کہیں ایسا تو نہیں؟

نظام مصطفےٰﷺ کی تحریک زوروں پہ تھی۔ لگتا یوں تھا کہ اب پاکستان میں بس شریعت مطہرہ کا نفاذ ہوگا اور پھر اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور لوٹ آئے گا۔ نا انصافی ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہو جائے گا اور پاکستان بنانے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ لیکن ہوا کیا بجائے اس کے عوام کی امنگوں اور خواہشوں کے مطابق نظام اسلام کا نفاذ ہوتا۔ایمان اور اسلام تو نہ آسکا نہ ہم کل مومنین بن سکے لیکن امیر المومنین تشریف لے آئے انہوں نے نہ صرف ملک کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا بلکہ ملک میں فرقہ واریت اور لسانیت کا وہ بیج بویا کہ جس کی فصل ہم ابھی تک کاٹ رہے ہیں۔ اور یہ ایسی بد بخت فصل ہے کہ مسلسل کاٹے جانے کے باوجود اگلی صبح پہلے سے بھی زیادہ بہار دکھانے لگتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ہم اپنی ہی لاشیں اپنے ہی ہاتھوں نہ اٹھائیں۔ کہیں ڈرون حملے ہیں تو کہیں بم دھماکے۔ کہیں ٹارگٹ کلنگ ہے تو کہیں بھتہ خوری۔ ان سارے معاملات کا ثواب انہی حضرت کی روح کو جاتا ہے جنہیں حبیب جالب نے ضیاء کی بجائے ظلمت کہا تھا۔

آج ہمارا ملک اسی طرح کی ایک اور تحریک کے دہانے پہ ہے۔ حرمت عزت اور ناموس مصطفےٰﷺ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس پہ پاکستان میں تو کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی دوسری رائے بھی رکھ سکے۔ کوئی بھلے حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں اس کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اس معاملے میں انتہاء کی احتیاط کرے۔ گورنر تاثیر کی عبرتناک موت اس طرح کے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا انتباہ ہے۔ ملک کے وزیر اعظم ملک کی منتخب اسمبلی میں کھڑے ہو کے یہ اعلان کرتے ہیں کہ حرمت نبی ﷺ کے قانون میں ملک میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی زیر غور ہی نہیں۔اس پر حکومت سے ابھی حال ہی میں فارغ ہونے والے ایک مولانا نے فرمایا ہے کہ ہم وزیر اعظم کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ہماری تحریک جاری رہے گی۔

اب آئیے ذرا اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس وقت پورا عالم اسلام اتھل پتھل کا شکار ہے۔بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تحریکیں ایک خاص پیٹرن سے اٹھ رہی ہیں۔ گو کہ عرب ممالک کے حالات بھی ایک ہی جیسے ہیں لیکن اس طرح سے ایک ہی طریقے سے کھمبیوں کی طرح اگ جانے والی تحریکیں کیا ہمیں غوروفکر کی دعوت نہیں دیتیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بد امنی کسی اور کے اشارے پہ مچائی جا رہی ہو۔جمہوریت ایک اچھا نظام ہے لیکن اس کے لئے کیا ضروری ہے کہ امریکہ بہادر ہی ہمیں اس کا حکم دے۔ تیونس میں جو ہوا وہ آپ دیکھ چکے۔مصر میں جو ہو رہا ہے اسے آپ ملا حظہ کر رہے ہیں۔اردن کے شاہ پہ بھی کپکپی طاری ہے۔بدخواہوں کی نظریں ایران اور پاکستان میں بھی ہیں۔آخر مسلم ممالک ہی کیوں یکدم جمہوریت کے عشق میں باؤلے ہو رہے ہیں۔کہیں یہ وہی لوگ تو نہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی آڑ میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈوریاں ہلانے والا ایک ہی ہو۔کہیں کوئی اس تحریک کی آڑ میں اس ملک کے درپے تو نہیں۔ کہیں کوئی ہم سے ہماری آزادی تو نہیں چھیننا چاہتا۔اس وقت پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام مخالف کسی بھی حرکت پہ دنیا میں سب سے زیادہ ردعمل ہوتا ہے۔ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ہم ایک بہترین فوج رکھتے ہیں۔مذہبی جذبات کے ساتھ ہمارے اندر جذبہ حب الوطنی اور آپس کی محبت بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس کا مظاہرہ ہم زلزلے اور سیلاب کی قدرتی آفت کے دوران کر چکے ہیں۔گو ہمیں قابل قیادت مہیا نہیں لیکن اس کے علاوہ ہم میں قیادت کے سارے جراثیم موجود ہیں۔ہم عالم اسلام میں ایک خاص مقام و مرتبے کے حامل ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کسی کی آنکھ میں خار بن کے کھٹک رہے ہوں اور وہ اپنی ریشہ دوانیوں سے ہمیں تباہ و برباد کرنا چاہتا ہو۔ہماری مذہبی جماعتوں کو بتایا جا رہا ہو کہ رسول اکرم ﷺ کی عزت و حرمت پہ تمہاری موجودگی میں اگر کوئی قانون پاس ہو گیا یا اسی قانون میں کوئی ردوبدل ہو گیا تو تمہاری سیاست ختم ہو جائیگی۔لوگ تم پہ تھوکیں گے اور تمہاری رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔دوسری طرف حکومت کو یہ دھمکی دی جا رہی ہو کہ اگر تم نے اس قانون کو نہ بدلا تو تمہاری امداد روک دی جائے گی۔تمہیں دی گئی سب مراعات اور رعائیتیں واپس لے لی جائیں گی اور عالمی مالیاتی اداروں کو مجبور کیا جائے گا کہ تمہاری گردن کے گرد موجود پھندے کو مزید کسنے کا انتظام کیا جائے۔تیسری سمت کسی کو جلد آنے والے انقلاب کا اشارہ بھی کر دیا گیا ہو۔

دیکھا جائے تو کسی کی ہمت نہیں کہ متفق علیہ قانون میں کسی ترمیم کا اس ملک میں سوچ بھی سکے۔ حضور ختمی مرتبتﷺ اپنے پہ کوڑا پھینکنے والی خاتون کی عیادت کو جایا کرتے تھے کہ وہ عالمین کے لئے رحمت تھے۔وہ اپنے ساتھ کی گئی کسی بھی گستا خی کو معاف فرما دیتے تھے مگر اسے دلیل بنانے والے حضرت عمرؓ کے ایک منافق کے قتل اور فتح مکہ کے موقع پر گستاخوں کے قتل کے احکام کو دلیل کیوں نہیں مانتے۔ حضور ﷺ کی معافی ان کے ساتھ خاص تھی۔کوئی امتی اپنے پیارے نبی ﷺ کی شان میں کی گئی گستاخی بھلا کیوں کر برداشت کر سکتا ہے۔پاکستان میں اس مؤقف کے حامی ہی بستے ہیں۔اس لئے اس معاملے میں ہمیں کسی قیادت کی بھی ضرورت نہیں۔رحمٰن ملک جیسے وزیر بھی جنہیں سورہ اخلاص بھی سیدھی نہیں آتی ،ریکارڈ پہ ہیں کہ شاتم رسول ﷺ کو وہ خود اپنے ہاتھ سے قتل کر دیں گے۔اس کے بعد آپ خود ہی سوچیں باقی کیا رہ جاتا ہے۔اس کے باوجود حکومت بھی کسی واضح اعلان سے انکاری ہے۔وزیر اعظم یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ اس قانون میں کسی تبدیلی کی نہ تو گنجائش ہے نہ ضرورت لیکن حزب اختلاف کو بلاتے نہیں کہ کم از کم قوم کے سر سے یہ بوجھ تو کم ہو۔ حزب اختلاف بھی آئے روز کسی نئی ریلی کا اعلان کرتی ہے اور بیٹھ کر معاملہ سلجھاتی نہیں۔پھر میں اگر یہ سوچتا ہوں کہ یہ کسی تیسرے کی سازش ہے تو کیا غلط سوچتا ہوں ۔نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.