بڑا پرانا ٹرینڈ ہے کہ کمزور کو دباؤ اور طاقت ور سے دب
جاؤ۔یہ ٹرینڈ یوں تو پوری دنیا میں پایا جاتاہے۔مگر ہمارے ہاں یہ کچھ زیادہ
ہی ہے۔قانون کی سبھی دفعات اور آئین کی ساری شقیں اس ٹرینڈ کے آگے ہیچ
ہیں۔سارے اخلاقیات سارے ضابطے بے اثر۔معمولی سے ریڑھی بان سے لے کر ایوان
صدر تک بیٹھے لوگ اس ٹرینڈ کے اسیر نظر آتے ہیں۔اگر کوئی ماڑی حکومت ہوئی
تو ایوان صدر سے چھٹیوں کے انبار نازل ہونے لگے۔اگر تگڑی حکومت ہے تو ایوان
صدر یوں خاموشی صاد رکھتاہے جیسے اس نام کا کوئی دفتر وجود نہ
رکھتاہو۔ریڑھی بان کسی سیدھے سادے بھلے مانس سے دوگنے چوگنے وصول کرلیتاہے
اوراس کا یہی مال کوئی بدزبان اور تیز گاہک اونے پونے لے جاتاہے۔ہر جگہ
دھکے شاہی کا راج ہے۔تحریک انصا ف کو سندھ میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔جناب
زرداری صاحب ٹیڑھی کھیر ثابت ہوئے۔تحریک انصاف کی قیادت کی خوش فہمی ختم
ہونے میں زیادہ وقت ننہیں لگا۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا سندھ دور ہ
منسوخ ہونا اس خو ش فہمی کے خاتمے کی دلیل ہے۔سوچا گیا تھا کہ شاید میاں
نوازشریف کی طرح جناب زردار ی بھی نیب اور عدالتوں کے آگے سرنگوں ہوجائیں
گے روائتی طریقہ کار کے شکار ہوجائیں گے۔ایسا نہیں ہوا۔میاں صاحب تو اپنے
بھولپن سے مار کھاگئے۔ مگر زرداری صاحب نے بے جا پارسائی کا گمان نہیں
کیا۔جس طرح کی کمان سے تیر آئے تھے اسی جیسی کمان سے تیر چلاکر دوسرے کو
پسپا کردیا۔ لیگی قیادت اللہ توکلی پر رہی مگر پی پی قیادت نے بشری آفات کو
بشری فہم وفراست سے کام لے گر ٹال لیا۔
پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زردار ی نے اعلان کیا ہے کہ اگر صدر زرداری اجازت
دیں تو مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرسکتے ہیں۔پی پی چیئرمین کی بات
سچ ماننا پڑے گی۔گورنر راج لگنے سے روک لینا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کے
بعد اس کے کسی بھی دعوے پر یقین کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔مزے کی بات
دیکھیے کہ یہ کارنامہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ لوگوں کا ہے بحیثیت مجموعی
پارٹی زیادہ فعال نہیں رہی۔نہ ہی عوام کی طرف سے کوئی بڑا ریسپانس نظر
آیا۔پی پی کے جو دوچار جلسے ہوئے ان میں ایوریج تعداد میں عوام کی شرکت
تھی۔سندھ حکومت میں شامل اکثریت نے بھی خاموش تماشائی بنے رہنے پر اکتفا
کیا۔یہ کارنامہ سابق صدر آصف زرداری کے نام ہے یا پھروہ دو چار گمنام لوگ
اس کے حقدار ہیں جنہوں نے پردے کے پیچھے بھاگ دوڑ کرکے اس سازش کو ناکام
بنایا۔ جناب زرداری نے بلائنڈ چال چلی تھی جو اتفاق سے کارگر رہی۔بہت بڑا
جو ا ء تھاجس میں تحریک انصاف کی ہار کا تصور بھی ناممکن تھا۔جس طرح سے پی
پی قیادت نے پھر تین سال نوکری والوں کو مخاطب کیا تھا۔اس کے بعد ان کا
کھیل ختم ہوجانے کی باتیں ہونے لگی تھی۔بلائنڈچال کام دکھاگئی۔مرکزی حکومت
نے عجلت میں غلط چال چل دی۔یہ پی پی قیادت کی کامیاب حکمت عملی ہی تھی کہ
منہ زبانی سب کچھ کہہ بھی لیااور کچھ نقصان بھی نہیں اٹھایا۔اس سمارٹ موو
سے صوبائی حکومت کو بھی بچا لیا گیا۔اور احتسا ب کے تنگ ہوتاگھیرا بھی نرم
کرنے میں کامیابی ملی ۔گھیراؤ کرنے والوں کے پاس اب اپنے طریقہ کار پر نظر
ثانی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
کمزو رپر چڑھ دوڑنے اور تگڑے سے جان چھڑانے کا ٹرینڈ جاری ہے۔ اگلے کچھ
ہفتوں میں اس میں مذید تیزی آسکتی ہے۔تحریک انصاف لازماً دوبارہ ٹرائی کرے
گی۔کئی بار پھریہ کوشش کی جائے گی۔پی پی کی طرف سے بھی اسے مناسب جواب دینے
کا سلسلہ جاری رہے گا۔اسے سارے معاملے میں سب سے بڑی بات جو سامنے آئی وہ
تحریک انصاف کی قیادت کی غلط فہمی کا دور ہونا ہے۔اسے پی پی اور لیگی قیادت
کے ایک جیسی ہونے کی غلط فہمی تھی جو دور ہوچکی۔میاں صاحب تو اپنے بھولپن
سے مار کھاگئے۔اپنی پاک دامنی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر زرداری صاحب محض روایتی
طریقہ اختیار کرنے کے حق میں نہیں۔وہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہونے کے
قائل ہیں۔نوازشریف کو غلط فہمی تھی کہ ان کا دامن صاف ہے وہ بے خوفی سے
روایتی طریقہ کار کو فالو کرنے میں لگے رہے۔انہیں اندازہ نہ تھا کہ بے خوفی
تبھی ممکن تھی جب دوسری طرف والوں کا دامن بھی صاف ہو۔جب اگلا ہر حال میں
کیڑے نکالنے پر ہی اترا ہوا ہو تو کیا پاک دامنی اور کیا گنہگاری۔آپ تو
روزانہ کی بنیا دپر حاضریاں بھگتتے رہے۔قانون کے احترام کی تصویر بننے کے
چکر میں رہے۔جب کہ جناب زرداری نے زیادہ تر وکیل کو بھیجنے پر اکتفا
کیا۔جتنا وقت عدالتوں میں حاضری اور موجودگی میں صرف ہوتا اس سے پی پی
قیادت نے غیر روایتی بندوبست مکمل کرنے کا کام لیا۔تحریک انصاف کی قیادت
سندھ فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔خیال تھا کہ اگلے ہفتے دو ہفتے بعد
وہاں نئے وزیراعلی کی حلف برداری کا عالی شان ایونٹ ہوگا۔سب کچھ ٹھس
ہوگیا۔پی پی قیادت نے ثابت کردیا کہ وہ مزاحمت کرسکتی ہے۔اپنے حق کے لیے لڑ
نا جانتی ہے ۔ اسے ایزی نہ لیا جائے۔کوئی اسے ایسی دیوار نہ سمجھ بیٹھے جو
پلٹ کر وار نہیں کرسکتی۔ |