سبز توانائی
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
سبز توانائی تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ برسوں میں ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے متعدد عملی اقدامات کے ذریعے یہ کوشش کی ہے کہ ملک میں سبز توانائی کی فراہمی کا جامع نظام بنایا جائے۔ملک میں سبز کم کاربن صنعتی نظام کو فروغ دینے کی خاطر فوسل توانائی کے استعمال کے تناسب کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے اور گرین ہائیڈروجن، قابل تجدید بجلی (شمسی توانائی، ہوا کی طاقت،پن بجلی وغیرہ) اور دیگر سبز توانائی کے استعمال کے تناسب کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
چین کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حالیہ برسوں میں اس نے اپنے توانائی کے شعبے میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں اور 14ویں پنج سالہ منصوبے (2021-2025) کے دوران کئی اہم سنگ میل اور نمایاں اہداف حاصل کیے گئے ہیں۔ چین کا ہدف ہے کہ 2025 تک ملک میں سالانہ توانائی کی پیداواری صلاحیت 4.6 بلین ٹن سٹینڈرڈ کوئلے سے تجاوز کر جائے اور کل توانائی کی کھپت میں غیرفوسل ایندھن کا حصہ تقریباً 20 فیصد تک بڑھے۔
حقائق اور اعداد وشمار بھی واضح کرتے ہیں کہ چین سبز اور کم کاربن ترقی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہا ہے اور صاف توانائی کی عالمی تبدیلی میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔
جہاں تک سبز منتقلی یا گرین ٹرانزیشن کا تعلق ہے تو 2021سے 2025 کے پانچ سالہ عرصے کے دوران چین کی کم کاربن منتقلی میں بے مثال تیزی آئی ہے۔اس عرصے میں، ملک نے دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرنے والا قابل تجدید توانائی کا نظام تعمیر کیا ہے ، جس میں کل نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں قابل تجدید توانائی کا حصہ تقریباً 40 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 60 فیصد ہو گیا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین لگاتار 15 سالوں سے ونڈ پاور کی تنصیب میں اور ایک دہائی سے فوٹو وولٹک پاور کی تنصیب میں دنیا میں سرفہرست ہے۔2021 تا 2025کی مدت میں، چین نئی توانائی کی ٹیکنالوجی اور مصنوعات میں عالمی رہنما کے طور پر ابھرا ہے، جس کے نئی توانائی کے پیٹنٹس دنیا کی مجموعی تعداد کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں۔
ملک نے پچھلے پانچ سالوں میں اہم شعبوں میں دنیا کے ریکارڈ توڑے رکھے ہیں، جن میں فوٹو وولٹک کنورژن کی کارکردگی اور آف شور ونڈ ٹربائنز یونٹ کی صلاحیت شامل ہیں۔ ملک میں نئی قسم کی توانائی کے اسٹوریج کا سائز بھی دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔
علاوہ ازیں، اس عرصے کے دوران چین نے دنیا کا سب سے بڑا الیکٹرک گاڑی چارجنگ نیٹ ورک قائم کیا ہے۔اگست 2025 کے آخر تک، چین کے چارجنگ انفراسٹرکچر سہولیات کی تعداد 16.696 ملین یونٹس تک پہنچ گئی تھی، جو تیرہویں پنج سالہ منصوبے (2016-2020) کے اختتام سے دس گنا زیادہ ہے۔
اس شعبے میں عالمی تعاون کا ذکر کیا جائے تو پچھلے پانچ سالوں میں چین نے عالمی کم کاربن منتقلی میں بھی اہم شراکتیں قائم کی ہیں۔اس عرصے کے دوران، چین کی ونڈ پاور اور فوٹو وولٹک مصنوعات کی برآمدات نے دوسرے ممالک کو تقریباً 4.1 بلین ٹن کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔
سبز منتقلی اور اختراعی تعاون پر مرکوز، چین نے قازقستان، ڈنمارک اور سنگاپور سمیت دس سے زائد ممالک کے ساتھ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، یہ معاہدے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت سبز توانائی تعاون کے لیے رہنما کے طور پر کام کرتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی توانائی کے وزراء کی اس سال کی میٹنگ میں، چینی اور غیر ملکی کمپنیوں نے 25 توانائی منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے، جن کی کل مالیت تقریباً 40 بلین یوآن (تقریباً 5.62 بلین امریکی ڈالر) تھی۔
چین نے 100 سے زیادہ ممالک اور خطوں کو سبز توانائی منصوبوں میں شراکت دار بنایا ہے اور آسیان ، وسطیٰ ایشیا، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں صاف توانائی، انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن اور تبدیلی، اور توانائی کے باہمی رابطے جیسے شعبوں میں تعاون کو مستحکم طریقے سے آگے بڑھایا ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے، چین توانائی کی سلامتی، توانائی کی منتقلی اور عالمی آب و ہوا کے ردعمل کے حوالے سے اقدامات میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ چین کا اس حوالے سے بھی پختہ عزم ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت اعلیٰ معیار کے سبز توانائی کے تعاون کو آگے بڑھائے گا اور منصفانہ، متوازن اور عالمی سطح پر فائدہ مند عالمی توانائی کے نظام کی حکمرانی کے قیام کو فروغ دے گا ،جس سے چین سمیت دیگر دنیا کے لیے بھی ثمرات کا حصول ممکن ہو گا۔
|
|