹے سے جھگڑے نے دو نوجوان بھائیوں کی جان لے لی ہے ۔ ان کے والدین ہمیشہ کے لیے صدمے میں ڈوب گئے۔ ملزمان پولیس مقابلے میں مارے گئے اور یوں یہ کہانی بظاہر اپنے انجام کو پہنچی۔ لیکن اصل سوال آج بھی زندہ ہے! کیا یہ انصاف ہے؟ کیا مقتول خاندان کے دکھ کا حقیقی مداوا ہوگیا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم نے معاشرے کے طور پر کوئی سبق سیکھا یا نہیں؟ یہ واقعہ ہمیں ایک کڑوا سبق دیتا ہے۔ ہم میں برداشت کی کمی اور غصے کا بڑھتا ہوا رویہ ہمارے سماج کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ تیس روپے کی قیمت پر دو زندگیاں ختم ہو جانا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو نجانے اور کتنے گھروں کے چراغ یوں ہی بجھتے رہیں گے۔ |
|